• Sun, 05 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: اذان سنت ِ مؤکدہ اور بعض حضرات کے مطابق واجب ہے

Updated: October 04, 2025, 3:56 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)اذان سنت ِ مؤکدہ اور بعض حضرات کے مطابق واجب ہے (۲)نوافل میں قرأت کی ترتیب (۳) مالِ زکوٰۃ اور وکیل  (۴) کھڑے ہوکر کھانا۔

It is important for the muezzin to have a loud voice and be familiar with the words of the call to prayer. Photo: INN
مؤذن کا بلند آواز ہونا اور اذان کے کلمات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

 کیا اذان دینے کے لئے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے ؟ اکثر لوگ حی علی الصلاۃ اور الفلاح میں سینہ قبلے سے پھیر دیتے ہیں، کیا اس سے اذان میں کوئی فرق پڑے گا؟ فہیم الدین، میرٹھ 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اذان سنت ِ مؤکدہ اور بعض حضرات کے مطابق واجب ہے، یہ اسلامی شعار ہے اور کسی آبادی کی اسلامی شناخت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ علماء نے اذان اور مؤذن کی شرائط اور مؤذن میں مطلوب صفات وغیرہ پر تفصیل سے لکھاہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ مؤذن کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، مرد ہو اور عقل رکھتاہو، پاگل نہ ہو۔ اذان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ وقت پر دی جا ے، کلماتِ اذان عربی ہوں، کلمات کی جو ترتیب ہے اس میں رد وبدل نہ ہو اور بیچ میں غیرضروری وقفہ نہ ہو۔ اذان سے مقصود لوگوں کو باخبر کرنا ہے اسلئے جہاں مؤذن میں اسلام اور عقل کی صفات ضروری ہیں وہیں اس کے بلند آواز والا ہونے اور اوقات نماز سے واقفیت کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اذان عہد رسالت میں جس طرح دی جاتی تھی اس کی رعایت بھی بے حداہمیت رکھتی ہے۔ روایات کے تتبع سے ظاہر ہے کہ عہد رسالت اور اس کے بعد قرو ن اولیٰ میں مؤذن حضرات قبلہ رو ہوکر ہی اذان دیتے تھے اور آج تک امت کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ اس تفصیل سے مؤذن کے قبلہ رو ہونے کی اہمیت بھی ظاہر ہے۔ اذان میں حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کے وقت دائیں اور بائیں جانب رخ کرنا بھی ثابت ہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ قدم اور سینہ قبلے کی طرف ہی رہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نوافل میں قرأت کی ترتیب
  چار رکعات والی نوافل میں قرأت میں ترتیب ضروری ہے یا آگے پیچھے کہیں سے پڑھ سکتے ہیں مثلاً پہلی دو رکعات میں تیسویں پارے سے پڑھ دیا اور بعد کی دو رکعات میں انتیسویں پارے سے پڑھ دیا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ نعیم احمد، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:قرآن کریم میں سورتوں کی جو ترتیب ہے دوران نماز قرأت میں اس کے برعکس پڑھنا (مثلاً پہلی رکعت میں تیسویں پارے کی کوئی سورہ پڑھنے کے بعد دوسری رکعت میں قصداً انتیسویں پارہ کی کوئی سورہ پڑھنا)یہ مکروہ ہے۔ فرض میں ترتیب کی خلاف ورزی مکروہ تحریمی اور سنن و نوافل میں مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ ہے لیکن چونکہ قرأت کی یہ ترتیب قرأت کے واجبات میں سے ہے نہ کہ نماز کے واجبات میں سے اس لئے اس کی خلاف ورزی کے باوجود نماز ہوجائےگی، نہ سجدۂ سہو لازم ہوگا نہ ہی نماز کے اعادہ کا حکم ہوگا، تاہم قصداً خلاف ترتیب پڑھنے سے احتیاط کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
مالِ زکوٰۃ اور وکیل 
 ایک آدمی نے مجھے زکوٰۃ کے پیسے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ اپنے حساب سے اس رقم کو ضرورت مندوں کویا مدرسے میں دے دیجئے۔ کیا اس رقم سے مدرسے کےلئے کوئی چیز دے سکتے ہیں جیسے کپڑا دھونے والی مشین یا کوئی اور ضرورت کی چیز؟ عبد الغنی، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: آپ کی حیثیت تو صاحب مال کی طرف سے مستحقین تک پہنچانے کیلئے وکیل کی ہے۔ صاحب مال خود بھی براہ راست مدرسہ اور مسجد کی ضروریات میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کرسکتا تاوقتیکہ کسی مستحق کو مالک نہ بنادے اور جب تک مالک نہ بنادے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اس لئے آپ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں، البتہ اگر آپ نے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو بجائے نقد رقم دینے کے اسکی ضرورت کی کوئی چیز جیسے مشین وغیرہ دے دی اس کے بعد اسے اختیار ہوگا کہ چاہے خود استعمال کرے چاہے کسی اور کو دے دے۔ اس اختیار کے مطابق وہ مدرسے کو بھی دے سکتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
کھڑے ہوکر کھانا 
 آج کل شادیوں میں کھڑے ہوکر کھانے کا سسٹم شروع ہو گیا ہے۔ کچھ لوگ تو بیٹھ کے کھاتے ہیں ، کچھ کھڑے ہو کے کھاتے ہیں۔ ایسی شادیوں میں عوام و خواص کا شریک ہونا کیسا ہے؟
 عطاء الرحمٰن، اتراکھنڈ 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: مختصر جواب تو یہ ہے کہ جس طرح آج کل تقریبات میں کھڑے ہو کر کھانے کا رواج عام ہورہا ہے یہ مسنون طریقے کے خلاف اور مغربی اقوام کی نقالی ہے۔ جہاں تک کھانے کے اسلامی آداب کا مسئلہ ہے تو اسلامی کتب (حدیث وفقہ) میں انہیں تفصیل سے بتادیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ سے منقول ایک روایت کے مطابق انہوں نے حضرت قتادہؓ سے دریافت کیا کہ حضوراکرمؐ کا معمول کیا تھا، انہوں نے جواب دیا کہ آپؐ زمین پر دستر خوان بچھاکر کھانا تناول فرماتے تھے۔ عہد رسالت سے لے کر ماضی قریب تک امت کا یہی معمول رہا ہے اور صلحاء اب بھی اسی پر عمل پیرا ہیں لہٰذا اول تو مسلمانوں کی تقریبات میں اس کو ختم کرنے کی جد وجہد کی جائے، اگر انجانے میں ایسی کسی جگہ پہنچ جائیں تو خود کھڑے ہوکر کھانے سے اجتناب کریں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK