حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور آدمی کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (ابن ماجہ)
EPAPER
Updated: April 07, 2023, 10:51 AM IST | Maulana Maududi | Mumbai
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور آدمی کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور آدمی کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (ابن ماجہ)
حقیقت میں تو تمام عبادتیں ایک لحاظ سے زکوٰۃ ہی کی تعریف میں آتی ہیں لیکن بطور اصطلاح صرف مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ زکوٰۃ اصل میں یہ ہے کہ اللہ کا دیا ہوا جو کچھ آپ کے پاس ہے اُس پر اللہ کا حق تسلیم کریں اور اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ چنانچہ روزہ آدمی کے جسم کی زکوٰۃ ہے، اور اس زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ آپ روزہ اس احساس کے ساتھ رکھیں کہ میرے رب نے مجھ پر جو بے شمار احسانات کئے ہیں اور مجھے جسم جیسا عظیم الشان خادم عطا فرمایا ہے، یہ روزہ مَیں اس کے شکرانے کے طور پر رکھ رہا ہوں۔ اگر کسی شخص نے محض اپنی صحت درست کرنے کیلئے روزہ رکھ لیا تو وہ جسم کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ وہ جسم کی زکوٰۃ اُس وقت شمار ہوگا جبکہ وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے جسم میں اس کا حق مان کر رکھا جائے۔ اسی طرح آپ کے اوقات کی زکوٰۃ ہے، جو وقت بھی آپ اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے صرف کریں گے وہ لامحالہ آپ کے وقت کی زکوٰۃ ہوگی۔ اسی طرح آپ کی قابلیتوں کی زکوٰۃ ہے، جو کچھ قابلیتیں اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں اگر آپ اُن کو خدا کا دین پھیلانے میں، لوگوں کو اس کے دین کا قائل کرنے میں اور کفر و الحاد کا مقابلہ کرنے میں صرف کریں گے تو یہ چیز آپ کی دماغی اور علمی قابلیتوں کی زکوٰۃ ہوگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی آپ کو دی ہے اُس پر اللہ کا حق ہے، اور جب آپ یہ حق ادا کرتے ہیں تو گویا اس چیز کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
روزے کی غیر معمولی فضیلت
دوسری تمام نیکیاں آدمی کسی نہ کسی ظاہری فعل سے انجام دیتا ہے۔ مثلاً نماز ایک ظاہری فعل ہے۔ نماز پڑھنے والا نماز میں اٹھتا اور بیٹھتا ہے، رکوع اور سجدہ کرتا ہے، اس طرح یہ ایک نظر آنے والی عبادت ہے۔ اسی طرح حج اور زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی فعل ہے جو فقط آدمی اور اس کے خدا کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روزہ دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کی ایک مخفی شکل ہے۔ مثلاً نہ کھانا اور نہ پینا، اور اسی طرح جن دوسری چیزوں سے منع کیا گیا ہے اُن سے باز رہنا۔ اس مخفی فعل کو یا تو آدمی خود جان سکتا ہے یا اس کا رب، کسی تیسرے کو معلوم نہیں ہوسکتا کہ مخفی فعل اس نے کیا ہے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی چھپ کر کھا پی لے تو عموماً کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ روزہ نہ رکھتے ہوئے بھی کہہ سکتا ہے کہ میں روزے سے ہوں، اور کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتا کہ آیا وہ روزے سے ہے یا نہیں۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اس بات کو صرف وہ جانتا ہے، اور اگر روزے سے نہیں ہے تو اس کو بھی اُس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اسی وجہ سے روزے کا معاملہ صرف اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے، اور اسی بنا پر اس میں ریا کا امکان نہیں ہوتا۔ ایک آدمی دنیا کو دکھانے کیلئے بے شک یہ کہتا پھرے کہ میں روزے سے ہوں لیکن حقیقت ِ صوم کے اندر اس ریاکاری کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کی اس غیر معمولی فضیلت و قبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ دار اپنی شہوتِ نفس اور کھانے پینے کو صرف اللہ ہی کی خاطر چھوڑتا ہے، اس لئے وہ بھی اسے آخرت میں بے حد و حساب اجر سے نوازے گا۔
نیکی کی حرص پیدا کرنا
دوسری احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چاہئے۔ خصوصاً اس حالت میں اُس کے اندر اپنے دوسرے بھائیوں کی ہمدردی کا جذبہ تو پوری شدت کے ساتھ پیدا ہوجانا چاہئے، کیونکہ وہ خود بھوک پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہوکر زیادہ اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے کہ دوسرے بندگانِ خدا پر غریبی اور مصیبت میں کیا گزرتی ہوگی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہوجاتے تھے۔ کوئی سائل اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا۔ اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔