Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ششی تھرور واقعی کانگریس چھوڑنے کا من بنا چکے ہیں ؟

Updated: July 27, 2025, 2:14 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

گزشتہ کچھ دنوں سے تھرور، مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کے ایسے قصیدے پڑھ رہے ہیں جن کا سچائی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

Tharoor got to lead a delegation, his view towards BJP changed. Photo: INN.
تھرور کو ایک وفد کی سربراہی کیا مل گئی، بی جے پی کے تئیں ان کا نظریہ ہی تبدیل ہوگیا۔ تصویر: آئی این این۔

کانگریس کے نمایاں اور مقبول لیڈروں میں شمار ششی تھرورگزشتہ کچھ مہینوں سے جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے یہ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ وہ کانگریس چھوڑنے کا من بن چکے ہیں اور کسی بھی دن ان کی طرف سے باضابطہ طور پریہ اعلان کر دیا جائے گا۔ اس ضمن میں بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ پختہ یقین ہے کہ پارٹی موقف سے برعکس بیانات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تھرور کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام لیں گے۔ ان تجزیہ کاروں کے اس پختہ یقین کی وجہ تھرور کی علمی شخصیت، سیاسی ترجیحات اور سیکولر اقدار کے تئیں ان کا اخلاص ہے جس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہے ہیں، لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران بی جے پی نے جس سیاسی کرتب بازی کے ذریعہ اشوک چوان، کیپٹن امریندر سنگھ، وجے بہوگنا، جگدمبیکاپال اور کرن ریڈی جیسے قد آور کانگریسی لیڈروں کو اپنے پالے میں کر لیا، اسی طرح اگر تھرور بھی کل کو بھگوا خیمے میں نظر آنے لگیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت سیاستدانوں میں نظریاتی وابستگی کا معاملہ اس حد تک کمزور ہو چکا ہے کہ کب کون سا لیڈر کس پارٹی میں نظر آنے لگے، اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 
۲۰۰۹ء میں فعال سیاست میں قدم رکھنے اور کانگریس کے ٹکٹ پر کیرالا کے ترواننت پورم سے لوک سبھا کا الیکشن جیتنے والے تھرور مسلسل چار مرتبہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں مودی حکومت بننے سے قبل وہ منموہن سنگھ کی کابینہ میں بھی شامل رہے۔ ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کے ساتھ ہی تقریباً۲۹؍ برسوں تک انھوں نے اقوام متحدہ میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے پیچ و خم کی خاصی سمجھ ہے لیکن ادھر کچھ دنوں سے اس سمجھ کا اظہار وہ جس انداز میں کر رہے ہیں، اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انانیت ان پر اس قدر حاوی ہو چکی ہے کہ وہ پارٹی موقف کو متواتر غیر اہم ثابت کررہے ہیں۔ تھرور نےمودی سرکار کی خارجہ پالیسی کے ایسے قصیدے پڑھے ہیں جن کا سچائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں وزیر اعظم کی توانائی، تحرک اور مختلف ملکوں سے مکالمہ کی خواہش کو ملک کا قیمتی اثاثہ تک قرار دے ڈالا ہے۔ چین اور امریکہ اس قیمتی اثاثہ کی مسلسل بے توقیری کئے جا رہے ہیں اور نہ جانے کس سیاسی مصلحت کے تحت تھرور جیسے بالغ نظر شخص کو یہ صورتحال نظر نہیں آ رہی ہے؟
تھرور نےحال ہی میں اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ ’’کسی بھی لیڈر کی پہلی وفاداری ملک کے تئیں ہونی چاہئے، پارٹی کے تئیں نہیں۔ پارٹیاں صرف ایک راستہ اور ذریعہ ہیں ملک کو بہتر بنانے کا اور ملک کی سلامتی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ ‘‘ انھوں نے اس منفرد بیان میں یہ بھی واضح کر دیا کہ ملک نہیں بچے گا تو پارٹیوں کے ہونے سے کیا فائدہ ہوگا؟ اس کے ساتھ وہ یہ لاحقہ لگانا بھی نہیں بھولے کہ جب وہ ملک کی سلامتی کیلئے دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بات کہتے ہیں تو ان پر پارٹی سے بغاوت کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ ان کے بیان کا یہ جزو ان کی نیت کو واضح کرتا ہے کہ جلد یا بدیر وہ اس لیبل کو اپنی شخصیت پر چسپاں کر سکتے ہیں۔ 
تھرور کا حالیہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی ان کور چشم اور محدود فکر کے حامل لیڈروں میں شامل ہو گئے ہیں جو حکومت اور ملک کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھتے ہیں۔ ملک کی عظمت اور وقار اپنی جگہ پرمستحکم اور پائیدار ہے اورکوئی بھی سیاسی پارٹی جسے حکومت سازی کا موقع ملتا ہے اس پر یہ حتمی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عظمت اور وقار کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اگر موجودہ مرکزی حکومت اس ذمہ داری کو نبھا رہی ہے تو یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہے جو اس سے قبل دیگر حکومتوں نے نہ کیا ہو۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کا یہ انوکھا پن ضرور ہے کہ چین ملک کی سرحد میں کئی میل تک در اندازی کر چکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس پر کوئی سخت رد عمل اب تک نہیں آیا۔ اسی طرح امریکی صدر مسلسل ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک کیلئے کسر شان کے مصداق ہے لیکن اقتدار اس پر بھی خاموش ہے۔ تھرور نہ جانے ملک کی خارجہ پالیسی کے کس پہلو کے تناظر میں وزیر اعظم کا گن گان کر رہے ہیں ؟
آپریشن سیندور کے بعد عالمی سطح پر ہندوستانی موقف کو واضح کرنے کی غرض سے جو آل پارٹی وفد مختلف ملکوں میں گیا تھا، اس میں امریکی ٹیم کی قیادت تھرور کر رہے تھے۔ وہ ملک سے وفاداری کا جو دعویٰ کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام اور سیاستدانوں کے روبرو اس کا موثر اظہار اس طور سے نہ کر سکے جو ٹرمپ کو باربار ایسے بیانات دینے سے باز رکھ سکے جس سے ملک کی فوجی صلاحیت اور قومی وقار پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ فعال سیاست میں قدم رکھنے کے بعد تھرور نے کہا تھا کہ جب انھوں نے سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تھا تو کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور بی جے پی نے ان سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ نظریاتی سطح پر خود کو کانگریس سے زیادہ نزدیک محسوس کرتے تھے، اسلئے انھوں نے یہ پارٹی جوائن کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب یہ قربت رفتہ رفتہ مسافت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے اور اس کی ایک وجہ ۲۰۲۲ء میں پارٹی صدر کے الیکشن میں ملی وہ شکست بھی ہو سکتی ہے جو انھیں اپنے سیاسی عزائم کی راہ میں ایک رخنہ محسوس ہو رہی ہو۔ اب پارٹی کے کئی قد آور لیڈر کھل کر اُن کے خلاف بولنے لگے ہیں اور وہ خود جس وزیر اعظم کی شان میں رطب اللسان ہیں انھوں نے ۲۰۱۲ ء میں اشاروں اشاروں میں تھرور کو ۵۰؍ کروڑ کی گرل فرینڈ رکھنے والا لیڈرقرار دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے صدارتی الیکشن میں ملی شکست کی ٹیس اس بیہودہ پھبتی پر حاوی ہو چکی ہے، اسلئے اگر کچھ دنوں میں ان کا سیاسی حلیہ بھی بدل جائے تواس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK