’’ الف، لام، میم ہے، یہ کتاب ِالٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ان لوگوں کے لئے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور ان کے لئے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ)
قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ جب اس کے معانی و مفہوم پر بھی غور و فکر کیا جائے تو تفہیم کے بے شمار معنی ظاہر ہوتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
’’ الف، لام، میم ہے، یہ کتاب ِالٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ان لوگوں کے لئے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور ان کے لئے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ)
قرآن نے یہ بتانے کے بعد کہ یہ کتاب، خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے، ان لوگوں کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے، جو اس لفظ کے اس زمانہ میں مصداق بن سکتے تھے۔ یہ اشارہ اس طرح کیا ہے کہ ان کی کچھ نمایاں خصوصیات بیان کردی ہیں۔ ان خصوصیات پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ان مسلمانوں کی خصوصیات ہیں جو نبی کریمؐ پر ایمان لائے تھے۔ اس سے یہ اشارہ نکلا کہ ان لوگوں کے اندر تقویٰ اور خشیت کی صفت پہلے سے موجود تھی اس وجہ سے ان کو قرآن سے نفع پہنچا۔ ان کے اندر امی عربوں میں سے جو لوگ شامل ہوئے تھے، یہ وہ لوگ تھے جن کے اندر زمانہ کے عام فساد کے باوجود بہت سی خوبیاں موجود تھیں اور ان کو فطرت کی ہدایت کی جو روشنی ملی تھی اس کو انہوں نے اپنے محفوظ رکھا تھا اسی طرح ان کے اندر اہل کتاب میں سے جو لوگ شامل ہوئے تھے، وہ بھی اپنی اپنی شریعتوں پر اپنے علم کی حد تک نیک نیتی سے عمل کرنے والے تھے اس وجہ سے یہ لوگ مستحق ٹھہرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی آخری اور کامل ہدایت سے بہرہ ور کرے۔
اس تصویر میں مسلمانوں کے جو خط و خال نمایاں کیے گئے ہیں ان پر غور کرنے سے ایک طرف اگر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان کے اصلی اوصاف کیا ہیں یا کیا ہونے چاہئیں تو دوسری طرف یہی تصویر ان لوگوں کو بھی سامنے لا کھڑا کرتی ہے جو اس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ساتھ ہی نہایت خوبی کے ساتھ، اشارات و کنایات کے پردے میں، ان کے ایمان نہ لانے کے اسباب کی طرف بھی اشارے کردیتی ہے۔ اشارات و کنایات کے اس پردے کو اٹھائیے تو اس کے نیچے سے یہود بر آمد ہوتے ہیں جن سے اس سورۃ میں اصلی بحث ہے۔ اپنی جن اخلاقی و روحانی بیماریوں کے سبب سے یہود، قرآن کی نعمت سے محروم ہوئے ان کو بے نقاب کرنے کیلئے قرآن نے یہ بلیغ انداز اختیار کیا کہ مسلمانوں کی ان عملی و اعتقادی خصوصیات کو خاص طور پر نمایاں کیا جن کے بالکل ضد خصوصیات یہود نے اپنے اندر جمع کر رکھی تھیں۔ اور جو قبول حق میں ان کے لئے ایسی رکاوٹ بن گئی تھیں کہ ان پر قابو پانا ان کے لئے ناممکن ہوگیا تھا۔ ہم قرآن کے ان لطیف اشارات کی یہاں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان نہیں لارہے تھے ان کے ایسا کرنے کے اسباب کیا تھے۔
سب سے پہلے ’’ ھدی للمتقین‘‘ کے الفاظ پر غور کیجئے۔ یہ بات یہ کہ یہ کتاب متقین ہی کے لئے ہدایت ہے، یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ایک اہم فیصلہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ گو سالہ پرستی (بچھڑے کی پرستش) کے واقعہ کے بعد جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود سے توبہ کرائی اور ان کو تطہیر و تزکیہ کی بعض سخت آزمائشوں سے گزا را تو اس وقت ان کے لئے انہوں نے یہ دعا بھی فرمائی کہ آئندہ یہ خدا کے غضب سے محفوظ رہیں اور اس کی رحمت سے کبھی محروم نہ ہوں۔ حضرت موسیٰؑ کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول تو فرمائی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آئندہ اس کی جو رحمت، آخری شریعت کی شکل میں نازل ہونے والی ہے اس سے یہود میں سے صرف وہی لوگ بہرہ یاب ہوسکیں گے جو خدا سے ڈرتے رہیں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوں گی ان پر ایمان لائیں گے۔ سورۂ اعراف میں، جہاں حضرت موسیٰؑ کی دعوت کا یہ واقعہ بیان ہوا ہے، مندرجہ ذیل آیت بھی آتی ہے۔ اس آیت پر اس کے سیاق و سباق کو پیش نظر رکھ کر غورکیجئے:
’’اور میری رحمت ہر چیز کو حاوی ہے، پس میں اس کو لکھ رکھوں گا ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ پر قائم رہیں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور ان لوگوں کے لئے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ یعنی جو رسول خدا اور نبی ٔ کریم کی پیروی کریں گے۔ ‘‘ (اعراف :۱۵۶۔ ۱۵۷)
یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نعمت حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سے صرف انہی لوگوں کو ملنے والی تھی جو تقویٰ پر قائم رہنے والے، زکوٰۃ ادا کرتے رہنے والے اور اللہ کی آیتوں پر ایمان لانے والے تھے۔ پھر آیت کے آخر میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ تھے جو نبی ٔامی ؐکی پیروی کریں گے۔
بعینہ اسی شرط کو ’’ ھدی للمتقین‘‘ کے الفاظ یہاں یاد دلا رہے ہیں۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ اس شرط پر پورے اترے وہ ایمان لائے اور اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ جو لوگ اس کتاب پر ایمان نہیں لائے وہ تقوی اور خشیت کی اس صفت سے عاری تھے جو اس کتاب پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے۔
ٹھیک اسی طرح کی بات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی فرمائی تھی۔ ان کو مختلف امتحانوں میں جانچنے کے بعد جب قوموں کی امامت کے منصب پر سرفراز فرمانے کا وعدہ فرمایا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ منصب میری ذریت کو بھی حاصل رہے گا یا نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ’’(ہاں ! مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ ‘‘ (بقرہ:۱۲۴)
یومنون بالغیب کے الفاظ یہود کی اس محسوسات پرستی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس میں وہ ابتداء سے مبتلا رہے ہیں۔ اپنی اسی بیماری کے سبب سے یہود عین اپنے نبی کی موجودگی میں ایک بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ مصر کے دورِ غلامی میں وہ جس ذہنی و روحانی پستی میں مبتلا ہوگئے تھے اس سے آخر وقت تک ان کو نکلنا نصیب نہ ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰؑ کے معجزات دیکھنے کے بعد بھی ان کا اصرار یہی رہا کہ وہ ایک مرتبہ خود اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ لیں تب وہ اس بات کو مانیں گے کہ فی الواقع وہ حضرت موسیٰؑ سے کلام بھی کرتا ہے۔ (بقرہ :۵۵) اسی طرح کی بات مشرکینِ مکہ بھی کہتے تھے۔ ان کا اعتراض بھی نبیؐ کریم پر یہ تھا کہ اگر اللہ آپ سے کلام کرتا ہے تو آخر ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟
قرآن نے یہ کہہ کر کہ اس کتاب پر وہی لوگ ایمان لائیں گے جو غیب میں رہتے ایمان لائیں، گویا دوسرے الفاظ میں یہ اعلان کردیا کہ جو لوگ خدا کو چھو کر اور تمام حقائق کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانا چاہتے ہیں ان کیلئے قرآن میں کوئی حصہ نہیں ہے، قرآن کا فیض صرف ان معقول لوگوں کو پہنچے گا جو حواس ظاہری بات سے زیادہ عقل پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ایمان لانے والوں کی یہ تعریف کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، یہود اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی اس حال پر تعریض ہے جس کا ذکر قرآن نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمایا ہے: ’’پھر ان کے بعد ان کے ایسے جانشین آئے جنہوں نے نماز ضائع کردی اور شہوتوں کے پیچھے پڑگئے تو وہ اپنی گمراہی کے انجام سے جلد دوچار ہونگے۔ ‘‘ (مریم: ۵۹)۔ اہل ایمان کے انفاق کے ذکرمیں یہود اور ان کے جتھہ کے دوسرے ساتھیوں کی اس بخالت اور اس زر پرستی پر تعریض ہے جو ہمیشہ سے ضرب المثل رہی ہے۔ قرآن کے زمانۂ نزول میں ان کے عوام تو درکنار ان کے علماء اور صوفیاء کا جو حال تھا اس کی تصویر قرآن نے ان الفاظ میں کھینچی ہے۔ فرمایا: ’’اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ ‘‘ (توبہ:۳۴)۔ ’’ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ‘‘ الایۃ میں یہود کے اس گروہی تعصب پر تعریض ہے جو ان کیلئے قرآن پر ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا تھا:
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اس چیز پر جو اللہ نے اتاری ہے تو کہتے ہیں ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر اتاری گئی ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں۔ ‘‘ (بقرہ:۹۱)
اہل ایمان کی یہ تعریف کہ ’’ آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں ‘‘ آخرت کے بارے میں یہود کی اس بے یقینی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کی شہادت ان کی عملی زندگی کے ہر گوشے سے مل رہی تھی۔ یوں تو وہ آخرت پر نہ صرف ایمان کے مدعی تھے بلکہ ان کا دعوی تو یہ تھا کہ آخرت کی ساری کامیابیاں تنہا انہی کا حصہ ہیں مگر دوسری طرف زندگی اور اسباب ِ زندگی کی محبت میں اس قدر غرق تھے کہ ان مشرکین کو بھی مات دے گئے جو آخرت کا تصور یا تو سرے سے رکھتے ہی نہیں تھے یا رکھتے تھے تو نہایت مبہم اور دھندلا، مشرکین ہی کی طرح انہوں نے بھی غلط قسم کی شفاعت کا تصور قائم کرلیا تھا اور اس وہم میں مبتلا ہوگئے تھے کہ دوزخ میں اول تو وہ ڈالے ہی نہیں جائینگے اور اگر ڈالے بھی گئے تو چند دنوں سے زیادہ کیلئے نہیں۔ ظاہر ہے کہ آخرت پر اس طرح کا ایمان ایک بالکل بے معنی ایمان ہے۔ چنانچہ قرآن نے ان کے اس ایمان کی قلعی اس طرح کھولی ہے:
’’کہہ دو کہ اگر آخرت کی کامیابی دوسروں کے مقابل میں خاص کر تمہارا ہی حصہ ہے تو موت کی آرزو کرو اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو اور وہ اپنی کرتوتوں کے سبب سے ہرگز موت کی تمنا نہیں کرینگے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ تم ان کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤگے، ان سے بھی زیادہ جو مشرک ہیں۔ ‘‘ (بقرہ: ۹۴؍تا۹۶)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ متقین کے ذکر کے بعد ان متقین کی جو تصویر قرآن نے پیش کی ہے اس سے ایک طرف تو وقت کے اہل ایمان سامنے آگئے اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ تھے جن کے اندر تقویٰ اور خشیت کی فطری صلاحیتیں موجود تھیں اس وجہ سے ان کو قرآن پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی۔ دوسری طرف اسی تصویر نے یہود اور ان کے حلیفوں کو سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو خدا کے خوف اور اس خوف کی تمام برکتوں سے خالی ہیں، اس وجہ سے یہ قرآن کی دعوت کو قبول نہیں کرینگے۔
ان چند الفاظ کے اندر اتنی لمبی تفصیل کو چھپا دینا اور یہود کا نام لئے بغیر ان کو اس طرح بے نقاب کردینا قرآنی بلاغت کا اعجاز ہے۔