• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: کسی بھی معاملے میں فیصلہ شرعی ثبوت پر ہوتا ہے کسی فریق کے شک اور وہم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا

Updated: October 10, 2025, 1:32 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)کسی بھی معاملے میں فیصلہ شرعی ثبوت پر ہوتا ہے کسی فریق کے شک اور وہم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا (۲)انشورنس کی رقم اور مرحوم وارث (۳) رخصتی سے قبل طلاق (۴) موبائل کیمرے اور تصاویر۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
زوجین کے مابین طلاق کا ایک مسئلہ ہے۔ شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے تمہیں (بیوی کو) دو طلاق دی تھی اور بیوی یہ کہہ رہی ہے کہ مجھے شک ہے کہ تم (شوہر) نے تین طلاق دی تھی۔ دو طلاق کے مطابق شوہر قسم کھانے کے لئے بھی تیار ہے اور بیوی بھی شک کی بنا پر اپنی بات کہہ رہی ہے۔ شریعت کی روشنی میں مسئلے کا حل بتائیے۔ شاہ نواز عالم، بہار 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کسی بھی معاملے میں فیصلہ شرعی ثبوت پر ہوتا ہے کسی فریق کے شک اور وہم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ مطلوبہ شہادت نہ ہونے کی صورت میں صاحب معاملہ کا اقرار سب سے اہم ثبوت مانا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے طلاق یا تعدادِ طلاق پر اختلاف ہونے کی صورت میں شہادت کی ضرورت ہوتی ہے البتہ شوہر کا اقرار اس کے حق میں حجت مانا جاتا ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ شوہر دو طلاق کا اقرار کررہا ہے تو حکم دو طلاق ہی کا ہوگا، عورت اگر چہ یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کررہی ہے بلکہ جو کہہ رہی ہے وہ محض بر بنائے شک ہے، اس صورت حال میں بھی احتیاطاً شوہر سے قسم لے لی جائے تو بہتر ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
انشورنس کی رقم اور مرحوم وارث
  کار ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ایک شخص کا انتقال ہو گیا۔ انشورنس کمپنی کی طرف سے رقم ملی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی، لیکن رقم ملنے سے پہلے مقتول کے ایک وارث کا انتقال ہوگیا تو تقسیم ترکہ کے وقت وہ مرحوم شمار ہوگا تاکہ اس کی رقم اس کے وارثوں میں تقسیم ہو؟ عبد اللہ، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: انشورنس اور انشورنس سے ملنے والی رقم کے سلسلے میں علماء نے جو لکھا ہے وہ تفصیل طلب ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اگر ورثاء مالدار اور صاحب حیثیت ہیں تو انہیں اس رقم کو خود استعمال کرنے کے بجائے اسے غرباء و مساکین کو صدقہ کردینا چاہئے۔ غریب ہوں تو ان کیلئے مضائقہ نہیں۔ اس ضروری تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مرحوم کے انتقال کے وقت جو وارث زندہ تھا وہ شرعاً حقدار ہوگا اس کا استحقاق رقم ملنے نہ ملنے پر موقوف نہیں لہٰذا جس وارث کا انتقال بعد میں ہوا وہ بھی شرعی وارث ہے، ترکہ میں اس کا جو حصہ ہے وہ اس کے اپنے وارثوں کو منتقل ہوگا، واللہ اعلم وعلمہ اتم
رخصتی سے قبل طلاق 
ایک لڑکی کا نکاح کم عمری میں ہی اس وقت کردیا گیا تھا جب اس کی بڑی بہن کا نکاح ہورہا تھا۔ نکاح کے بعد وہ سسرال ایک مرتبہ بھی نہیں گئی مگر اب کسی بنا پر طلاق ہونے جارہی ہے اور دونوں طرف سے لوگ راضی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ نکاح کے وقت اُس لڑکی کا جو مہر طے کیا گیا تھا، اُس کا حکم کیا ہے؟ پورا مہر ادا کرنا ہے یا آدھا ؟ اِس کے بارےمیں علماء کرام کیا فرماتے ہیں ؟ صادق حسین، لکھنؤ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: نکاح کے بعد رخصتی کے معاملے میں رخصتی معیار نہیں ہے، اصل ہے خلوت صحیحہ۔ تفصیل یہ ہے کہ نکاح کے بعد دونوں کی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو یا ملے ہوں مگر ایسی تنہائی میسر نہ ہوئی ہو تو ان صورتوں کے احکام یہ ہیں کہ عورت ایک طلاق سے ہی نکاح سے خارج ہو جائیگی اور طلاق صریح میں بھی شوہر کو رجوع کا اختیار نہ ہو گا۔ خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق کی صورت میں عدت بھی نہ ہوگی اس لئے عورت طلاق کے بعد جب چاہے دوسرا نکاح کرسکے گی نیز مہر بھی آدھا ملے گا۔ البتہ خلوت صحیحہ ہوچکی ہوبھلے رخصتی نہ ہوئی ہو اس صورت میں عدت بھی واجب ہوگی اور مہر بھی پورا ملے گا لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر نکاح کے بعد خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تو شوہر کے ذمے نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی البتہ وہ چاہے تو پورا یا اس سے زائدبھی دے سکتا ہے مگر نصف سے زائد کا اس سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت حال میں مہر کے متعلق قرآن کریم میں ہے: ولکم نصف ما فرضتم۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
موبائل کیمرے اور تصاویر 
فون سے شوقیہ طور پر یا یا ویسے ہی تصویر کھینچنا کیا صحیح ہے؟ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اس لئے اکثر علماء کی مجالس بھی اس سے خالی نہیں ہوتیں۔ شاہد حسین، جے پور
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: مجسمہ سازی کے متعلق تو پوری امت متفق الرائے ہے کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، ہاتھ یا قلم وغیرہ سے ٹھوس تصویر بنانے کا بھی تقریباً یہی حکم ہے۔ کیمرہ دورِ حاضر کی ایجاد ہے اور شروع دن سے ہی بہت سے اہل علم خاص کر دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے، ان کا رجحان جواز کی طرف رہا ہے لیکن بر صغیر ہند وپاک کے علماء نے اسے بھی درست نہیں سمجھا اور آج بھی اکثریث کا یہی فیصلہ ہے۔ اب تو کیمرہ کی بھی ضرورت نہیں رہی، موبائل خود ہی کیمرے کا کام دےرہا ہے۔ محتاط علماء بہر حال احتیاط کرتے ہیں مگر اب اس دور ترقی میں اس طرح بھی تصویریں کھینچ لی جاتی ہیں کہ کسی کو خبرہی نہ ہو۔ شوقیہ تصویر سازی کی تو نہ کوئی معقول وجہ ہے نہ ضرورت نیز بظاہر ایسی کوئی وجہ بھی نہیں جسے بنیاد بناکر اس شوق کو پورا کیا جاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ مساجد میں کوئی دینی پروگرام ہو تو بعض اوقات وہاں بھی موبائیل کا استعمال ہونے لگتا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے منکرات سے معاشرہ کو محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK