Inquilab Logo

کسان احتجاج: ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں!

Updated: February 15, 2024, 10:21 AM IST | Mumbai

کسانوں کے دہلی مارچ کے خلاف جس طرح کی ’’جنگی صورتحال‘‘ دیکھنے کو مل رہی ہے اسے افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ کسان ہیں جنہوں نے دسمبر میں ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنی فصلوں کی اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کو یقینی بنانے کیلئے دہلی مارچ کرینگے۔

Farmer protest
کسان احتجاج

کسانوں کے دہلی مارچ کے خلاف جس طرح کی ’’جنگی صورتحال‘‘ دیکھنے کو مل رہی ہے اسے افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ کسان ہیں جنہوں نے دسمبر میں ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنی فصلوں کی اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کو یقینی بنانے کیلئے دہلی مارچ کرینگے۔ تب سے لے کر اب تک حکومت کے پاس کافی وقت تھا۔ مذاکرات کی دعوت، جو اَب دی گئی ہے، وہ گزشتہ دو مہینوں میں دی جاسکتی تھی۔ ایسا کیا گیا ہوتا تو اَب تک مذاکرات کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچ چکے ہوتے۔ کسانوں کی بات مانی جاسکتی تھی۔ اُنہیں اعتماد میں لیا جاسکتا تھا۔ چند مطالبات کو فوری منظوری دی جاسکتی تھی اور دیگر مطالبات کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی جاسکتی تھی۔ یہ اور ایسے دیگر اقدامات اُس وقت کئے جاتے ہیں جب حکومت کسی ممکنہ بحران سے نمٹنے کی قبل از وقت تیاری کرتی ہے۔ یہاں معاملہ برعکس ہے۔ کسانوں کے انتباہ کو قطعاً اہمیت نہیں دی گئی۔اس کے نتیجے میں اَب ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ کسان، جو حکومت کی نظر عنایت کے منتظر تھے، اب بہر قیمت اپنے مطالبات منوانے کے درپے ہیں۔ حکومت کے ہمنوا قومی میڈیا کے حلقے ان کے مطالبات کو نظر انداز کرتے رہے اور اب جبکہ ان کا مارچ دہلی کے قریب پہنچ چکا ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ اُنہیں ویلن کے طور پر پیش کریں۔ ان صحافتی حلقوں کا یہی طرز عمل تب بھی دیکھا گیا تھا جب کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر ایک سال تک دھرنا دیا۔ تب اُنہیں ہتک آمیز القاب سے نوازا گیا تھا، ممکن ہے اب بھی اُن کا حوصلہ توڑنے کی کوشش ہو مگر کسان نہ تو تب خوفزدہ تھے نہ اب ڈر سکتے ہیں۔ 
 یہاں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسانوں کے ایسے ہی دھرنے اور مظاہرے کئی یورپی ملکوں میں بھی چل رہے ہیں جن میں پولینڈ، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ، اسپین اور بلجیم وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تعداد مجموعی طور پر گیارہ بتائی گئی ہے۔ برطانیہ اب یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے مگر کسانوں کا احتجاج وہاں تک پہنچ چکا ہے۔ اِن کسانوں کے مطالبات ہمارے کسانوں کے مطالبات سے مختلف ہیں مگر مظاہرہ کرنے والوں نے ہندوستانی کسانوں کی طرح ٹریکٹر ہی کو احتجاج کی علامت بنایا ہے۔ وہاں سے ملنے والی اطلاعات شاہد ہیں کہ متعلقہ حکومتوں نے کسانوں کو طاقت کے ذریعہ روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اُنہیں اعتماد میں لینے کا جتن کیا، یہاں تک کہ جرمنی کے وزیر زراعت چیم اوزڈیمیر دھرنے کی جگہ گئے اور کسانوں سے خطا ب کیا۔ وزیر مالیات کرسچن لینڈر کے بارے میں بھی ایسی ہی خبر ہے کہ اُنہوں نے کسانوں سے براہ راست گفتگو کی۔پولینڈ کے وزیر زراعت و دیہی ترقیات زیسلو سکرسکی بھی مظاہرہ گاہ پر پہنچے تھے۔ اعتماد سازی کے اس اقدام  کا کیا نتیجہ نکلا اس کےبارے میں ہمارے پاس تازہ اطلاعات نہیں ہیں مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہاں ایسے حالات نہیں پیدا ہوئے جیسے ہمارے ملک میں ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں فطری سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی وہی طریق کار نہیں اپنا سکتے تھے جیسا یورپی ملکوں نے اپنایا؟کیا ہمارے وزراء ویسا نہیں کرسکتے جیسا کہ یورپی یونین کے وزراء نے کیا؟ ایسا نہ کرکے کیا ہم اپنے کسانوں کو دشمن کی شکل میں پیش نہیں کررہے ہیں؟ کیا ان کا سب سے بڑا مطالبہ (ایم ایس پی) اتنا بڑا چیلنج ہے کہ ہم اس کی ضمانت نہیں دے سکتے؟ غذائی اجناس میں ہمارا خود کفیل ہونا کسانوں ہی کا مرہون منت ہے۔ کیا ہم ان محسنوں کو بھول سکتے ہیں؟ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK