• Sun, 28 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: قرض کے تعلق سے ایک سوال،عقیقے کے تعلق سے ایک سوال، سورۂ کوثر اور ایک خاص عمل

Updated: September 27, 2025, 4:58 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)قرض کے تعلق سے ایک سوال (۲) عقیقے کے تعلق سے ایک سوال (۳) سورۂ کوثر اور ایک خاص عمل (۴) رشتے کے لئے جھوٹ بولنا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

قرض کے تعلق سے ایک سوال 
 زید کا قرضہ عمرو پر تھا۔ زید اور عمرو دونوں کافی سال پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اب مرحوم زید کا قرضہ مرحوم عمرو کے بیٹے ادا کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی؟ نوٹ: (۱) مرحوم زید کے وارثین کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے صرف دو بیٹیاں تھیں، جن کا پتہ نہیں کہاں ہیں اور زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ (۲) ایک مرتبہ قرضہ کی کچھ رقم مرحوم عمرو کے بیٹے نے اللہ کے راستے میں بھی دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی قرضہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں، اور کیا صورت ہوگی؟ عبد المالک، ممبئی 
الجواب ھو الموفق :قرضہ واجب الادا ہوتا ہے، چاہے قرض دینے والا فوت ہوجائے یا قرض لینے والا۔ فوت شدہ شخص کے وارثین قرض کے حق دار ہوتے ہیں۔(۲)وارثین کی عدم دستیابی کی صورت میں یہ حکم ہے کہ اگر مرحوم زید کے وارثین معلوم نہ ہوں یا زندہ ہونے کی خبر نہ ہو، تو قرض کی ادائیگی کی نیت ضروری ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں کہ ایسے معاملات میں قرض کو اللہ کے راستے میں ادا کر دینا جائز ہے تاکہ حق تلفی نہ ہو اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچ جائے؛ مرحوم عمرو کا بیٹا پہلے بھی اللہ کے راستے میں ایک حصہ ادا کر چکا ہے، یہ صدقہ یا نیت قرضہ ادا کرنے کی نیت کے تحت ہوگا باقی کی قرض کی رقم اگر معلوم ہو جائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ادا کرنا مستحب اور افضل ہے، تاکہ مرحوم زید کے حقوق ادا ہوں۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں مرحوم زید کے وارثین نہ ملنے کی صورت میں، مرحوم عمرو کے بیٹے کی طرف سے ادا کیا گیا قرضہ اللہ کے راستے میں دینا جائز اور صحیح ہے۔اگر باقی رقم معلوم ہو، تو اسے بھی اللہ کے راستے میں ادا کر دینا افضل ہے۔اس سے مرحوم زید کا حق پہنچ جائے گا اور قرض کی ادائیگی کی شرعی ذمہ داری بھی پوری ہوگی۔ ھندیہ میں ہے ” اگر قرض دینے والے کا وارث معلوم نہ ہو یا کوئی ادا نہ کرے، تو اسے اللہ کے راستے میں دینا جائز ہے تاکہ حق داروں کو علم ہونے پر پہنچ سکے۔‘‘ واللہ اعلم
عقیقے کے تعلق سے ایک سوال 
  میں اپنے بچے کا عقیقہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس ایک جانور ہے اور میں جاننا چاہتا ہوں کہ: (۱)اگر میں اس جانور کا گوشت بستی میں بانٹ دوں تو کیا عقیقہ مکمل ہو جائے گا؟ (۲)اگر میں گوشت بستی میں بانٹ دوں اور لوگ اسے پکا کر کھا لیں، تو کیا یہ عقیقہ صحیح ہوگا؟براہ کرم مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ 
عابد علی، بہار
 الجواب ھو الموفق : عقیقہ وہ سنت مؤکدہ قربانی ہے جو بچے کی ولادت کے بعد کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد بچہ کے لئے شکر ادا کرنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ عقیقہ کے لئے جانور کی نیت مخصوص بچے کے لئے ہونی چاہئے اور قربانی کا جانور شرعی طور پر صحیح اور مکمل ہونا ضروری ہے۔اگر جانور کا گوشت تقسیم کرنے کی نیت کے ساتھ بستی میں بانٹا جائے، تو یہ عقیقہ کے شرعی اصول پر مکمل عمل ہے، بشرطیکہ قربانی کا جانور شرعی اعتبار سے صحیح اور بالغ ہو۔ گوشت تقسیم کرنے کی نیت عقیقہ کے مخصوص بچے کے لئے ہو، گوشت مستحقین (فقیر، مسکین، پڑوسی یا رشتہ دار) تک پہنچے، نہ کہ صرف دکھاوے یا ضائع کرنے کے مقصد کے لئے بانٹا جائے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں عقیقہ کے گوشت کو تقسیم کرنا اور مستحقین میں پہنچانا سنت مؤکدہ ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ گوشت تقسیم کرنا اور ضرورت مند کو دینا عقیقہ کی سنت کا حصہ ہے۔ اگر گوشت بستی میں بانٹنے کے بعد لوگ اسے پکا کر کھائیں، تو بھی عقیقہ صحیح اور مکمل ہوگا۔ پکانا یا نہ پکانا شرط نہیں ہے، کیونکہ شرعی لحاظ سے عقیقہ کے گوشت کو بانٹنا اور مستحق تک پہنچانا کفایت بخش ہے۔ مستحب یہ ہے کہ گوشت کو پکا کر کھلایا جائے تاکہ زیادہ فائدہ اور برکت حاصل ہو، اور زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں۔ واللہ اعلم
سورۂ کوثر اور ایک خاص عمل 
  ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے: کیا سورہ کوثر کے متعلق کوئی ایسی فضیلت معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر میں ہو اور راستے میں کسی پل، اونچائی، دریا یا سمندر وغیرہ پر نظر پڑے، تو اس وقت سورہ کوثر پڑھنے والے کے لئے اس پانی کے قطروں کے برابر اس کے اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی ؟ عبد اللہ، نیو دہلی 
الجواب ھو الموفق: سورہ کوثر ایک مختصر اور عظیم الشان سورہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے بے شمار خیر اور برکتیں بیان فرمائی ہیں۔ 
عمومی فضیلت: قرآن مجید میں ہر سورہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اور اہل علم نے سورہ کوثر کی تلاوت کی بڑی برکت بیان کی ہے، خصوصاً اس کے روزانہ یا نماز کے بعد پڑھنے کی فضیلت۔ معتبر کتب میں آیا ہے کہ سورہ کوثر کی تلاوت کرنے والا شخص اللہ کی عنایت سے مغفرت اور ثواب پاتا ہے۔ کتب فتاوی ٰ اور دیگر کتب میں سورہ کوثر کی تلاوت کی فضیلت بیان ہوئی ہے، لیکن وہاں صرف عام اجر و ثواب ذکر ہوا ہے، نہ کہ مخصوص ”سفر میں پل، دریا یا سمندر پر نظر پڑنے“ کے وقت کے لئے کوئی حدیث یا مستند روایت ہے۔ 
 سوال میں ذکر خصوصی روایت کی حیثیت: ایسی روایت جس میں کہا گیا ہو کہ ”سفر میں پل، دریا، یا سمندر پر نظر پڑنے پر سورہ کوثر پڑھنے سے پانی کے قطروں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی“، یہ معتبر کتب احادیث یا فتاویٰ میں نہیں ملتی۔کم از کم راقم کو اس کا علم نہیں ہے۔ چونکہ معتبر کتب میں نہیں ہے اس لئے اس پر عبادت یا ثواب کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں سورہ کوثر کی تلاوت کی فضیلت ہر وقت اور ہر جگہ معتبر ہے، خواہ سفر میں ہوں یا گھر میں۔ واللہ اعلم
رشتے کے لئے جھوٹ بولنا 
  کیا کسی کے رشتہ کرانے کے موقع پر جھوٹ بولنے کی گنجائش ہے؟ کم یا زیادہ۔ وضاحت کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔ ارقم الیاس، جے پور
 الجواب ھو الموفق: اسلام میں جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ البتہ شریعت نے چند مواقع پر جھوٹ کی گنجائش دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ترمذی کی روایت ہے کہ جھوٹ صرف تین جگہ جائز ہے: ”میاں بیوی کے درمیان دلجوئی کے لئے، جنگ میں، اور صلح کرانے میں۔ “ رشتے کے موقع پر جھوٹ بولنا کہ لڑکے یا لڑکی کے عیوب چھپا دیئے جائیں یا جھوٹی تعریفیں گھڑ لی جائیں، یہ ناجائز ہے بلکہ سخت دھوکہ ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے ”جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔“ البتہ اگر کسی بات میں ہلکی مبالغہ آمیز تعریف یا ”توریہ“ (کوئی بات چھپانا) ہو، اور اس سے کسی کو نقصان یا دھوکہ نہ پہنچے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن صریح جھوٹ بول کر رشتہ کرانا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ صورت مسئولہ میں رشتے کے سلسلے میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں۔ یہ دھوکہ ہے۔ صرف ایسی بات کہنا جائز ہے جس میں حقیقت کو چھپائے بغیر خوشگوار انداز یا توریہ ہو، اور اس سے کسی کو نقصان نہ ہو۔ واللہ اعلمn

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK