غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے کے بعد ایسے طلبہ جو غیر ملکی اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں وہ اب اپنے ملک میں ان عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2023, 9:54 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے کے بعد ایسے طلبہ جو غیر ملکی اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں وہ اب اپنے ملک میں ان عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔
حال ہی میں یونیورسٹی سروس گرانٹس کمیشن (یوجی سی) نے ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کو کیمپس کھولنے کی اجازت دے دی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے ہندوستانی طلباء وطالبات کو نہ صرف آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ ملک سے جو ایک خطیر رقم غیر ملکوں میں چلی جاتی ہے اس میں بھی کمی واقع ہوگی کیونکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں ہندوستانی طلبہ کو اپنی فیس ودیگر اخراجات کے لئے ڈالر کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی اپنی رپورٹ میں اس کی وضاحت کی تھی کہ ۲۰۲۲ء میں تقریباً ۱۳؍لاکھ ہندوستانی طلبہ نے غیر ملکی یونیورسٹیوں کا رخ کیا ہے جن پر ۲۵؍ارب ڈالر کے اخراجات ہوتے ہیں۔برطانیہ ایک تنظیم برٹش ایجوکیشن سٹن ٹرسٹ کے چیئر مین سر پیٹر لیمپل نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ برطانیہ کی دس بڑی یونیورسٹیوں میں برطانیہ کے مقامی طلبہ سے زیادہ ہندوستانی طلبہ داخلہ کے لئے درخواست دیتے ہیں اور ان میں تقریباً صد فیصد طلبہ کو کسی نہ کسی فیکلٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔سر لیمپل کے مطابق برطانیہ کی دس یونیورسٹیوں میں جن میں عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیاں آکسفورڈ اور کیمبرج شامل ہیں ان میں ۲۳۸۹۷؍ ہندوستانی طلبہ نے داخلہ کے لئے فارم داخل کئے ہیں جب کہ برطانیہ کے مقامی طلبہ کی تعداد۲۲۶۲۱ہے۔ان کے مطابق صرف کیمبرج اور آکسفورڈ میں ۷۹۹۸؍ ہندوستانی طلبہ کے داخلہ فارم حاصل ہوئے ہیںجب کہ برطانیہ کے شہری طلبہ کی تعداد۷۵۴۴؍ ہے۔ اس اعداد وشمار سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کے تئیں ہمارے طلبہ کے ذہن ودل میں کس طرح کے منفی رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ شاید اس لئے یو جی سی نے بر وقت یہ فیصلہ لیا ہے کہ غیر ملکی یونیوسٹیوں کو ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے احاطے میں یا پھر آزادانہ طورپر کیمپس کھولنے کی اجازت دی جائے۔ واضح ہو کہ لندن اسکول آف اکنامکس کے نگراں ڈاکٹر گیون کان لان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ہندوستانی طلبہ کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے برطانیہ کی معاشیات کو بڑا فائدہ پہنچ رہاہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ سے مقامی طلبہ کے مقابل دس گنا فیس لی جاتی ہے اور جب طلبہ وہاں داخلہ لیتے ہیں تو پھر اس کے طعام وقیام کے اخراجات کی وجہ سے بھی برطانیہ کی اقتصادی حالت مستحکم ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ اپنے مالی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم رشی سونک نے ایک ایسی اسٹوڈنٹ ویزاپالیسی بنائی ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی طلبہ کے لئے وہاں کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا آسان ہوگیا ہے اور اس سال کے اکتوبرتک ۱۴۸۸۴۸؍طلبا ءوطالبات کو اسٹوڈنٹس ویزا ملا ہے ۔اتنا ہی نہیں برطانیہ کے نامور اسکولی تعلیمی ادارے ہیرو اور ویلنگٹن بھی ہندوستان میں اپنے مراکز کھولنے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں یہاں سازگار ماحول مل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پونے اور بنگلورمیں کئی اسکول ابھی تک کھل چکے ہیں۔
بہر کیف! یونیورسٹی سروس کمیشن کے اجازت نامے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی، ملبورن یونیورسٹی، کوئس لینڈ یونیورسٹی، ٹکساس یونیورسٹی اور سینٹ پیٹرس ورک یونیورسٹی جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں نے ہندوستان میں اپنا کیمپس کھولنے کے لئے رضا مندی ظاہر کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے کے بعد ایسے طلبہ جو غیر ملکی اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں وہ اب اپنے ملک میں ان عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ غیر ملکی یونیورسٹیاں ہندوستان میں جب آئیں گی تو اپنے داخلہ فیس میں کمی کریں گی یا نہیں اور دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت نے اپنی تعلیمی پالیسی میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم کے ذریعہ ہندوستانی وراثت کی شناخت کو مستحکم کیا جائے گا۔اگر غیر ملکی یونیورسٹیاں آتی ہیں تو وہ ’’ووکل فار لوکل‘‘ کے اصول کو اپنائیں گی ؟اس لئے میرے خیال میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے لئے دروازہ کھولنے کے ساتھ ساتھ ان پر معقول فیس اور ہندوستانی تہذیب وتمدن کے تحفظ کیلئے بھی شرائط طے کرنے ہوں گے۔ساتھ ہی اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کیلئے نہ صرف لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے بلکہ انقلابی اقدام بھی اٹھانے چاہئیں تاکہ ہماری یونیورسٹیوں میں نئے نئے تکنیکی شعبے قائم ہو سکیں اور مراکز سے دور دیہی علاقوں کی یونیورسٹیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت اپنے وطن عزیز میں مختلف سرکاری اسکیموں اور اسکالر شپ کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو خاندان اہلِ ثروت ہیں وہ اپنے بچوں کو بڑی فیس دے کر غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھیج رہے ہیں لیکن جو پسماندہ اور معاشی طورپر کمزور ہیں انکیلئے اگر ملکی یونیورسٹیوں کو عصری معیار کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لائق نہیں بنایا گیا تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملککیلئے خسارہ ثابت ہو سکتا ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اس کی وکالت کی ہے کہ اب تک کی پالیسیوں میں جو نقص رہا ہے اس کو دور کرنے کیلئے ہی یہ نئی پالیسی بنائی گئی ہے ۔اس لئے اب ہمارے ماہرین تعلیم اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کی حکومتوں کو بھی اس مسئلہ پر غوروفکر کرنا ضروری ہے کہ اپنے ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کی توسیع سے ہماری نئی تعلیمی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری قدیم یونیورسٹیوں کے مستقبل پر اس کے کیا مضر اثرات نمایاں ہوں گے۔چوں کہ ابھی وقت ہے کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں کی آمد کے قبل اگر اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کی تصویر بدلنے کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اس وقت اگر بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیوں میں ہمارے ملک کی محض چند یونیورسٹی اورآئی آئی ٹی جیسے مراکز کے شمار ہوتے ہیں تو آئندہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ واضح ہو کہ ہر سال بین الاقوامی سطح پر مختلف تنظیموں کے سروے کے ذریعہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ کا خلاصہ کیا جاتا ہے اور اس میں ہماری یونیورسٹیوں کو خاطر خواہ جگہ نہیں ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیاں نہیں ہیں مگر نہ جانے کس پیمانے کے تحت جب رینکنگ کی فہرست جاری ہوتی ہے تو ان میں ہمیں مایوسی ہاتھ آتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یو جی سی نے جو فیصلہ لیا ہے اس کے بعد قومی سطح پر کس طرح کا نظریہ سامنے آتا ہےیہ غور وفکرکرنے کی بات ہےکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں کی آمد کے بعد ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کی شناخت کے مسخ ہونے کا راستہ تو ہموار نہیں ہو جائے گا۔n