• Sun, 05 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دل، دماغ اور روح کی ہم آہنگی کا نام ہےتوکل

Updated: October 04, 2025, 3:43 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

انسانی حیات کے سب سے گہرے سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات کی اس بے کراں وسعت میں انسان اپنی ناتواں ہستی کا سہارا کہاں تلاش کرے؟

When a person submits his limited thinking to the infinite wisdom of Allah, then peace arises within him. Photo: INN
جب بندہ اپنی محدود سوچ کو اللہ کی لامحدود حکمت کے سامنے جھکا دیتا ہے، تب اس کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے۔ تصویر: آئی این این

انسانی حیات کے سب سے گہرے سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات کی اس بے کراں وسعت میں انسان اپنی ناتواں ہستی کا سہارا کہاں تلاش کرے؟ وہ قوت کہاں ہے جس پر بھروسہ کر کے دل کو سکون اور عقل کو یقین مل سکے؟ کیا یہ سہارا اسباب کی دنیا ہے، جو لمحوں میں ٹوٹ جاتے ہیں ؟ یا وہ خالق ہے، جس کی قدرت کے سامنے سب اسباب محض ایک پردہ ہیں ؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سے توکل علی اللہ کا فلسفہ جنم لیتا ہے۔ توکل محض ایک اخلاقی صفت یا روحانی نصیحت نہیں، بلکہ ایمان کی حقیقت کا مرکز ہے۔ قرآن نے اسے بار بار ایمان کی شرط اور تسکینِ دل کی کنجی قرار دیا۔ مگر یہ توکل سب کیلئے یکساں نہیں ہوتا؛ کسی کے لئے یہ زبان کا دعویٰ ہے، کسی کے لئے دل کی گہرائی میں راسخ اعتماد اور کسی کے لئے وجود کی مکمل فنا۔ 
یوں توکل ایک ارتقائی سفر ہے۔ ابتدا میں یہ احتیاط کے ساتھ عقل کا سہارا ہے، پھر یہ محبت اور رضا کے ساتھ قلبی کیفیت بنتا ہے اور آخرکار یہ فنا اور سپردگی میں اپنی معراج پاتا ہے۔ یہی وہ سفر ہے جس نے انبیاء کو مقامِ عصمت تک، صحابہ کو مقامِ رضا تک، اور اولیاء کو مقامِ محبت تک پہنچایا۔ 
قرآن و حدیث میں بار بار اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ بندۂ مومن اپنے تمام معاملات میں اللہ ہی پر بھروسہ کرے، اسباب اختیار کرے مگر دل کو ان پر نہ ٹکائے، بلکہ نتیجہ اور انجام صرف اللہ کے سپرد کرے۔ مگر یہ بھروسہ یکساں درجے کا نہیں ہوتا، بلکہ اہل ایمان کے حالات کے مطابق مختلف مدارج میں تقسیم ہوتا ہے۔ 
توکل کے مراحل 
اعتمادِ ظاہری: یہ توکل کا سب سے ابتدائی درجہ ہے۔ اس میں بندہ اللہ پر ویسا ہی بھروسہ کرتا ہے جیسا کوئی شخص اپنے وکیل یا کفیل پر کرتا ہے۔ معاملات سپرد تو کر دیتا ہے مگر دل میں یہ اندیشہ باقی رہتا ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا، اور اس کی نگاہیں وکیل کے بجائے دوسری راہ اور دیگر وسائل پر بھی ہوتی ہیں۔ عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ زبان سے اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں مگر دل میں زیادہ انحصار اسباب پر کرتے ہیں۔ اہلِ تقویٰ اسباب اپناتے ہیں اور ساتھ ہی اللہ پر اعتماد رکھتے ہیں، مگر کبھی کبھار وسوسے دل کو ہلا دیتے ہیں۔ 
اعتمادِ فطری: یہ درمیانہ اور نسبتاً اعلیٰ درجہ ہے۔ بندے کا اللہ پر یقین ویسا مضبوط ہو جاتا ہے جیسا بچے کا اپنی ماں پر ہوتا ہے۔ بچہ سمجھتا ہے کہ اس کی بھوک مٹانا، دکھ دور کرنا اور ہر ضرورت پوری کرنا صرف اور صرف اُس کی ماں کے ذریعہ ممکن ہے۔ وہ نہ کسی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے اور نہ کسی اور پر اعتماد کرتا ہے۔ جیسے بچہ صرف ماں پر بھروسہ ہی نہیں کرتا بلکہ محبت کے ساتھ اس کی آغوش میں سکون تلاش کرتا ہے، اسی طرح بندہ اللہ پر اعتماد بھی کرتا ہے اور محبت کی بنیاد پر اپنی جان و دل بھی سپرد کرتا ہے۔ 
جس طرح بچہ ماں کے رویے پر ناراض نہیں ہوتا اسی طرح بندہ اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے چاہے وہ اس کے نفس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ 
اعتمادِ کامل و سپردگی : یہ توکل کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ بندہ اپنی مرضی، ارادہ اور چاہت سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ جیسے میت کو غسل دیتے وقت اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور اس کی ہر جنبش غسل دینے والے کے ارادے پر منحصر ہوتی ہے، ویسے ہی کامل مومن اپنے ہر حال میں اللہ رب العالمین کے فیصلے کا تابع ہو جاتا ہے۔ 
اس کے ذیل میں ایک اور عظیم درجہ ہے: عشقِ الٰہی میں فنا کا توکل۔ میت تو مجبور ہوتی ہے، مگر سالک اپنے اختیار کے باوجود اپنی خواہش کو فنا کر دیتا ہے اور اللہ کے ارادہ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ درجہ انبیاء علیہم السلام کے خاص فیضان اور بعض کامل اولیاء کو حاصل ہوا ہے۔ یہ کمال کی منزل ہے، جہاں بندہ اپنی ذات کو بھلا کر اللہ کی مشیت میں پوری طرح محو ہو جاتا ہے۔ 
توکل کے مذکورہ تین بڑے درجے — انسان کے ایمان اور یقین کی گہرائیوں کی علامت ہیں۔ عام مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ وکیل والے توکل سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے، اور صحابہ و اولیاء کی طرح بچے جیسے توکل پر پہنچنے کی سعی کرے۔ اور سب سے اعلیٰ درجہ، جو انبیاء کو ملا، وہ اس امت کے اولیاء کے لئے بھی ایک نمونہ اور ہدف کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
 توکل علی اللہ دراصل انسان کے وجود کی سب سے نفیس مشق ہے۔ یہ صرف بھروسے کا نام نہیں بلکہ دل و دماغ اور روح کی ہم آہنگی کا نام ہے۔ جب بندہ اپنی محدود سوچ کو اللہ کی لامحدود حکمت کے سامنے جھکا دیتا ہے، تب اس کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے جو دنیا کے تمام ہنگاموں اور اضطراب سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ سکون نہ صرف حالات کی تبدیلی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے بلکہ انسان کے کردار کو نکھارتا، فیصلوں کو وضاحت بخشتا، اور روح کو استقلالِ عمل عطا کرتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK