یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کون سا لمحہ ہے جب عبادت طلب سے نکل کر تسلیم بن جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: November 21, 2025, 3:10 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کون سا لمحہ ہے جب عبادت طلب سے نکل کر تسلیم بن جاتی ہے۔
انسان کی روح کی کہانی دو منزلوں پر سفر کرتی ہے: پہلی منزل وہ ہے جہاں عبادت اسے دنیاوی جبر اور داخلی غلامی سے نجات دیتی ہے؛ اور دوسری وہ جہاں یہی عبادت محبت اور معرفت کے نور سے اس کے باطن کو زندہ کر دیتی ہے۔ آزادی کے دروازے سے گزر کر جب انسان دل کی گہرائیوں میں اترتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ بندگی محض اطاعت کا نام نہیں، بلکہ تعلق، محبت اور شعور کا ایسا سفر ہے جو آزادی کو معنویت اور محبت کو سمت عطا کرتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں عبادت رسم سے حقیقت بنتی ہے، اور حقیقت حال میں بدل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت انسان پر پابندی عائد کرتی ہے، اور اسے ضابطوں کے حصار میں قید کر دیتی ہے لیکن حقیقت بالکل برعکس ہے، عبادت وہ دروازہ ہے جو انسان کو نفس، لالچ، خوف، اور غلامی کی سلاخوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ جب انسان اپنی خواہش کا اسیر ہوتا ہے، تو دراصل وہ اپنے آپ کا غلام ہوتا ہے۔ اس کا ہر فیصلہ، ہر جذبہ اور ہر کوشش کسی اندرونی بھوک یا بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی زندگی ظاہراً آزاد مگر باطناً مجبور ہوتی ہے۔ یہی وہ جبر ہے جس سے عبادت رہائی دیتی ہے۔ عبادت انسان کو یہ شعور دیتی ہے کہ سجدہ صرف ایک کیلئے ہے؛ جو سب کا خالق ہے، سب کا رازق ہے، اور جس کے سامنے جھکنے سے انسان باقی سب کے سامنے سیدھا کھڑا رہ سکتا ہے۔
جو خدا کے سامنے جھک جاتا ہے، وہ دنیا کے کسی تخت، کسی زر، کسی خوف، یا کسی طاقت کے آگے نہیں جھکتا۔ یہی تو آزادی ہے کہ انسان کسی مخلوق کی بندگی سے نجات پا کر خالق کی بندگی میں داخل ہو جائے۔ یہ بندگی دراصل ایک فکری انقلاب ہے: یہ انسان کو مرکز سے جوڑتی ہے، ارادے کو مقصد عطا کرتی ہے، اور زندگی کو نظم۔ جب عبادت دل میں اترتی ہے، تو انسان اپنی ذات کی حدود سے نکل کر کائنات کے اخلاقی نظام سے جڑ جاتا ہے۔ اس کے اعمال میں توازن آ جاتا ہے، خواہشیں خدمت میں بدل جاتی ہیں اور ارادے رضا میں۔ یوں عبادت وہ قوت بنتی ہے جو غلامی کی زنجیریں توڑ کر انسان کو خود اس کی اصل میں واپس لے آتی ہے۔ یہی اصل بندگی کی معراج ہے کہ انسان جب خدا کا بندہ بن جاتا ہے، تو ہر دوسری بندگی سے آزاد ہو جاتا ہے۔
جب عبادت خوف یا لالچ سے نہیں بلکہ محبت اور معرفت سے جنم لیتی ہے، تو بندگی کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ یہاں بندہ اپنے رب کو محاسب نہیں سمجھتا بلکہ محبوب جانتا ہے۔ ایسی بندگی میں زبان خاموش بھی ہو تو دل سجدے میں رہتا ہے اور عمل رک جائے تو نیت مسلسل تسبیح کرتی رہتی ہے۔ محبت دراصل وہ قوت ہے جو عبادت کو میکانکی حرکت سے زندہ تجربے میں بدل دیتی ہے۔
جہاں محبت پیدا ہو جاتی ہے، وہاں فرض بوجھ نہیں لگتا؛ قید، آزادی میں ڈھل جاتی ہے؛ اور بندگی، عزت بن جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی آرزوؤں سے آزاد ہو کر خدا کے ارادے میں محو ہو جاتا ہے، نہ جنت کا سودا، نہ جہنم کا خوف؛ بس ایک کیف، ایک وابستگی، ایک یقین کہ ’’میں عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ مجھے کچھ ملے، بلکہ اس لئے کہ میرا رب کی شان ایسی ہے کہ اس رب کی عبادت کی جائے۔‘‘
معرفت اس محبت کو شعور عطا کرتی ہے۔ محبت اگر جذبہ ہے تو معرفت اس کا ادراک ہے۔ محبت انسان کو خدا کے قریب لاتی ہے، اور معرفت اسے بتاتی ہے کہ وہ قرب دراصل کتنا گہرا، کتنا بےخودی آمیز اور کتنا نورانی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب عبادت طلب سے نکل کر تسلیم بن جاتی ہے جہاں سجدہ محض پیشانی کا نہیں بلکہ شعور کا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت وہ نقطۂ کمال ہے جس میں بندہ اور بندگی کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔
انسان جب اپنے رب کی رضا میں فنا ہو جاتا ہے، تو دراصل اپنی حقیقت کو پا لیتا ہے۔ اس کے ارادے، خواہشات، اور مقاصد سب ایک سمت میں مجتمع ہو جاتے ہیں۔ وہ سمت جسے عقل توازن، دل محبت اور روح رضا کے نام سے پہچانتی ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جسے الفاظ میں قید نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ عبادت نہیں، ایک حال ہے؛ ایک ایسا حال جس میں بندہ خود کو بھول کر خدا کو یاد رکھتا ہے۔ اور شاید بندگی کا اصل راز بھی یہی ہے کہ انسان جتنا اپنے آپ سے نکلتا ہے، اتنا ہی اپنے رب سے جڑتا ہے۔
یوں عبادت کا سفر آزادی سے شروع ہو کر محبت اور معرفت پر مکمل ہوتا ہے۔ پہلے وہ انسان کو خواہشات، خوف اور سماجی دباؤ سے آزاد کرتی ہے، اور پھر اسی آزاد دل کو محبت و شعور کے نور سے بھر دیتی ہے۔ آغاز میں عبادت انسان کو بندگی کا مفہوم سکھاتی ہے اور انجام میں اسے بندہ ہونا سکھاتی ہے۔ یہی دو منزلیں مل کر وہ مقام پیدا کرتی ہیں جہاں آزادی اور محبت ایک ہی حقیقت کے دو چہرے بن جاتے ہیں اور انسان سمجھ جاتا ہے کہ اصل آزادی خالق کے سامنے جھک جانے میں ہے، اور اصل محبت اسی جھکنے سے جنم لیتی ہے۔ یہیں سے بندگی کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جس میں انسان خود سے نکل کر اپنے رب تک پہنچتا ہے۔