شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) متوفی کی بیوہ اور بچوں کے حصے میں صدقہ خیرات یا کسی اور تصرف کا حق نہیں (۲) تقسیم ترکہ (۳) نمازوں کا فدیہ (۴) زکوٰۃ کی رقم میں واپسی کی شرط۔
EPAPER
Updated: July 18, 2025, 12:50 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) متوفی کی بیوہ اور بچوں کے حصے میں صدقہ خیرات یا کسی اور تصرف کا حق نہیں (۲) تقسیم ترکہ (۳) نمازوں کا فدیہ (۴) زکوٰۃ کی رقم میں واپسی کی شرط۔
میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، تو ورثاء میں ہم تین نابالغ بیٹیاں اور ایک بیوہ تھیں اور والد صاحب کے والدین بھی حیات تھے نیز والد صاحب کے تین بھائی اور ۹ بہنیں تھیں۔ والد صاحب کے بھائیوں نے سارا ترکہ آپس میں تقسیم کر لیا اور ہمارے مطالبے پر کہا کہ ہم نے تمہارے والد کے پیچھے خیرات کر دی ہے، سارا سامان وغیرہ ختم ہو گیا۔ کیا یتیموں کے مال سے خیرات کرنا جائز ہے؟ کیا والد صاحب کا ترکہ ان کے بھائی اس طرح تقسیم کر سکتے ہیں ؟
ب۔ ح، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں ترکہ آپ کے والد کا تھا تو اس میں مرحوم کی بیوہ، ان کی بچیاں اور تمام بھائی بہن شرعی وارث تھے۔ اس میں آٹھواں حصہ بیوی کااور دو تہائی بیٹیوں کا تھا، اس کے بعد باقی میں تمام بہن بھائیوں کا حصہ تھا (لہٰذاچوبیس میں سے بیوی کو تین اور بیٹیوں کو سولہ سہام دینے کے بعد جو پانچ باقی رہتا وہ بھائی بہنوں کا حصہ تھا)۔ کسی کو بیوہ اور بچیوں کے حصے میں صدقہ خیرات یا کسی اور تصرف کا حق نہیں تھا اس لئے مرحوم کی بیوہ اور بچیوں کا حق تا ہنوز باقی ہے، بھائیوں نے صدقہ خیرات کیا ہو اس کے وہ ذمے دار ہیں اس لئے جو بھی ترکہ تھا اس کا دو تہائی بچیوں کا اور آٹھواں حصہ بیوہ کا ان کو دیا جائے گا، بھائیوں نے صدقے خیرات وغیرہ کیا بھی ہو تو اس کے وہ ذمے دار ہوں گے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
تقسیم ترکہ
ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کی جائیداد میں ایک مکان اور تین دکانیں ہیں اور وارثوں میں ایک بیٹا اور بیٹی ہے، بیٹے نے پورا مکان اور دکانوں کی بازاری قیمت لگا کر اپنی بہن کا حصہ متعین کر لیا اور بہن سے کہا کہ آپ کے حصے کی رقم جب مجھ سے ہو گی تو میں دے دوں گا اور یہ مکان اور دکانیں میں رکھتا ہوں، بہن اس پر راضی ہو گئی۔ کچھ سالوں کے بعد ان دکانوں اور مکان کی قیمت بہت بڑھ گئی۔ اب بھائی نے ایک دکان کو فروخت کیا، جس میں سے بہن کا مجموعی حصہ جو اس کے ذمہ بنتا تھا، ادا کیا۔ بہن کے حصے سے کئی گنا زیادہ رقم اس کو فقط اس دکان سے بچ گیا اور بقیہ دو دکانیں اور مکان اس کے علاوہ بچ گئیے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا شرعاً یہ معاملہ درست تھا؟ اور اس شخص کے لئے یہ منافع رکھنا کیسا ہے؟ عبداللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: وارث ترکہ سے اپنا حصہ دوسروں کے لئے چھوڑ دے اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے ہی یہ کہہ دے کہ میں نے اپنا حق معاف کیا یا چھوڑدیا وغیرہ، شرعاً اس سے حق ساقط نہیں ہوتا (قال الوارث ترکت حقی لم یسقط حقہ الاشباہ) دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے حصے پر قبضہ سے پہلے ہی کسی دوسرے وارث کو ہبہ کردے، ترکہ کی تقسیم اور اس پر قبضہ سے پہلے اس صورت میں بھی وارث کا حق ختم نہیں ہوتا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وارث اپنا حق نہ لیتے ہوئے دوسرے ورثاء یا ان میں سے کسی سے کچھ لے کر حق سے دستبردار ہوجائے، اسے اصطلاح میں تخارج کہاجاتا ہے اور تقسیم ترکہ اور اس پر قبضے سے پہلے بھی یہ دست برداری معتبر ہوتی ہے بشرطیکہ بدلے میں جو لے رہا ہے اس پر قبضہ بھی کرلے (صرف زبانی معاملہ نہ ہو )۔ صورت مسئولہ میں بغیر کچھ لئے دیئے صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ جب ہوگی یہ رقم دیدوں گا لہٰذا اگر اس وقت کچھ لین دین نہیں ہوا، بھائی نے صرف زبانی وعدہ کرلیا تھا ور بہن اس پر راضی تھی تب بھی بہن کا حصہ ساقط نہیں ہوا، البتہ اسی وقت کل معاوضہ یا اس کا کچھ حصہ دے دیا ہو تب دستبرداری معتبر مانی جائے گی ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نمازوں کا فدیہ
میں اپنے مرحوم والد صاحب کی نماز کا فدیہ دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے وفات سے پہلے کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ اب ان فدیہ کے پیسوں سے میں کسی کو قرآن کا نسخہ لے کر دے سکتا ہوں یا نہیں ؟ دراصل جس کو قرآن دینا ہے، انہوں نے مجھ سے پہلے کہا تھا کہ مجھے ڈجیٹل قرآن مجید دلا دیں تاکہ میں اپنی غلطیاں درست کرسکوں۔ برائے کرم راہ نمائی فرمائیں۔ عبد الباری، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: مرحوم نے فدیہ کی وصیت کی ہوتی تو ایک تہائی مال کی حد تک اس کو نافذ کیا جاتا، وصیت نہیں کی تو ورثاء اپنے مال سے فدیہ دے سکتے ہیں ان شاءاللہ مرحوم کی طرف سے کافی ہو گا لیکن ترکہ سے بغیر دوسرے ورثاء کی رضامندی کے کوئی ایک یہ تصرف نہیں کرسکتا نیز نابالغ ورثا کی رضامندی بھی معتبر نہیں اس لئے فدیہ آپ اپنے مال سے دیں۔ رہا فدیہ میں ڈجیٹل قرآن کسی کو دینا، اس کی کیا ضرورت اور کیا فائدہ ہے یہ آپ بہتر سمجھتے ہونگے، شرعا کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ مناسب یہ ہوگا کہ نقد رقم ضرورتمند کو دے دیں پھر وہ جو چاہے خریدے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
زکوٰۃ کی رقم میں واپسی کی شرط
زید کا ارادہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے ملت کے چند مستحق لوگوں کی کاروباری مدد کرے پھر جب وہ لوگ کسی قابل ہوجائیں تو ان سے وہ رقم لے کر کسی دوسرے کو وہ رقم دے دی جائے، اسی طرح ایک سلسلہ چل نکلے اور لوگ خود کفیل ہوتے جائیں ۔ کیا زکوٰۃ کی رقم سے اس طرح کا کچھ کام کیا جا سکتا ہے یا دوسری کوئی مناسب صورت کیا ہوسکتی ہے؟ شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔ عبد الرحیم، حیدرآباد
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: زکوٰۃ کے مال یا رقم کا جب تک مستحق کو مالک نہ بنادیا جائے اس وقت تک زکوٰۃ ہی ادا نہیں ہوتی، ملکیت میں آنے کے بعد وہ کلی طور پر بااختیار ہوتا ہے کہ جس ضرورت میں چاہے استعمال کرے اسے کسی خاص استعمال کا پابند نہیں بنایا جاسکتا نیز اسے قرض کے طور بھی نہیں دیا جاسکتا۔ زکوٰۃ کی رقم قرض کے طور پر دی جائے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اس لئے واپسی کی شرط بھی صحیح نہیں، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ مستحقین کو ترغیب دی جائے کہ جب تم کسی قابل ہوجاؤ تو حسب توفیق اس مد میں حصہ لیتے رہنا تاکہ مزید مستحقین کا تعاون کیا جاتا رہے مگر نہ انہیں کسی طرح پابند کیا جاسکتا ہے نہ ہی رقم کی واپسی کا مطالبہ یا اس طرح کا کوئی اور معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بہتر صورت یہ ہے کہ اہل خیر حضرات کو اس مقصد کے لئے تعاون پر آمادہ کرکے عطیات وصول کرنے کیلئے ایسا فنڈ قائم کیاجائے، اس صورت میں واپسی کی شرط لگانے میں بھی شرعاً کوئی حرج نہ ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم