اسلام میں اخلاقی اقدار وہ مقدس اصول ہیں جن پر عمل کرکے انسان آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتاہے۔ جس سے ایک منظم معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور انسانی اقدار مساویانہ محفوظ و متوازن ہوتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 27, 2025, 4:50 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
اسلام میں اخلاقی اقدار وہ مقدس اصول ہیں جن پر عمل کرکے انسان آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتاہے۔ جس سے ایک منظم معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور انسانی اقدار مساویانہ محفوظ و متوازن ہوتے ہیں۔
اسلام میں اخلاقی اقدار وہ مقدس اصول ہیں جن پر عمل کرکے انسان آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتاہے۔ جس سے ایک منظم معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور انسانی اقدار مساویانہ محفوظ و متوازن ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مقدس اصول ہیں کیا؟ اور یہ کس طرح بیک وقت انسان کی روح، معاشرتی ڈھانچے اور پوری نوعِ انسانی کی تقدیر میں حرکت پیدا کرتے ہیں ؟ آئیے ان کے راز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
اسلام محض چند عبادات اور رسمی اعمال کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل اور منظم طرزِ حیات ہے جو انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی ہر ہدایت واضح، معقول اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے۔ دراصل زندگی فطرت کا دوسرا نام ہے، اور اسلام فطرت کا دوسرا نام۔ اس لیے اسلام کے اصول انسان کے مزاج اور اس کی تخلیقی ساخت سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں بشرطیکہ انسان ان کو اپنانا چاہے۔ قرآن نے ان اصولوں کو دو جامع بنیادوں میں سمو دیا ہے: پہلا ایمان و عقیدہ اور دوسرا اعمال صالحہ۔ جیسا کہ سورۂ عصر میں فرمایا گیا ہے کہ انسانی نجات کا دارومدار اسی دوہری بنیاد پر ہے۔
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھے، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یومِ آخرت، تقدیر اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان لائے۔
انسان عدم سے وجود میں آیا۔ اللہ نے اپنی بے پایاں رحمت سے اسکی رہنمائی کی۔ یہ رہنمائی پیغمبروں کے ذریعے اور فرشتوں کے واسطے سے انسان تک پہنچی۔ یہ دراصل خدائی منشور ہے جس کے مطابق انسان کو اپنی زندگی بسر کرنی ہے، اور قیامت کے دن اسی منشور پر اس کا محاسبہ ہوگا۔
نیک ا عمال کی بنیاد ایمان پر ہے جو تین بنیادی دائروں پر مشتمل ہیں :
۱) عبادات ۲)معاملات اور ۳)اخلاقیات
عبادات: یہ وہ اعمال ہیں جو خالصتاً اللہ کی رضا کیلئے انجام دیے جاتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ یہ اعمال نہ صرف خدا کی کبریائی کا اعلان ہیں بلکہ بندے کے اندر انکساری، ضبط نفس اور روحانی تربیت کے اسباب ہیں۔
معاملات: یہ انسان کے باہمی تعلقات پر مشتمل ہیں، پیشہ، معاہدات، تجارت اور معاشرتی و سیاسی ڈھانچے۔ اسلام ان میں عدل، شفافیت اور امانت داری کا حکم دیتا ہے۔ اگر ان پر عمل ہو تو ظلم کا خاتمہ، امن کا قیام اور انصاف کا بول بالا یقینی ہے۔
اخلاقیات: یہ زندگی کے وہ لطیف اور بنیادی پہلو ہیں جنہیں قوانین اور آئین نافذ نہیں کر سکتے مگر ان کے بغیر نہ روحانی بلندی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ سماجی ہم آہنگی۔ سچائی، صبر، شکر، عفو، سخاوت اور ہمدردی جیسے اوصاف اسی دائرے میں آتے ہیں۔ یہی اقدار انسان کے باطن اور ظاہر کو جوڑ کر ایک خوشحال اور متوازن سماج تخلیق کرتی ہیں۔
اخلاقی اقدار کے تین دائرے
۱) فرد کی بلندی:اخلاقی اقدار انسان کے کردار کو نکھارتی ہیں اور دل کو پاک کرتی ہیں۔ سچائی اسے دھوکے سے بچاتی ہے، صبر اسے مصیبتوں میں ٹوٹنے نہیں دیتا اور شکر اسے ناشکری اور شکایت سے محفوظ رکھتا ہے۔ یوں یہ اقدار انسان کو وقتی مفاد اور نفسانی خواہشات سے بلند کر کے باوقار، مضبوط اور روحانی طور پر پاکیزہ بناتی ہیں۔
۲) منظم معاشرے کی تشکیل: اجتماعی سطح پر اخلاقی اقدار معاشرے کو جوڑنے والے ایسے دھاگے ہیں جو عام طورپر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اگر لوگ سچ بولیں تو بازار میں دغا وفریب کا خاتمہ ہوجائےگا؛ اگر عدل قائم ہو تو عدالتوں میں انصاف فروغ پاتا ہے؛ اگر ہمدردی زندہ ہو تو کمزور اور مجبور استحصال کے بجائے عزت پاتے ہیں۔ جب معافی کو اجتماعی رویہ بنایا جائے تو انتقام اور خونریزی کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر نبیؐ نے اپنے جانی دشمنوں کو معاف کر کے فرمایا: ’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘ اس ایک فیصلہ نے نسلوں کی دشمنی کو ختم کر دیا اور پورے معاشرے کو رحمت، عدل اور مفاہمت کے اصولوں پر از سرِ نو قائم کر دیا۔ کوئی آئین وہ اثر پیدا نہیں کر سکتا تھا جو ایک اخلاقی فیصلے نے لمحوں میں کر دیا۔
۳) انسانی اقدار کی حفاظت: تمدنی پیمانے پر اخلاقی اقدار ہی وہ قوت ہیں جو تاریخ اور ابدیت کو سنبھالتی ہیں۔ کوئی تہذیب خواہ کتنی ہی سائنسی یا مالی ترقی کیوں نہ کرے، اگر اخلاقی بنیادیں کھو دے تو بکھر جاتی ہے۔ روم کی عظیم سلطنت بیرونی حملے سے زیادہ اندرونی اخلاقی زوال کے باعث مٹی میں ملی۔ اسلام انسانی تقدیر کو اس طرح محفوظ کرتا ہے کہ دنیاوی ترقی کو آخرت کی جواب دہی سے جوڑ دیتا ہے۔ مومن جانتا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا عمل روزِ قیامت کے ترازو میں تولا جائے گا۔
اسلامی اخلاقی اقدار الگ الگ نیکیاں نہیں بلکہ ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ ایمان بنیاد ہے، نیک اعمال عملی زندگی کو ڈھالتے ہیں اور اخلاقیات روح کو نکھارتی ہیں۔ یہ تینوں مل کر فرد کو دل کی پاکیزگی، خواہشات کی تربیت اور عزتِ نفس کی طاقت عطا کرتے ہیں۔ معاشرے کو عدل، شفقت اور مفاہمت کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔ اور انسانی تقدیر کو ابدی جواب دہی کے اصول سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ یہی ہے اسلام کا حسین توازن جس میں پنہا ہے فرد کی نجات، سماج کی استقامت اور انسانیت کے کُل نظام کا تحفظ۔