Inquilab Logo Happiest Places to Work

لوکل ٹرین دھماکوں کی تفتیش میں ناکامی، بے گناہوں کے ۱۹؍ سال برباد

Updated: July 27, 2025, 1:14 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

۲۰۰۶ء میں ہوئے لوکل ٹرین دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے۱۲؍ ملزمین کو بے قصور قرار دینے کے فیصلے پر دیگر زبانوں کے تقریباً سبھی اخبارات نے تفتیشی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال کھڑے کئے ہیں ۔

Falsely claiming to have solved the case is a betrayal of public trust, while the reality is that the real culprits are roaming free. Photo: INN.
کیس حل کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنا عوام کے اعتماد کے ساتھ کھلواڑ ہےجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

۲۰۰۶ء میں ہوئے لوکل ٹرین دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے۱۲؍ ملزمین کو بے قصور قرار دینے کے فیصلے پر دیگر زبانوں کے تقریباً سبھی اخبارات نے تفتیشی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال کھڑے کئے ہیں ۔ جن نوجوانوں کو اس مقدمے میں ماخوذ کیا گیا تھا وہ بے گناہ ہیں تو اصل مجرم کہاں ہیں ؟ کچھ اخبارات نے اپنے اداریوں میں سوال پوچھا کہ ۱۹؍ سال تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کے وقت کون لوٹائے گا؟ اور جن لوگوں نے دھماکہ میں اپنی جانیں گنوائی ہیں ان کے اہل خانہ کو کب اور کیسے انصاف ملے گا؟اصل حملہ آور کب گرفتار ہوں گے؟جانچ کے دوران پانی کی طرح پیسہ بہانے والی سرکاری ایجنسیوں کی جوابدہی کون طے کرے گا؟
 ۱۹؍ سال تک جیل میں رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟
سکال(مراٹھی، ۲۲؍جولائی)
’’ممبئی شہر تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد کو لے کر دن رات دوڑتا رہتا ہے۔ یہ شہر ایک لمحے کیلئے بھی آرام نہیں کرتا ہے۔ سیلاب ہوں، لینڈسلائیڈنگ ہوں، عمارتوں کے منہد م ہونے کاواقعہ ہو، دہشت گرد حملے ہوں یا پھر ٹرینوں میں دھماکے، یہ شہر کبھی تھمتا نہیں ہے۔ کچھ مکیں جب اپنی جان گنوا دیتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے توقف ہوتا ہے اور پھر دوبارہ اسی رفتار سے زندگی آگے بڑھتی ہے۔ اسے ممبئی کیلئے رحمت سمجھیں یا زحمت؟ یہاں انسان بستے ہیں یا بھیڑیں ؟ ان سوالات کی وجہ یہ ہے کہ ۱۸۹؍ ممبئی کروں کی جان لینے والے بم دھماکے کے سبھی ملزمین کو بری کردیا گیا ہے۔ ۱۹؍ سال پرانے کیس کا فیصلہ آیا۔ خبر آئی جسے ٹی وی پر دن بھر بریکنگ نیوز کے عنوان سے چلایا گیا۔ سوشل میڈیا پر زور دار بحث و مباحثہ شروع رہا، لیکن ممبئی معمول کے مطابق دوڑتی رہی۔ تقریباً دو دہائیوں پہلے ہوئے لوکل ٹرینوں کے دھماکوں کو اہل ممبئی کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ ٹھیک ۱۹؍ سال قبل ۱۱؍ جولائی کی سہ پہر ساڑھے چار بجے مضافاتی ٹرینوں میں بم پھٹے تھے۔ دہشت گردوں نے کوکر میں رکھ کر دھماکوں کو انجام دیا تھا۔ اس معاملے میں اے ٹی ایس نے ۱۲؍ افراد کو گرفتار کیاتھا۔ نچلی عدالت نے ان میں سے ۵؍ لوگوں کو پھانسی اور ۷؍ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ درجن بھر ملزمین جیل گئے اور تا حال جیل میں بند تھے۔ ان میں سے ایک کی کورونا سے موت واقع ہوگئی۔ سزائے موت دیتے وقت عدالت معقول اور شک وشبہات سے بالا تر ثبوت طلب کرتی ہے۔ محض شکوک اور شبہات سے عدلیہ کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کو ایک بھی گواہی قابل اعتبار نہیں لگی، یہی نہیں بلکہ کسی بھی سرکاری وکیل کے دلائل واضح نہیں تھے۔ نچلی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا کو منسوخ کرتے ہوئے بنچ نے پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھایا۔ جن ملزمین کو عدالت نے بے قصور قرار دیا ہے انہیں ۱۹؍ سال تک جیل میں رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اہل ممبئی کے قاتل اب بھی ممبئی میں عیش کررہے ہیں ؟‘‘
پولیس اور استغاثہ کی صلاحیت پر سوالیہ نشان
نو بھارت( ہندی، ۲۳؍جولائی)
’’استغاثہ کی سست روی، گواہوں کے ناقابل اعتبار بیانات اور تحقیقاتی ایجنسیوں میں تضاد کے سبب ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۶ء کو ممبئی کی ۷؍ لوکل ٹرینوں میں ہوئے بم بلاسٹ کے۱۲؍ ملزمین کو بری کردیا گیا۔ یہ فیصلہ پولیس اور استغاثہ کی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ بری ہونے والوں میں وہ ۵؍ ملزمین بھی شامل ہیں جنہیں نچلی عدالت نے پھانسی کی سزا اور بقیہ ۷؍کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انصاف میں تاخیر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ فیصلہ ۱۹؍ سال بعد آیا ہے۔ اگر یہ ملزمین بے گناہ ہیں تو یہ جان لیوا دھماکے کس نے کروائے۔ ۲۰۱۵ء میں خصوصی عدالت نے سبھی ۱۲؍ ملزمین کو سخت سزا سنائی تھی۔ ۲۰۱۵ء سے ملزمین کی اپیل بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی۔ مسلسل ۶؍ ماہ تک شنوائی کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے سبھی ملزمین کو رہا کردیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ(۱)ملزمین کو ذہنی اذیت دے کر گناہ قبول کروایا گیا(۲) یہ بڑی عجیب بات ہے کہ۴؍سال بعد گواہوں نے ملزمین کی شناخت کی(۳) سبھی گواہ ناقابل اعتبار تھے(۴) واقعہ کے ۱۰۰؍ دن بعد دیئے گئے بیانات قبول نہیں ہے(۵) سینئر افسر بروے نے بغیر اختیار کے شناختی پریڈ کروائی(۶) استغاثہ یہ نہیں بتا پایا کہ کیسا بم استعمال کیا گیا تھا۔ پچھلے کچھ برسوں سے تفتیش کے دوران سست روی کے باعث استغاثہ کو ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اس وجہ سے سزا موت پانے والے ملزمین بھی اعلیٰ عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے جانچ ایجنسیوں کی جھوٹی گواہی اور ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر سخت سرزنش بھی کی ہے۔ ‘‘
کیا اتنی طویل چلنے والی تفتیش محض ایک دکھاوا تھی؟
مہاراشٹر ٹائمز(مراٹھی، ۲۲؍ جولائی )
’’جولائی ۲۰۰۶ء میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں پر بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ دھماکوں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کیلئے ایک زبردست جھٹکا ہے۔ اس کیس کے ۱۲؍ ملزمین کو ثبوتوں کی کمی اور پولیس تفتیش میں کوتاہیوں کی وجہ سے بری کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ۱۷؍ سال سے جیل میں قید ملزمین کے اہل خانہ اور وکلاء سوال اٹھائیں گے کہ ان کے ضائع ہونے والے برسوں کی تلافی کون کرےگا؟بم دھماکوں کی وجہ سے جو خاندان برباد ہوئے ان میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ کیا اتنے طویل عرصے تک چلنے والی تفتیش محض ایک دکھاوا تھی؟جانچ ایجنسیوں کے مطابق لوکل ٹرینوں میں ہوئے بم بلاسٹ کے پیچھے لشکر طیبہ اور سیمی کا ہاتھ تھا۔ پوری پلاننگ پاکستان کے بہاولپور میں رچی گئی تھی۔ آر ڈی ایکس کو کانڈلا بندرگاہ کے ذریعہ ممبئی بھیجا گیا۔ اس سنگین معاملے میں تحقیقاتی ایجنسیوں نے۱۲؍ ملزمین کو گرفتار کیا تھا۔ مکوکا عدالت نے ۵؍ ملزمین کو پھانسی اور۷؍ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن ایجنسیوں نے کوئی قابل قبول شواہد نہیں پیش کئے۔ اس پر ہائی کورٹ نے سخت الفاظ میں تفتیشی ایجنسیوں کی سرزنش کی ہے۔ ۱۹؍ سال بعد اس سفاکانہ سازش کے اصل مجرموں کا پتہ نہیں چل سکا اور وہ آزاد رہیں گے، یہی اصل ناکامی ہے۔ ‘‘
جانچ ایجنسیوں نے حد درجہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۲۲؍جولائی)
’’۱۹؍ سال قبل ممبئی کی ۷؍ لوکل ٹرینوں میں ۱۱؍ منٹ کے اندر اندر تباہ کن بم دھماکے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں ۱۸۹؍ افراد کی جانیں چلی گئی تھیں جبکہ ۸۱۶؍ افراد شدید طور پر زخمی ہوگئے تھے۔ تین ماہ کے قلیل عرصے میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے ۱۳؍ افراد کو گرفتار کرتے ہوئے کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تفتیشی ایجنسیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملزمین نے اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا ہے۔ بعدازاں ان ملزمین پر مقدمہ چلایا گیا اور ۲۰۱۵ء کو انہیں سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ پیر کو اس اہم کیس کی شنوائی کرتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ نے تفتیش کاروں کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ۱۲؍ افراد کو باعزت بری کردیا۔ ۶۱۸؍ صفحات پر مشتمل فیصلہ اس بارے میں کئی طرح کے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ پورے ملک کو دہلا دینے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کی تحقیقات کے دوران جانچ ایجنسیوں نے حد درجہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ جسٹس انل کیلور نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے اور قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے مجرمین کو سزا دینا لازمی ہے لیکن محض دکھانے کیلئے کہ کیس حل ہوگیا ہے ایسا جھوٹا تاثر قائم کرنا غلط روش ہے۔ کیس حل کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنا عوام کے اعتماد کے ساتھ کھلواڑ ہےجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK