مراٹھی اخبار پربھات نے لکھا ہے کہ ملک میں اقلیتوں اور دلتوں کی معاشی و سماجی تنگی ایک منظم سازش کے تحت جاری ہے جس کا ثبوت چیف جسٹس پر حملے سے ملتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2025, 12:44 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
مراٹھی اخبار پربھات نے لکھا ہے کہ ملک میں اقلیتوں اور دلتوں کی معاشی و سماجی تنگی ایک منظم سازش کے تحت جاری ہے جس کا ثبوت چیف جسٹس پر حملے سے ملتا ہے۔
مراٹھی اخبار پربھات نے لکھا ہے کہ ملک میں اقلیتوں اور دلتوں کی معاشی و سماجی تنگی ایک منظم سازش کے تحت جاری ہے جس کا ثبوت چیف جسٹس پر حملے سے ملتا ہے۔ غیر اردو اخبارات نے بچوں کے جان لیوا کھانسی کے سیرپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے ملک کے کمزور نظام صحت کو بے نقاب کیا ہے جبکہ نوبھارت اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بہار الیکشن اگرچہ ترقی اور روزگار جیسے مسائل پر مرکوز ہوگالیکن ذات پات کی گہری جڑیں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ علاوہ ازیں اس ہفتے دلت شخص کی ماب لنچنگ، سونے کی بڑھتی قیمتیں اور امریکی ٹیرف پر بھی اداریے لکھے گئے ہیں۔
’مذہب انسان کو طاقتور بناتا ہے، اندھا نہیں ‘
پربھات ( مراٹھی، ۸؍اکتوبر)
’’حالیہ واقعات نے ایک سنگین سوال کھڑا کر دیا ہےکہ جب قانون کا محافظ خود ہی قانون شکن بن جائے تو ملک کے آئینی ڈھانچے کا کیا ہو گا؟ ایک وکیل کی جانب سے عدالت میں کیا جانے والا اشتعال انگیز عمل خاص طور پر ایک دلت جج کے خلاف ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے نازیبا حرکت محض ایک ناخوشگوار واقعہ نہیں بلکہ عدلیہ کی توہین اور ہمارے جمہوری اصولوں پر ایک براہ راست حملہ ہے۔ اگر یہ حرکت کسی ذاتی مذہبی یا ذات پات کی مخالفت کی بنیاد پر کی گئی ہے تو اسے کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا اور یہ سخت ترین قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ حلقے اس مجرمانہ فعل کو مذہبی عقیدت کے نام پر جائز قرار دینے کی گھٹیاکوشش کر رہے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے اصولوں کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ مذہبی جوش کی آڑ میں ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والے کو معاف کر دیا جائے؟ یہ رویہ ہمارے آئین اور قانون کی بالادستی کو جڑ سے اکھاڑنے کے مترادف ہے۔ بابائے قوم گاندھی جی کا قول آج پہلے سے کہیں زیادہ گونج رہا ہے’مذہب انسان کو طاقتور بناتا ہے، اندھا نہیں ‘لیکن جب مذہب کو قانون توڑنے عدالتوں کی تذلیل کرنے یا تشدد کی حمایت کے لیے ایک ڈھال بنا لیا جائے تو یہ عمل نہ مذہبی رہ جاتا ہے اور نہ انسانی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بھی کچھ انتہا پسند عناصر ایسے رویوں کو ہوا دے کر سماج میں نفرت اور تقسیم کا زہر گھول رہے ہیں۔ یہ فکری انتشار ہمارے قومی اتحاد کے لیے شدید خطرہ ہے۔ ‘‘
یہ اتفاقی حادثہ نہیں، بدانتظامی کی واضح مثال ہے
مہاراشٹر ٹائمز( مراٹھی، ۷؍اکتوبر)
’’ملک بھر میں زہریلی کھانسی کے سیرپ سے ۱۶؍ معصوم بچوں کی ہلاکت نے نہ صرف والدین کے دلوں کو غم و اندوہ سے چور کر دیا ہے بلکہ ہمارے ادویاتی نظام، سرکاری نگرانی اور انسانی ضمیر پر ایک گہرا اور ناقابل فراموش سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ بدانتظامی، مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ہندوستانی ساخت کی دوا نے زندگی کے چراغ گل کئے ہوں۔ اس سے قبل گامبیا اور ازبکستان میں بھی ایسے ہی سیرپ کے باعث بچوں کی اموات ہوئی تھیں لیکن ان سانحات سے نہ کوئی سبق حاصل کیا گیانہ نظام میں کوئی اصلاح کی گئی۔ ہر بار کی طرح متعلقہ اداروں نے صرف کاغذی کارروائی اور بیانات کی خانہ پُری سے کام چلایاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ معیار بہتر ہوا نہ نگرانی موثر بن سکی۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو انتظامیہ کی بے حسی ہے۔ مدھیہ پردیش میں جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئیں وہاں سیرپ کے نمونے لیبارٹریوں میں پڑے رہے کیونکہ ماہرین چھٹیوں پر تھے۔ رپورٹ میں تاخیر ہوئی اور جب رپورٹ سامنے آئی بھی تو حکومتی اداروں نے معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ کئی متاثرہ بچوں کے پوسٹ مارٹم تک نہیں کئے گئے تاکہ سچ چھپا رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرز عمل کو انصاف کہا جا سکتا ہے؟ کیا ان معصوم جانوں کے والدین کو صرف تسلی کے چند الفاظ دے کرمطمئن کیا جا سکتا ہے؟یہ وقت ہے کہ حکومتیں محض تحقیقات کے اعلان سے آگے بڑھ کر ٹھوس کارروائی کریں۔ ‘‘
زہریلی لاپروائی، موت کا پیغام بن رہی ہے
دی ٹائمز آف انڈیا( انگریزی، ۶؍اکتوبر)
ادویات کی تیاری میں زہریلے مادوں کا شامل ہونا کسی بھی مہذب ملک میں ناقابل تصور ہےمگر افسوس کہ ہندوستان میں یہ خطرناک غفلت بار بار انسانی جانوں کو نگل رہی ہے۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں درجنوں معصوم بچے زہریلے کھانسی کے شربت کا شکار ہو کر جان سے گئے۔ یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں۔ گزشتہ برسوں میں کشمیر، ازبکستان اور گامبیا میں ہندوستانی سریپ سے مجموعی طور پر۱۴۳؍ بچوں کی اموات ہو چکی ہیں مگرسرکاری اداروں کی بے حسی بدستور قائم ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہی کمپنیاں جنہیں بیرون ملک موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا آج پھر بلاخوف کاروبار کر رہی ہیں۔ ڈی ایتھلین گلائکول (ڈی ای جی) جیسا زہر ہماری دوا سازی میں دہائیوں سے موجود ہے۔ ۱۹۸۶ء کے ممبئی اور ۱۹۹۸ء کے دہلی کے سانحات سے لے کر آج تک کہانی ایک جیسی ہی ہے۔ چند روپے کی بچت کیلئے انسانی جانوں کی قربانی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محض بیانات سے آگے بڑھے اور امریکہ کی طرح سخت قانونی اقدامات کرے۔ ورنہ یہ زہریلی لاپروائی آنے والی نسلوں کیلئے بھی موت کا پیغام بن جائے گی۔ ‘‘
ووٹ بینک کیلئے پارٹیاں طبقاتی تقسیم کو بڑھاتی ہیں
نوبھارت( ہندی، ۴؍اکتوبر)
’’ بہار کی سیاست میں وقت کے کئی موسم بدلے، چہرے اور نعرے تبدیل ہوئے مگر ذات پات کا سایہ آج بھی اتنا ہی طویل ہے جتنا آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں تھا۔ جمہوریت کے اس میدان میں جہاں عوامی فلاح و ترقی کے وعدے گونجنے چاہئیں، وہاں اب بھی ذات اور برادری کی گنتی ہی سیاسی حکمتِ عملی کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ انتخابی امیدواروں کے تعین سے لے کر حکومت سازی کے مرحلے تک ہر سطح پر سماجی توازن کا سیاسی حساب کیا جاتا ہے۔ ہر جماعت اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کیلئے طبقاتی تقسیم کو ہوا دیتی ہے۔ یہاں تک کہ قومی سطح کی جماعتیں بھی اپنی سیاسی زمین مضبوط کرنے کیلئے پسماندہ طبقات کو زائد نمائندگی دے کر ذات کی سیاست کو ایک نئے انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ ۲۰۲۰ ءکے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے نصف سے زائد اراکین انہی طبقات سے تھے اور۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہی رجحان نمایاں رہا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاست کا محور اب بھی ذات کا توازن ہی ہے، نظریہ یا کارکردگی کا نہیں۔ یہ حقیقت بہار کی جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔ عوامی خدمت اور ترقی کے نعرے بلند ضرور کئے جاتے ہیں مگر فیصلہ کن طاقت اب بھی ذات برادری کے ہاتھوں میں ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں ووٹروں کو شہری کے بجائے’ ذات‘ کے پیمانے سے پرکھتی رہیں گی تب تک بہار کی سیاست اسی طرح جمود کا شکار رہے گی۔ ‘‘