Inquilab Logo

جھوٹی کہانیاں ملک کے وقار سے کھلواڑکے مترادف ہیں

Updated: November 05, 2023, 1:41 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اسرائیلی سفیر سے ملاقات میں کنگنا رناوت کا بیان صریح طور پر تاریخ سے ان کی عدم واقفیت اور مسلمانوں سے ان کی دائمی نفرت کا اظہار ہے۔

Kangana`s meeting with the ambassador of Israel. Photo: INN
اسرائیل کے سفیر سے کنگنا کی ملاقات۔ تصویر:آئی این این

’’ہم ایک ہندو ریاست کی حیثیت سے اسرائیل کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ لوگ جس کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں وہ بجا طور پر آپ کی ہے۔ ہمارے درمیان کئی باتیں مماثل ہیں ۔جس طرح صدیوں سے ہندوؤں کی نسل کشی جاری رہی ویسا ہی کچھ معاملہ یہودیوں کا بھی رہا ہے۔ جس طرح ہم ایک ہندو اساس بھارت کا حق رکھتے ہیں اسی طرح یہودیوں کو بھی ایک ملک کا حق حاصل ہے۔‘‘
 واوین کی عبارت کنگنا رناوت کے اس بیان کا مفہوم ہے جو انھوں نے گزشتہ دنوں اسرائیل کے سفیر سے ملاقات کے دوران دیا تھا۔ اس بیان میں اسرائیل کی ’وَن نیشن تھیوری‘کی تائید کرتے ہوئے کنگنا نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا تھا کہ پوری دنیا کے ملکوں کے درمیان مسلم ممالک کی تعداد دوسری بڑی تعداد ہے اور یہ ممالک ایسے غیر انسانی اور رذیل ہیں کہ وہ ہمیں زمین کا ایک قطعہ نہیں دے سکتے۔ (اس افسوس کا اظہار کنگنارناوت نے ہنستے ہوئے کیا تھا)۔
 جمہوری طرز حیات پر یقین رکھنے والے ایک سیکولر ملک کے شہری کی حیثیت سے کنگنا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے یا موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کھلے عام کر سکتی ہیں لیکن اس اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرتے وقت کم از کم اتنا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آزادی بے راہ روی کے زمرے میں آجائے۔ اسرائیل کے سفیر سے اپنی ملاقات میں کنگنا نے جو بیان دیا ہے وہ صریح طور پر تاریخ سے ان کی عدم واقفیت اور مسلمانوں سے ان کی دائمی نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔اپنے تعصبا ت کو قول و فعل کے ذریعہ ظاہر کرنے والی کنگنا اور ان جیسی دوسری شخصیات کو یہ حق بھی اسی لئے حاصل ہے کہ وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کی شہریت رکھتی ہیں جہاں دائیں بازو کی متشددانہ کوششوں کے باوجود سیکولرازم پر عوام کا یقین برقرار ہے۔ اسرائیلی سفیر سے کنگنا نے جو بھی کہا وہ بہ ظاہر ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے لیکن انھوں نے اپنے بیان میں ملک کا حوالہ جس طرح دیا ہے اسے صرف ان کی ذاتی رائے کی شکل میں دیکھنا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔ 
 اس بیان میں کنگنا نے اپنی عادت کے مطابق مسلمانوں کو ہدف بنایا ہے لیکن اس سے اہم بیان کا وہ پہلو ہے جس میں وہ اس ملک کو ’ہندو ریاست ‘ قراردیتی ہیں ۔کنگنا کا یہ بیان نوعیت کے اعتبار سے انتہائی حساس ہے اور ان شدت پسند عناصر کے منافرت آمیز مطالبات کی کھلے بندوں تائید کرتا ہے جو اس ملک کو ایک مخصوص مذہبی شناخت کا حامل قرار دیتے ہیں ۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران مختلف مواقع پر اس طرح کے بیانات عوامی سطح پر دئیے جاتے رہے ہیں ۔بعض اوقات ارباب اقتدار کی جانب سے بھی سیاسی مفاد کی خاطر ایسی یاوہ گوئی کی جاتی رہی ہے ۔افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے اہم اور حساس معاملات پر جس طرح ہر کس و ناکس اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے اس سے ملک کے پر امن ماحول میں انتشار اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری ہے۔ اگر گزشتہ چند برسوں کے دوران جاری کئے گئے کنگنا کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو تا ہے کہ ان کی اپنی ایک مخصوص سیاسی سمجھ ہے اور اس سمجھ کا ملک کے تاریخی اور سماجی حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ اقتدار ہی اس ملک کی آزادی کا امین ہے بلکہ اس ملک کو حقیقی آزادی ۲۰۱۴ء میں نصیب ہوئی ہے۔ کنگنا کی ناقص سیاسی سمجھ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ اس وقت سیاست سمیت دیگر شعبوں میں کئی ایسی شخصیات مل جائیں گی جو منصب کے لحاظ سے کنگنا سے بڑا رتبہ رکھتی ہیں لیکن سیاسی سمجھ کے معاملے میں ان کا بھی وہی حال ہے۔
 کنگنا اور ان جیسی دیگر شخصیات کی ناقص سیاسی سمجھ اور غیر واضح تاریخی و سماجی شعور کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ لوگ وقتاً فوقتاً اس طرح کے بیانات دے کر ملک کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کنگنا کے اس حالیہ بیان کے سلسلے میں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے آخر کس حیثیت سے اسرائیلی سفیر سے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا جن کا اس ملک کی سیکولرازم اساس سیاسی روایت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب دینا کنگنا کیلئے جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری حکمراں طبقہ کے ذریعہ اس کی وضاحت ضروری ہے کہ آخر کنگنا نے کس حیثیت سے یہ بیان دیا ؟یہ جگ ظاہر ہے کہ کنگنا کا شمار وزیر اعظم کی منظور نظر شخصیات میں ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ اپنے اس قرب کی بنا پر وہ کچھ بھی ایسا کہنے یا کرنے کیلئے آزاد ہیں جس سے سماج پر منفی اثر پڑے۔لگتا ہے کہ جیسے اپنے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کی اقتصادی خرد برد پر اقتدار نے خاموشی کر رکھی ہے اسی طرح کنگنا کے اس انتہائی حساس بیان پر بھی دانستہ کوئی رد عمل نہیں ظاہر کیا گیا؟ اگر واقعتاًایسا ہی ہے تو یہ اس لحاظ سے اچھی بات نہیں کہ اقتدار کا یہ رویہ ان عناصر کی مزید حوصلہ عطا کر ے گا جو عوامی سطح پر اس طرز کی باتوں سے سماجی امن و آشتی کو متاثر کرتے ہیں۔
  کنگنا نے اپنے بیان میں یہودیوں کی نسل کشی کو صدیوں سے جاری ہندوؤں کی نسل کشی سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس بنا پر ان کے مطابق ہندوستان اور اسرائیل کے مابین کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اس مختصر سے بیان میں اس جملے کی تشریح کا موقع نہیں تھا لیکن اب کنگنا کو اس ضمن میں ایک وضاحتی بیان جاری کرنا چاہئے۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ یہ تاریخ کا ایک حساس اور سنگین موضوع ہے جس پر کچھ کہنے کیلئے وہ تاریخی شعور درکار ہے جو گزشتہ کئی صدیوں کے دوران دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات اور حادثات کاواضح اور غیر جانبدارانہ درک رکھتا ہو۔ اگر بالفرض صدیوں سے جاری ہندوؤں کی نسل کشی کو صحیح مان لیا جائے تو بھی کنگنا کویہ واضح کرنا چاہئے کہ ہٹلر کے ذریعہ یہودیوں کی نسل کشی اور اس ملک میں صدیوں سے جاری ہندوؤں کی نسل کشی میں کیا یکسانیت ہے؟ان کے بیان کے بین السطور میں مسلمان دشمنی کا جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ دراصل ان مسخ شدہ تاریخی حقائق کا پرور دہ ہے جو مسلمانوں کو ہندوؤں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے۔ اس ملک کی تاریخ کا یہ ایسا پیچیدہ موضوع ہے جس پر بڑے بڑے نام نہاد مورخین بھی غچہ کھا چکے ہیں تو ایسے میں کنگنا جیسی خام سمجھ رکھنے والوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ تاریخ کی ان پیچیدہ کڑیوں کا صحیح ادراک حاصل کر پائیں گی ،حقیقت حال سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔
 کنگنا نے جس طرح واضح انداز میں اسرائیل کی ون نیشن تھیوری کی تائید کی ہے وہ بھی ان کی ناقص سمجھ کو آئینہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کے اس موقف کی بھی تردید کرتا ہے جس میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت کی گئی ہے۔ کنگنا نے اس بیان سے حکومت کے اس موقف کو بھی ہیچ بنا دیا ہے ۔کنگنا کے بیان کے اس پہلو پر حکومت کو بہرحال اپنا رد عمل ظاہر کرنا چاہئے کیوں کہ حماس سے اسرائیل کی جاری جنگ پر حکومت کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ، اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ہندوستان خطہ میں مکمل امن کے ساتھ دو ریاستی نظریہ کی حمایت کرتا ہے ۔حکومت کے اس بیان کے بعد کنگنا نے اپنے بیان میں جس طرح اسرائیل کی ون نیشن تھیوری کی تائید کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دشمنی کا مادہ اس حد تک ان کے وجود میں سرایت کر گیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ملک کے موقف کی تردید کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتیں ۔کنگنا نے وفور عناد میں مسلمانوں کو ہدف بناتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے اس سے ملک کے قومی وقار کو بھی دھچکا لگا ہے۔
اپنی باتوں میں بار بار انسانیت اور حقوق انسانی کا حوالہ دینے والی کنگنا اور ان جیسی دوسری شخصیات جب ذاتی عناد کا اظہار کرتی ہیں تو ان نام نہاد قسم کے انسانیت نواز افکار پر نفرت اور تشدد کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔یہ اسی نفرت کے غلبہ ہی کا اظہار تھا کہ کنگنا نے کھلے لفظوں میں ان غاصبوں اور ظالموں کی حمایت کی جنھوں نے فلسطین کے عوام کو گزشتہ ۷۵؍ برسوں سے ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ انسانیت کا کون سا تصور ہے جس میں پناہ گزین ، پناہ دینے والوں کی جان و مال کا دشمن بن جائے اور دنیا سے اپنے اس رویے کی تائید بھی طلب کرے؟ کنگنا جیسے مسلمان دشمن عناصر اپنی نفرت آمیز ذہنیت کی بنیاد پر یہودی غاصبوں کے اس رویے کی تائید بھی کرتے ہیں ۔ان عناصر کا یہ رویہ اگر صرف ان کی ذات تک محدود ہو تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن جب اس رویہ میں ملک کا حوالہ شامل ہو جاتا ہے تو یہ صریح طور پر ملک کے قومی وقار سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK