Inquilab Logo

ایمان،عمل صالح،تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو ہیں

Updated: July 02, 2021, 7:24 PM IST | Dr.Israr Ahmed

سورۃ العصر پر اگر بطریق تدبّر غور کیا جائے تو اس کی مرکزی اور درمیانی آیت سے نوعِ انسانی کی ایک عجیب اَلمیاتی (tragic) کیفیت سامنے آتی ہے۔ انسان کا بحیثیت انسان بڑا ہی درد ناک انجام اس آیۂ مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

نوع انسانی کا المیہ:
سورۃ العصر پر اگر بطریق تدبّر غور کیا جائے تو اس کی مرکزی اور درمیانی آیت سے نوعِ انسانی کی ایک عجیب اَلمیاتی (tragic) کیفیت سامنے آتی ہے۔ انسان کا بحیثیت انسان بڑا ہی درد ناک انجام اس آیۂ مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے: اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۔لفظ ’’انسان‘‘پر ’’ال‘‘ کی صورت میں جو حرفِ تعریف داخل ہوا ہے یہ بلا اختلاف ’’لامِ جنس‘‘ ہے، گویا یہاں ’’اَلْاِنْسَان‘‘ سے تمام کے تمام انسان اور پوری نوعِ انسانی مراد ہے۔ ’’لَفِیۡ خُسۡرٍ ‘‘ کا عام طور پر ترجمہ یوں کیاجاتا ہے کہ ’’یقیناً خسارے میں ہے‘ گھاٹے میں ہے۔‘‘ لیکن یہ بات جان لینی چاہئے کہ یہاں خسارے سے مراد کوئی دو چار لاکھ یا دو چار کروڑ کا خسارہ نہیں،بلکہ اس سے مراد ہے بربادی،تباہی اور ہلاکت۔ اسی لئے قرآن مجید اگرچہ کامیابی کے لئے متعدد الفاظ استعمال کرتا ہے،مثلاً فوز، فلاح، سعادت اور رشد وغیرہ،لیکن ان سب کی ضد میں بالعموم ایک ہی لفظ ’’خسران‘‘کو استعمال کرتا ہے۔
عصر کی حقیقت:
لفظ  ’’ الۡعَصۡر‘‘ پر بھی  غور کیجئے! ’’عصر‘‘کا ترجمہ بالعموم  ’’زمانہ‘‘کیا جاتا ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ’’زَمان‘‘بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور وقت بھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں لفظ ’’زَمَان‘‘کا استعمال کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ ’’وقت‘‘کا استعمال ایک دو مقامات پر مل جاتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید میں ’’عصر‘،اور ’’دھر‘‘(دہر) کے الفاظ کا استعمال زیادہ نظر آتا ہے۔
والعصر کا حقیقی مفہوم:
اس پس منظر میں اب ’’وَ الۡعَصۡرِ ‘‘کے مفہوم پر غور کیجئے، ترجمہ کچھ یوں ہو گا : ’’تیزی سے گزرنے والا زمانہ گواہ ہے۔‘‘ اس آیۂ مبارکہ میں بڑا چونکا دینے کا انداز ہے۔ انسان کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ یہ وقت جو بظاہر ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے، درحقیقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ تمہاری اصل پونجی یعنی مہلت ِ عمر تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 
لفظ ’’والعصر‘‘کے صوتی آہنگ اور صوتی کیفیت میں بھی چونکا دینے کی کیفیت موجود ہے۔ مزید غورکرنے پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ زمانہ ایک ایسی مسلسل چادر کی مانند ہے جو ازل سے ابد تک تنی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ زمانہ مختلف قوموں کے عروج و زوال کا چشم دید گواہ ہے۔ نوعِ انسانی جن جن مراحل سے گزری ہے،جو جو حالات اس کو پیش آتے رہے ہیں، یہ سب گویا زمانے کے سامنے کی چیزیں ہیں۔ قومِ نوحؑ، قومِ ہودؑ اور قومِ صالحؑ کا جو انجام ہوا، قومِ لوطؑ اور قومِ شعیبؑ جس انجام سے دوچار ہوئے، آلِ فرعون جس طرح غرق ہوئی، ان تمام بڑے بڑے واقعات کا چشم دید گواہ یہ زمانہ ہے۔ اس زمانہ نے قوموں کو اُبھرتے اور گرتے بھی دیکھا ہے اورتمدنوں کو بنتے اور بگڑتے بھی دیکھا ہے۔ پھر یہ زمانہ قصۂ آدم و ابلیس کا چشم دید گواہ بھی ہے اور یہی زمانہ انسان کے آخری انجام کا بھی عینی شاہد ہو گا۔
روشنی کی ایک کرن:
اب تیسری آیت پر توجہ کومرکوز کیجئے! یہ تیسری آیت مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن بن کر طلوع ہوتی ہے کہ اگرچہ بحیثیت مجموعی پوری نوعِ انسانی کا مقدر یہ ہے کہ وہ ہلاکت اور بربادی سے دوچار ہونے والی ہے لیکن اس قاعدہ و کلیہ میں ایک استثناء موجود ہے۔ اس خسارے سے نجات کی ایک صورت ممکن ہے۔ اس تیسری آیت میں انسان کی رہنمائی ایک صراطِ مستقیم کی جانب کی گئی ہے جس پر چل کر وہ اپنے آپ کو اس ہلاکت خیز انجام سے بچا سکتا ہے اور فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
اس صراطِ مستقیم یا سواء السبیل کے چار سنگ ہائے میل (mile stones) ہیں،یا یوں کہئے کہ اس کی چار منزلیں ہیں۔ اوّلین منزل ہے ایمان، دوسری ہے عمل صالح، تیسری ہے تواصی بالحق اور چوتھی ہے تواصی بالصبر۔ یہاں قرآن مجید نے جس انداز میں ان چار اصطلاحات کو بیان کیا ہے اور اُس کے لئے اس نے جو الفاظ اختیار کئے ہیں تو واقعتاً انہوں نے قرآن مجید کی بنیادی اصطلاحات کی صورت اختیار کر لی ہے۔ 
ایمان کا مفہوم:
ایمان درحقیقت نام ہے اس کائنات کے بارے میں اُن بنیادی حقائق کو تسلیم کرنے کا جن کی خبر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔ انبیاءؑ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کائنات کے ان اصل اور اساسی حقائق تک، جو عام انسانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں،ان کی رسائی ایک ایسے ذریعۂ علم کے واسطہ سے ہوئی ہے جو عام انسانوں کو حاصل نہیں، یعنی ’’وحی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی صفاتِ کمال، حیات  بعد الموت، حساب کتاب، جزا و سزا اور جنت و دوزخ، یہ وہ امور ہیں کہ جن تک رسائی انسان اپنے حواس کے ذریعے سے حاصل نہیں کر سکتا۔ ان حقائق کے بارے میں حتمی خبر ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام نے دی ہے۔ ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے اور ان کو تسلیم کرلینے کا نام ایمان ہے۔
ایمان کے دو درجے ہیں۔ ایک درجہ یہ ہے کہ زبان سے ان باتوں کومان لیا جائے۔ اسی کو ’’اقرار باللّسان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایمان کا اوّلین یا یوں کہئے کہ قانونی درجہ ہے کہ جس نے زبان سے ان حقائق کو مان لیا گویا وہ ان لوگوں سے ممیز ہو گیا جو ان اُمور کو نہیں مان رہے۔ ایمان کا دوسرا درجہ ’’تصدیق بالقلب‘‘ہے۔ یعنی وہ کیفیت کہ ان اُمور پر ایک پختہ یقین قلب ِانسانی میں پیدا ہو جائے۔ ایمان کی اصل روح یہی ہے ۔ گویا ایمان فی الحقیقت اقرار باللّسان اور تصدیق بالقلب کے مجموعے کا نام ہے۔ قلبی یقین کے نتیجے میں انسان کا عمل لازماً متاثر ہو تا ہے۔
ایمان وعمل صالح کا باہمی تعلق :
  یہ بات جان لینی چاہئے کہ ایمان اور عمل صالح قانون کے درجے میں اگرچہ دو جداگانہ حقیقتیں ہیں لیکن حقیقت کی سطح پر یہ دونوں ایک وحدت بن جاتے ہیں۔ 
 یہ اس طرح باہم لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں! ایمان اور عمل صالح کے باہمی لازم و ملزوم ہونے کا تعلق ایک متفق علیہ حدیث مبارکہ سے بھی سامنے آتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’خدا کی قسم، وہ شخص مؤمن نہیں، خدا کی قَسم وہ شخص مؤمن نہیں، خدا کی قَسم وہ شخص مؤمن نہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین لرز اٹھے ہوں گے۔ انہوں نے بہت ڈرتے ہوئے سوال کیا: ’’حضورؐ! یہ آپؐ کس کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں؟ جواباً آپﷺ نے فرمایا :  ’’وہ شخص کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی امن میں نہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں جو رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ ﷺ کے مندرجہ ذیل الفاظ نقل ہوئے ہیں:  ’’شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ رسول اللہﷺ نے کوئی خطبہ ارشاد فرمایا ہو اوراس میں آپؐ نے یہ الفاظ ارشاد نہ فرمائے ہوں : ’’ جس شخص میں امانت نہیں ہے اس کا کوئی ایمان نہیں ہے اور جس میں ایفاءِ عہد نہیں ہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایمان اگر حقیقی اور فی الواقع قلب ِ انسانی میں جاگزیں ہو گیا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ انسان کی سیرت و کردار میں اس کی جھلک نظر نہ آئے۔ 
تواصی کا مفہوم:
اب آیئے سورۃ کے آخری حصے کی طرف، یعنی وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ۔ الفاظ کے اس جوڑے میں لفظ ’’ تَوَاصَوۡا ‘‘ دوبار آیا ہے۔ مناسب ہو گا کہ پہلے اس پر غور کر لیا جائے! یہ لفظ ’’وصیت‘‘سے بنا ہے اور وصیت عربی زبان میں ہر اُس بات کو کہتے ہیں جو تاکید کے ساتھ کہی جائے۔ اردو زبان میں صرف کسی شخص کے انتقال کے وقت کی کہی ہوئی باتوں کو وصیت کہا جاتا ہے لیکن عربی میں اس کااطلاق ہر ایسی بات پر ہوتا ہے جو کسی بھی موقع پر تاکیداً کہی جائے۔ یہاں اس سورۂ مبارکہ میں یہ لفظ بابِ تفاعل میں آیا ہے۔ ’’تواصی‘‘باب تفاعل سے مصدر ہے، اور اس باب کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں جو الفاظ آتے ہیں ان میں ایک تو مبالغے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے،یعنی کسی کام کو اہتمام کے ساتھ سرانجام دینا، اور دوسرے ان میں شراکت کامفہوم شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی باہم مل جل کر کسی کام کو سرانجام دینا، تو ’’تواصی‘‘کامفہوم یہ ہو گا کہ انتہائی اہتمام کے ساتھ باہم ایک دوسرے کو کسی بات کی تلقین کرتے رہنا۔ یہ تلقین ’’حق‘کی بھی ہو گی اور ’’صبر‘‘کی بھی۔ 
حق ایک وسیع مفہوم:
’’حق‘ عربی زبان کا ایک وسیع المفہوم لفظ ہے۔ اس کے چار بنیادی مفاہیم بیان کئے جاتے ہیں: (۱) ہر وہ شے حق ہے جو فی الواقع موجود ہو۔ اس کے برعکس جو شے حقیقتاً موجود نہ ہو بلکہ محض سراب کی مانند نظر آ رہی ہو، اسے باطل کہا جائے گا۔ (۲)اسی طرح ہر وہ شے حق ہے جو عقلاً مسلّم (تسلیم شدہ) ہو (۳) جو اخلاقاً واجب ہو،اور (۴) اسی طرح وہ شے بھی حق کہلائے گی جس میں مقصدیت پائی جائے۔
یہاں قرآن مجید نے لفظ ’’حق‘‘استعمال کر کے تواصی بالحق کے مفہوم کو انتہائی وسعت دی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی حقیقت کے اعتراف و اعلان اور اُس کی تلقین اور تبلیغ سے لے کر اس کائنات کے بڑے سے بڑے حقائق کا ادراک و اعتراف اور ان کی تلقین و تبلیغ، یہ سب چیزیں تواصی بالحق میں شامل ہوں گی۔ گویا اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی کچھ رقم جو اُس کے ذمے قرض تھی، ادا نہ کر رہا ہو اور آپ جا کر اس سے کہیں کہ بھلے آدمی! فلاں کی رقم واپس کر دو تو یہ بھی تواصی بالحق میں شامل ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی ایسے بچے کو،  جو اپنے والدین کے حقوق ادا نہیں کر رہا، یہ تلقین کی کہ اپنے والدین کا ادب کیا کرو، ان کا کہنا مانا کرو تو یہ بھی تواصی بالحق ہی کی ایک شکل ہے۔ اسی طور پر اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اعلان و اعتراف کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے، اُس کا حق ہے کہ اُسی کی اطاعت کی جائے، اُس کا حق ہے کہ اُسی کا قانون نافذ ہو،تواصی بالحق کی بلند ترین منزل ہے۔ 
حق اور صبر  لازم و ملزوم:
تواصی بالحق کے ساتھ جڑا ہوا لفظ ہے ’’تواصی بالصبر‘‘ یہ بات عام طور پر معروف ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ اگر حق کی کوئی چھوٹی سی بات بھی کہی جائے تو بالعموم مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ میں نے مثال دی تھی کہ کسی شخص کو اگر کسی دوسرے شخص کا قرض ادا کرنا ہو اور آپ اس سے کہیں کہ بھلے آدمی اس کی رقم ادا کر دو، تو عین ممکن ہے کہ آپ کو یہ تیز و تند جواب ملے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملے میں دخل دینے والے؟ 
تو حقیقت یہ ہے کہ حق کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کا اعلان بھی آسان نہیں ہے۔ اس راہ میں لوگوں کی مخالفتوں اور تنقیدوں کاسامنا کرنا ہو گا۔ بالخصوص بڑے حقائق کے اعلان، ان کی تبلیغ اور ان کی اشاعت تو بہت ہی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ انسان ہر نوع کے مصائب جھیلنے کیلئے ذہنی طور پر  تیار ہوجائے اور جان لے کہ جس کام کا اس نے عزم کیا ہے وہ کانٹوں بھرا بستر ہے، پھولوں کی سیج نہیں! 
ایمان اور عمل صالح کا  تواصی 
بالحق اور تواصی بالصبر سے ربط :
یہ فطرت کا عام اصول ہے کہ کوئی شے نہ ماحول سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتی ہے نہ اسے متاثر کئے بغیر۔ برف میں جو خنکی ہے وہ اپنے ماحول میں لازماً سرایت کرے گی اور آگ کی حرارت اپنے ماحول کو لازماً گرم کر دے گی۔ یہی معاملہ اخلاقیات کے میدان میں ہے۔ اگر کسی انسان میں عمل صالح حقیقتاً پیدا ہو جائے تو وہ لازماً ماحول میں اثر و نفوذ کرے گااور اس سے نیکی اور بھلائی لازماً پھیلے گی ۔ گویا عمل ِ صالح کا فطری نتیجہ تواصی بالحق ہے۔
تواصی بالحق انسان کی شرافت کا بھی لازمی تقاضا ہے۔   اس لئےکہ جو حق کسی انسان پر منکشف ہوا ہے اور جسے خود اس نے اختیار کیا ہے اس کی انسان دوستی کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے دوسروں کے سامنے بھی پیش کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان اس سے نفع اندوز ہوں اور اس کی برکتوں سے متمتع ہو سکیں۔ اسی لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ : ’’یعنی تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں قرار پا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ ‘‘ اور آخری درجہ میں یہ انسان کی غیرت اور حمیت کا تقاضا بھی ہے کہ جس حق کو اُس نے خود قبول کیا ہے اس کا پرچار کرے، اس کا مبلّغ اور علَم بردار بنے اور اس کا بول بالا کرنے کے لئے تن من دھن سے جدوجہد کرے۔
الغرض جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو نظر یہی آتا ہے کہ ایمان،عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک جانب تو نجات کے ناگزیر لوازم ہیں اور دوسری جانب خود باہم لازم و ملزوم ہیں،بلکہ ان چاروں پر علاحدہ علاحدہ قدرے گہرائی میں اتر کر غور کرنے سے جو حقیقت منکشف ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ چاروں ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو ہیں اور ایک ہی کل کے اجزائے غیر  منفک ہیں۔ گویا ایمان،عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر، بقول اقبال ؔ ؏ ’’یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں۔‘‘ ایمان اگر حقیقی ہو جائے تو اس سے عمل صالح ضرور پیدا ہو گا  اور عمل صالح اگر پختہ ہو جائے تو لازماً تواصی بالحق پر منتج ہو گا  اور تواصی بالحق اگر واقعی اور حقیقی ہے تو تواصی بالصبر کا مرحلہ لازماً آ کر رہے گا۔
گویا سورۃ العصر نجات کی جس شاہراہ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے اور انسانی کامیابی کیلئے جس صراطِ مستقیم کی نشاندہی کرتی ہے اس کے چار سنگ ہائے میل ہیں جن پر ابھی ہم نے گفتگو کی۔ آئیے اسے ایک بار پھر دُہرا لیں کہ :  پہلا ایمان، دوسرا عمل صالح، تیسرا تواصی بالحق اور چوتھا تواصی بالصبر۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK