نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ،لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں؟ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمائش (نگیٹیو مارکنگ)سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں۔
نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہئے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لئے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔ تصویر: آئی این این
قرآن مجید میں اعمال کے ضائع ہونے کے لئے ’حبط ِ عمل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم ہے: برباد ہونا، اکارت جانا، بیکار جانا، باطل ہونا، ایک قسم کی نباتات کھانے سے پیٹ پھول جانا۔ قرآن مجید میں حبطِ عمل کی ترکیب ان ۱۶؍ آیات میں استعمال ہوئی ہے: سورہ بقرہ: ۲۱۷، آل عمران:۲۲، مائدہ: ۵ ؍ اور ۵۳، انعام: ۸۸، اعراف: ۱۴۷، توبہ: ۶۹، ھود:۱۶، کہف:۱۰۵، احزاب:۱۹، الزمر: ۶۵، محمد:۹ و ۲۸و ۳۲، الحجرات:۲۔
حبط ِ عمل یا عمل ضائع ہونے یا رائیگاں جانے کو ابدی فلاح کی کتاب، قرآنِ مجید میں تمثیلوں سے سمجھایا گیا ہے:
چٹان پہ سے مٹی بہہ جانا
’’اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں ) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں ) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘ (البقرہ:۲۶۴)
یہاں چٹان کے اوپر کی مٹی کی مثال دی گئی ہے، جوبخلاف زرخیز مٹی کے ناکارہ ہوتی ہے۔اور بجائے کھیتی اگانے کے خود ہی بہہ جاتی ہے۔ اس مثال میں نیکی ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نیکی کی نیت غلط تھی۔
آخر عمر میں جمع پونجی برباد ہونا:
’’کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اس کے لئے اس میں (کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی) ہر قسم کے پھل ہوں اور (ایسے وقت میں ) اسے بڑھاپا آپہنچے اور (ابھی) اس کی اولاد بھی ناتواں ہو اور (ایسے وقت میں ) اس باغ پر ایک بگولا آجائے جس میں (نِری) آگ ہو اور وہ باغ جل جائے (تو اس کی محرومی اور پریشانی کا عالم کیا ہو گا)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے نشانیاں واضح طور پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور کرو۔‘‘ (البقرہ:۲۶۶)
گڑھے پر بنی عمارت کاگرجانا:
’’بھلا وہ شخص جس نے اپنی عمارت (یعنی مسجد) کی بنیاد اللہ سے ڈرنے او ر (اس کی) رضا و خوشنودی پر رکھی، بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جو گرنے والا ہے۔ سو وہ (عمارت) اس معمار کے ساتھ ہی آتشِ دوزخ میں گر پڑی، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘ (التوبہ:۱۰۹)
بدلے کا عمومی ضابطہ
اس دنیا میں نیکی اور بدی کا بدلہ مل سکتاہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے اور اگر ملے تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورا ہو۔ آخرت میں بدلے کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ جیسا عمل، ویسی جزا۔ ایک برائی کا بدلہ ایک برائی اور ایک نیکی کا بدلہ دس اچھائیاں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے اصول بھی ہیں :
کچھ نیکیوں کا اجر مزید بڑھ سکتاہے، سات سو گنا تک۔
نیکیاں کرنے کےمعمول کے ساتھ، کسی عذر کی بنا پر نیکی نہ ہو، تب بھی نیکی کا اجر ملتا رہتاہے، مثلاً بیماری میں (بخاری)، سفر میں معمول کی عبادات کا۔ تمنا اور جذبے کی شدت ہو تو بھی نیکی کا اجر مل جاتا ہے، مثلاً جہاد کا۔
(سورۂ توبہ، بخاری)
جاہلیت کی حالت میں موت آجائے تو بظاہر اچھے عمل بھی نیکی نہیں رہتے، لیکن ایمان لانے کے بعد جاہلیت کے اچھے اعمال بھی نیکی بن جاتے ہیں اور ان کا اجر ملے گا۔
کچھ نیکیاں ختم ہونے کے بعد بھی ان کا اجر جاری رہتا ہے۔مثلاً صدقات ِ جاریہ کی مختلف شکلیں ۔اسی طرح کچھ برائیوں کابدلہ بھی جاری رہتا ہے جنہیں سیئاتِ جاریہ کہتے ہیں۔ سورۂ اعراف میں ہے کہ ہر پیشرو گروہ کے لئے دہرا عذاب ہے۔ (۷:۳۸)
اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفو سے کچھ برائیوں کا بدلہ نہیں ملتا، کچھ کا حساب سے اسقاط ہوجاتاہے، کچھ کی ستار العیوب قیامت میں پردہ پوشی کرلیتا ہے، کچھ خطائیں نامۂ اعمال سے ہی مٹادی جاتی ہیں (تکفیر)اسی لئے توبہ و استغفار کا حکم ہے، مختلف گناہوں کا کفارہ بتایا گیا ہے، اور عمومی اصول دیا گیا کہ’’بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ ( سورہ ھود: ۱۱۴) اور کبیرہ گناہوں سے بچتے رہیں تو صغیرہ گناہوں کی معافی کی امید ہے۔
ضائع ہو جانے والے اعمال
(۱)حصولِ دنیا کے لئے کئے گئے کام: دنیا کے کارنامےجو صرف دنیا کے لئے ہی کئے گئے ہوں :
’’جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اکارت ہوگئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)‘‘ (ھود:۱۵-۱۶)
’’اے نبیؐ ! ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا (ملاقاتِ رب کا انکار کیا)۔ اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔‘‘ (الکہف:۱۰۳-۱۰۶)
(۲)بظاہر نیکی مگر نیت کی خرابی: انفاق ضائع ہوجاتا ہے (ابطال)، اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لئے کیا جائے۔ اور اس کے لئے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (البقرۃ:۲۶۴)
نماز کو ورزش، روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ، اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عظیم الشان عبادتیں بھی بے معنی ہوسکتی ہیں۔
(۳)نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے: ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو، قبول نہ ہوں گی، خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے، یا روزہ، حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیئے ہیں، وہ ان کا خیال رکھے بغیر کئے جائیں۔ یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جو ایک مومن کے لئے صحیح نہیں۔ علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے، لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا تو یہ، مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔
دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سُستی سے کیا جائے، یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے، یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لئے نہیں، بلکہ بعض نمازیوں کے لئے بھی تباہی کی وعید ہے۔ ( سورئہ نساء، آیت ۱۴۲) نماز کیلئے نہایت مجبوری سمجھ کر یا کسمساتے ہوئے یا دکھاوے کے لئے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔ (ابن ماجہ، ابومسعود)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے، مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔پوچھا گیا وہ کیسے ؟انھوں نے کہا: کیوں کہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔
(۴)نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہئے: نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا اور پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہئے۔ نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہئےکیوں کہ مومنوں کو عمل قبول نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت ۹۰) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔
نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہئے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لئے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔ نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: (ترجمہ)’’اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی، نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا۔‘‘(ابن ماجہ، اُمِ سلمہؓ) حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دُعا کی تھی:’’اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے۔‘‘ (البقرہ:۱۲۷)۔ اس سے یہ بات ذہن نشین ہوجانی چاہئے کہ قبولیت کی فکر ہر وقت سوار رہنی چاہئے۔ اس کا فائدہ ہوگا کہ عمل میں خشوع بڑھے گا۔
نیکیاں برباد کرنے والے اعمال
نیکیاں تو اپنی جگہ صحیح ہوں ، لیکن ان کے ساتھ یا ان کے بعد کوئی ایسا کام کیا جائےکہ وہ ضائع ہوجائیں۔ ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمائش ( Negative Marking) سے دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر، صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لئے جاتے ہیں۔ یہ اعمال جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتے ہیں ، یہ ہیں :
نبی ؐ کے احترام میں کمی: حضورؐ اقدس کے احترام میں کمی دراصل اللہ کے احترام میں کمی اور باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے:
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّمؐ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمہیں ( بربادی کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘ (الحجرات:۲ )
’’اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔‘‘(محمد:۳۳ )
نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کو بچا کر رکھنے کی بھی فکر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو کہ ہرا بھرا باغ جل چکا ہے اور کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے (البقرہ:۲۶۶)، اور جو بہت اچھا سمجھ کر کیا تھا، وہ سب بیکار تھا۔ (الکہف:۱۰۵) اسی طرح برائی سے منع نہ کرنے پر بھی نیکیاں برباد ہوسکتی ہیں۔
اسی مناسبت سے محترم نعیم صدیقی ؒ نے فرمایا تھا:
’یارب میرے سجدوں کو لٹنے سے بچا لے چل۔‘