Inquilab Logo Happiest Places to Work

فاروق اعظمؓ بیت المقدس میں

Updated: June 27, 2025, 4:01 PM IST | Muhammad Hussain Heckal | Mumbai

خلیفۂ دوّم حضرت عمرفاروقؓ کے یومِ شہادت کی مناسبت سے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

حضرت عمرؓ کو اپنے سپہ سالار کا وہ خط ملا جس میں ان سے فلسطین تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ خط مسجد نبویؐ میں مسلمانوں کو پڑھ کر سنایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت عثمانؓ بن عفان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عمرؓ مدینہ ہی میں رہیں، چنانچہ انہوں نے فرمایا ’’اگر آپ یہیں ٹھہریں اور تشریف نہ لے جائیں تو وہ سمجھیں گے کہ آپ نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آپ ان سے لڑنے کے لئے مستعد ہیں چنانچہ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ وہ خود کو حقیر سمجھ کر جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ ‘‘ لیکن حضرت علیؓ بن ابی طالب نے حضرت عثمانؓ کی رائے سے اختلاف کیا اور حضرت عمرؓ کو ایلیاء جانے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمانوں نے سردی، جنگ اور طولِ قیام کی غیرمعمولی مشقت برداشت کی ہے۔ اگر آپ تشریف لے جائیں گے تو اس میں آپ کے اور مسلمانوں کے لئے امن و عافیت اور فتح و بہتری ہے لیکن اگر آپ نے انہیں اپنی اور صلح کی طرف سے مایوس کردیا تو یہ بات آپ کے حق میں اچھی ثابت نہ ہوگی۔ وہ قلعہ بند ہوکر بیٹھ رہیں گے اور انہیں اپنے ملک اور رومی بادشاہ کی طرف سے کمک پہنچ جائے گی، خاص طور پر اس لئے کہ بیت المقدس ان کے نزدیک بڑی عظمت رکھتا ہے اور ان کی زیارت گاہ ہے۔ ‘‘ 
 حضرت عمرفاروق ؓ نے حضرت علیؓ کی رائے کو پسند و قبول فرمایا اور مدینہ میں انہیں اپنا نائب بنا کر لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ 
 حضرت عمرؓ مدینہ سے روانہ ہوئے اور جابیہ میں قیام فرمایا۔ فوج کے سرداروں کو آپ لکھ چکے تھے کہ فلاں تاریخ مجھ سے جابیہ میں ملو چنانچہ جب انہیں آپ کی تشریف آوری کا علم ہوا تو آپ کے حکم کی تعمیل میں روانہ ہوگئے۔ سب سے آگے یزید بن ابی سفیانؓ، پھر حضرت ابوعبیدہؓ اور ان کے پیچھے حضرت خالدؓ بن ولید اس شان سے پہنچے کہ نگاہ ان پر رکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ یہ تینوں دیبا و حریر کے لباس پہنے چلے آرہے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی حضرت عمرؓ ناراض ہوگئے، گھوڑے سے اترپڑے اور فرمایا ’’کتنی جلدی تم لوگوں نے اپنی وضع بدل دی۔ اس لباس میں مجھ سے ملنے آئے ہو؟ کیا دو ہی برس میں تم اَپھر گئے (موٹے ہوگئے)؟ خدا کی قسم! اگرتمہارا یہی طرزِ عمل رہا تو خدا تم کو بدل کے تمہاری جگہ اوروں کو حکمراں کردے گا۔ ‘‘ سردارانِ لشکر نے معذرت کے لہجے میں عرض کیا ’’امیرالمومنینؓ ان قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں۔ ‘‘ حضرت عمرؓ نے ہتھیار دیکھے تو غصہ ٹھنڈا کرلیا اور فرمایا ’’پھر کوئی حرج نہیں ‘‘ اس کے بعد گھوڑے پر سوار ہوکر جابیہ میں داخل ہوئے۔ 
 آپ جابیہ میں فروکش تھے کہ ایک دن سپہ گران اسلام نے شمشیر بدست سواروں کا ایک دستہ اپنی طرف آتے دیکھ کر گھبرا کے ہتھیار سنبھالے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا ’’گھبراؤ نہیں ! یہ لوگ امان طلب کرنے آرہے ہیں۔ ‘‘ آنے والے بیت المقدس کے اسقف صغرنیوس کے ایلچی تھے جو امیرالمومنینؓ سے صلح کرنے حاضر ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دمشق کی شرائط صلح پر ان سے صلح کرلی بلکہ اس سے بھی زیادہ کشادہ دلی کا ثبوت دیا۔ معاہدۂ صلح، جو طبریؔ نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے، یہ ہے:
 ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم! یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیرالمومنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے۔ اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں کو مسکن بنایا جائے گا نہ وہ ڈھائے جائیں گے، انہیں یا ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر کیا جائے گا نہ ان میں سے کسی کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی جائے گی، ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیاء والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان اور مال کو امن ہے تاآنکہ وہ پناہ گاہ میں پہنچ جائے اور جو ایلیاء ہی میں رہنا پسند کرے اسے بھی امن لیکن اسے جزیہ دینا ہوگا اور ایلیاء والوں میں سے جو لوگ جان اور مال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلے جانا چاہیں انہیں اور ان کے گرجاؤں اور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی پناہ گاہ تک پہنچ جائیں ۔ ایلیاء میں دوسرے ملکوں کے جو لوگ ہیں ان میں سے اگر کوئی یہاں رہنا چاہے تو رہ سکتا ہے۔ اسے بھی ایلیاء والوں کی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو چلا جائے اور اگر کوئی اپنے اہل و عیال میں واپس ہونا چاہے تو ہوجائے۔ ان سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ ان کی کھیتیاں کٹ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ خدا کا، خلفاءؓ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے، بشرطیکہ یہ لوگ جزیۂ مقررہ ادا کرتے رہیں۔ ‘‘ 
 معاہدے کے خاتمے پر حضرت عمرؓ نے مہر ثبت فرمائی اور حضرت خالدؓ بن ولید، حضرت عمروؓ بن عاص، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان نے گواہی لکھی۔ 
 صفرنیوس کے ایلچی معاہدہ لے کر بیت المقدس پہنچے، جسے پڑھ کر اسقفؔ اور اہلِ شہر بے انتہا خوش ہوئے اور وہ خوش کیوں نہ ہوتے؟ مسلمانوں نے انہیں قرار بخشا تھا، ان کے جان و مال اور عقائد کو امان دی تھی کہ کسی کو اس کے مذہب کی بناء پر کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور نہ اس سلسلے میں اس پر کوئی جبر کیا جائے گا۔ انہیں خوشی کیوں نہ ہوتی؟ اس عہدنامے نے اجازت دی تھی کہ شہر والوں میں سے جو چاہے رومیوں کے ساتھ جا سکتا ہے اور اس کی طرف سے اذنِ عام تھا کہ بیت المقدس میں رہنے والے رومی اور دوسرے غیرملکی اگر چاہیں تو امن و اطمینان سے یہاں رہ سکتے ہیں۔ پھر جزیے کے سوا، جو وہ اپنی حفاظت اور امن کے بدلے ادا کریں گے، اور کوئی فرض ان پر عائد نہیں کیا گیا تھا۔ بھلا کہاں یہ فراخدلانہ سلوک اور کہاں وہ ہرقلؔ کی دھینگامستی جب اس نے اہل شہر کو سرکاری مذہب قبول کرنے کے لئے اپنا آبائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا تھا کہ جس نے انکار کیا اس کے ناک کان کاٹ دیئے اور اس کا گھر ڈھا دیا۔ بلاشبہ یہ صلح ایک نئے عہد کی نوید ہے جس کے دروازے اللہ نے بیت المقدس کے عیسائیوں پر کھول دیئے اور یہ ایک ایسا عہد ہے جو تاریخ نے ان کے لئے کبھی فراہم نہیں کیا اور جس کی انہیں کوئی امید نہ تھی۔ 
  اس صلح کی خبر جب اہلِ رملہ کو ملی تو وہ بھی امیرالمومنینؓ سے اسی قسم کا معاہدہ کرنے کے لئے بے چین ہوگئے۔ یہی حال فلسطین کے دوسرے لوگوں کا تھا۔ لُد ّوالوں کو حضرت عمرؓ کی طرف سے ایک مکتوب ارزانی ہوا جس کے دائرۂ نفاذ میں وہ شہر بھی شامل کرلئے گئے جنہوں نے اس کے بعد مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی۔ اس خطر میں حضرت عمرؓ نے لُدّ کے باشندوں کے جان و مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور تمام مذاہب کو امان دی اور کہا کہ اگر وہ شام کے شہروں کی طرح جزیہ ادا کریں گے تو ان کے مذہب پر جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ اختلاف عقائد کی بناء پر کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان تمام کاموں سے فارغ ہوکر امیرالمومنینؓ نے فلسطین پر دو حاکم مقرر فرمائے اور ملک کا آدھا آدھا حصہ ان دونوں میں بانٹ دیا، چنانچہ علقمہ بن حکیم کا مرکز حکومت رملہ قرار پایا اور علقمہ بن مجزِز کا ایلیاء۔ 
 حضرت عمرؓ نے فلسطین کی صلح مکمل کرکے حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالدؓ کو مع ان کے ہمراہیوں کے شمالی شام میں اپنی اپنی خدمت پر روانہ کردیا۔ اس کے بعد حضرت عمروؓ بن عاص اور شرحبیلؓ بن حسنہ کے ساتھ بیت المقدس تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا لیکن آپ کا گھوڑا ابھی تک چلنے کے قابل نہ تھا، چنانچہ ایک ترکی گھوڑا حاضـر کیا گیا اور آپ اس پر سوار ہوئے۔ گھوڑا چلا تو کلیل کرنے لگا۔ حضرت عمرؓ کو ناگوار ہوا۔ اس پر سے اترپڑے اور پھر کبھی ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوئے۔ کچھ دن آپ نے جابیہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران میں آپ کا گھوڑا ٹھیک ہوگیا اور آپ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ بطریق صفرنیوس اور شہر کے معززین نے استقبال کیا۔ فاروقِ اعظمؓ ان کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آئے، انہیں اپنے قرب سے نوازا اور ایسی باتیں کیں جن سے آپ کی محبت، ان کے دل میں پیدا ہوگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ آپ نے ان کی جانوں اور ان کے عقائد و معابد کو جو امان دی ہے اس میں صداقت پائی جاتی ہے، اور محسوس کیا کہ آپ کو حق و انصاف سے جو محبت ہے اس کی عہد قیصری کے ظلم و جبر میں کہیں جھلک تک نظر نہیں آتی۔ دن ڈھل گیا اور لوگ دوسرے دن صبح حاضر ہونے کی اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔ 
 جب حضرت عمرؓ تنہا ہوئے تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ اور اس سے بڑی کون سی نعمت ہوسکتی ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے شہر کے فاتح اور وہاں نماز پڑھنے میں رسولؐ اللہ کے نائب ہوں۔ اللہ نے اپنے بندے اور رسولؐ پر انعام فرمایااور ایک رات آپؐ کو مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک کی سیر کرائی۔ جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس پہنچے تو آپؐ نے ہیکل سلیمان کے کھنڈروں پر نماز ادا فرمائی جس میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ مقتدی تھے اور آپؐ امام، اور اس دن کے بعد سے، جس دن اللہ کے حکم سے یہ معجزہ تمام ہوا، رسولؐ نہ فلسطین تشریف لے گئے نہ مسجد ِ اقصیٰ میں رونق افروز ہوئے۔ آپؐ کی خلافت حضرت ابوبکرؓ نے سنبھالی اور اللہ نے انہیں بھی یہاں آنے کا موقع نصیب نہیں کیا۔ لیکن اب یہ سعادت حضرت عمرؓ کو ارزانی فرمائی گئی ہے۔ بیت المقدس نے ان کے لئے اپنے دروازے کھولے ہیں اور ایک ایسے ظفرمند کی صورت میں ان کا استقبال کیا ہے جس کے انصاف، رواداری اور مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہ کئے جانے کی شدید خواہش نے اسے محبوب بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ وہ عیسائیوں کے لئے حضرت عیسیٰؑ کی جائے مزار اور یہودیوں کے لئے ارضِ معاد ہے۔ کیا اس سے بڑی بھی کوئی نعمت ہوسکتی ہے جس کے لئے حضرت عمرؓ اپنے پروردگار کا شکر ادا کریں ؟ پس اگر وہ تمام رات نماز پڑھتے ہیں تو بھی پورا حق ادا نہیں کرتے۔ 
 صبح ہوئی تو صفرنیوس خدمت ِ فاروقیؓ میں حاضر ہوا اور آپ کو شہر کے آثار اور زیارت گاہیں دکھانے کے لئے اپنے ساتھ لے گیا۔ بھلا بیت المقدس میں آثار کی کیا کمی تھی! وہ انبیاء و رسل کا شہر ہے۔ جب کلیم اللہ بنواسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکلے، یہیں تشریف لائے۔ یہیں حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دینے کا قصہ پیش آیا جس کی بناء پر یہاں کلیسائے قیامت تعمیر کیا گیا۔ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا جسم پہلے اس میں دفن کیا گیا اور اس کے بعد یہاں سے آسمان پر اٹھایا گیا۔ یہیں پیغمبروں کے آثار میں سے محرابِ داؤدؑ اور صخرۂ یعقوبؑ ہیں اور یہیں وہ پتھر…صخرہ… ہے جس کے متعلق سیرت کی کتابوں میں مسطور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس پر سے معراج کے لئے آسمان کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہیں وہ ہیکل سلیمانؑ کے کھنڈر ہیں جو ایک عظیم الشان بادشاہ اور متعدد پیغمبروں کی یاددلانے کے لئے باقی رہ گئے ہیں۔ اس قسم کے بہت سے آثار ان صنم کدوں کے کھنڈروں پر قائم تھے جو فلسطین کے فرماں رواؤں نے رومیوں کی آمد سے پہلے تعمیر کرائے تھے بلکہ ان میں سے کچھ صنم کدے تو اس سے بھی پہلے زمانے میں تعمیر ہوئے تھے جب مصریوں نے بھی فلسطین کی سرزمین پر قدم نہ رکھا تھا۔ غالباً صفرنیوس نے حضرت عمرؓ سے بخل نہیں برتا اور ان عبادت کدوں کے مشہور قصے جو بے شمار تھے، آپؓ کو سنا دیئے۔ حضرت عمرؓ اور صفرنیوس کلیسائے قیامت میں تھے کہ نماز کا وقت آگیا۔ بطریق نے عرض کیا ’’آپ یہاں نماز پڑھ لیجئے کہ یہ بھی ایک سجدہ گاہ خداوندی ہے۔ ‘‘ لیکن حضرت عمرؓ نے معذرت فرمائی کہ اگر آج انہوں نے یہاں نماز ادا کی تو مسلمان ان کے اس عمل کو مستحب قرار دے کر ہمیشہ ان کی تقلید کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ بعد میں مسلمان، عیسائیوں کو ان کے گرجاؤں سے نکال دیں گے اور امان کے عہد کی خلاف ورزی کریں گے۔ اسی طرح جب کلیسائے قیامت کے قریب کلیسائے قسطنطین کے دروازہ پر عیسائیوں نے حضرت عمرؓ کے نماز پڑھنے کے لئے بساط بچھائی تو آپ نے اس وقت بھی معذرت فرما دی اور ہیکل کے کھنڈروں پر ’’مقدس پتھر‘‘ کے قریب ایک جگہ نماز ادا فرمائی، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں بعد کو مسلمانوں نے ایک نہایت عالیشان مسجد تعمیر کی، جو مسجد ِ اقصیٰ ہے۔ لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں یہ مسجد اتنی ہی سادہ تھی جتنی سادہ اپنی تعمیر کے وقت مدینہ میں مسجد نبویؐ تھی۔ n (مضمون نگار کی کتاب ’’فاروق اعظم ؓ‘‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK