نوعِ بشری آغاز سے لے کر آج تک جتنے الہامی اور غیرالہامی مذاہب سے روشناس ہوئی ہے اُن کی روشنی میں اگر مختلف ادیان کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اسلام میں دو ایسی نمایاں خصوصیات ملتی ہیں جو اسے دوسرے مذاہب سے ممیز اور ممتاز بناتی ہیں۔
EPAPER
Updated: October 04, 2025, 4:38 PM IST | Dr. Ishaq Musa Al-Husseini | Mumbai
نوعِ بشری آغاز سے لے کر آج تک جتنے الہامی اور غیرالہامی مذاہب سے روشناس ہوئی ہے اُن کی روشنی میں اگر مختلف ادیان کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اسلام میں دو ایسی نمایاں خصوصیات ملتی ہیں جو اسے دوسرے مذاہب سے ممیز اور ممتاز بناتی ہیں۔
نوعِ بشری آغاز سے لے کر آج تک جتنے الہامی اور غیرالہامی مذاہب سے روشناس ہوئی ہے اُن کی روشنی میں اگر مختلف ادیان کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اسلام میں دو ایسی نمایاں خصوصیات ملتی ہیں جو اسے دوسرے مذاہب سے ممیز اور ممتاز بناتی ہیں۔ پہلی خصوصیت دینِ حق کی ہمہ گیری اور اس کے مختلف شعبوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ مثلاً اس کے وسیع اور متوازن نظام میں جہاں روح کی بالیدگی کا پورا اہتمام موجود ہے وہیں مادی زندگی کی ضروریات اور ان کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ تزکیۂ نفس اور انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی پوری طرح خیال رکھا گیا ہے اور اگر ایک طرف عبادات کو روحانی ترقی کی اساس قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف دنیاوی معاملات کی رفیع الشان عمارت بھی اخلاق کی محکم اور مستحکم بنیادوں پر تعمیر کی گئی ہے۔ فرد اور جماعت کے حقوق میں ہر لحاظ سے مطابقت و توازن ہے اور کسی ایک کے لئے دوسرے کو نظراندازنہیں کیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے اسی تابندہ اور درخشندہ پہلو کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ دین حق نے انسان کیلئے ایک ایسے واضح اور روشن راستے کی نشاندہی کی ہےجس پر گامزن ہو کر وہ دنیا اور آخرت دونوں کے لئے فلاح و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ اسلا م نے ایک ایسی سوسائٹی کی تشکیل کی ہے جس کے سارے افراد خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی طرف دست ِ تعاون بڑھاتے ہیں اور برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتے ہیں :
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۰۴)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ ‘‘
اسلام کی دوسری امتیازی خصوصیت اس کا وہ آفاقی نقطۂ نظر ہے جس کے مطابق وہ پوری نوع بشری کو ایک ایسی برادری کی حیثیت سے دیکھتا ہے جس کا ہر فرد دوسرے کا دمسازاور رفیق ہو اور جس میں انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کی کوئی تفریق نہ ہو، عزت و فضیلت کا معیار صرف نیکی اور پاکبازی ہو، جس میں تمام انبیاءؑ کو ایک ہی مشن کے علمبردار کی حیثیت سے دیکھا جائے اور اس وجہ سے سب کو صحیح اور برحق مان کر عزت و احترام کا مستحق سمجھا جائے۔ پھر انسانیت کا یہی وسیع تر نقطۂ نظر پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات میں کارفرما ہے اور اسی بنا پر اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف، نیکی اور پرہیزگاری کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ یہی نقطۂ نظر ایک مسلمان کے دل میں یہ احساس بھی بیدار کرتا ہے کہ حکمت اور بھلائی کی بات جہاں سے بھی ملے اُسے اپنی گمشدہ متاع سمجھ کر فوراً حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
قرآن مجید میں بے شمار آیات اخلاقی عظمت، اجتماعی فضائل، راستی اور عدل کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ان انفرادی اور اجتماعی اخلاق میں والدین کے ساتھ حسن سلوک، ضرورتمند اعزہ و اقارب، یتیموں اور مسکینوں کی معاونت اور دستگیری، محتاجوں اور ناداروں کی حاجت براری، مریضوں اور کمزوروں کے ساتھ شفقت اور نرمی کا برتاؤ، لوگوں کی دست درازیوں سے درگزر کرنے اور صلہ رحمی کی عادت، مصائب کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرنے اور حق و صداقت کے کٹھن راستے پر قائم رہنے کی سچی تڑپ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کا سچا جذبہ، رزق حلال کے حصول کیلئے سعی و جہد، یہ اور اس نوعیت کے دوسرے فضائل اسلامی نظام ِ حیات میں غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
قرآن مجید نے جہاں ایک طرف ان مثبت اخلاقی اقدار کو اپنانے کی تلقین کی ہے وہیں منکرات سے اجتناب پر بھی بڑا زور دیا ہے اور ان برائیوں کا واضح ذکر فرمایا ہے جو انسانی اخلاق کو بگاڑنے اور برباد کرنے والی ہیں، مثلاً فحش گفتگو، سوءِ ظن، دروغ، خیانت، ظلم و عدوان، اکل ِ حرام، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کا مال خردبرد کرنا، ناپ تول میں بددیانتی اور خرچ کے معاملے میں اسراف سے کام لینا۔ ان کھلی برائیوں کا ذکر احادیث نبویؐ اور آثارِ صحابہ میں بھی ملتا ہےاور حضورؐ اور آپؐ کے مقدس رفقاء کار کے اقوال و افعال سے یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رذائل کو کس نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
احتساب اپنی اصل کے اعتبار سے امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا ہی دوسرا نام ہے اور اس مقدس فرض کی انجام دہی مسلمانوں پر لازم ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور آپؐ کی تصریحات اس بات کی واضح شہادت فراہم کرتی ہیں کہ اس بنیادی فرض کو ادا کئے بغیر کامیاب اجتماعی زندگی گزاری نہیں جاسکتی۔ معاشرے کے ہر فرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دوسروں کو خیر اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کرے اور برائی کا پوری قوت سے راستہ روکے۔ اسی بنا پر یہ فریضہ ہر عاقل مسلمان پر، جو اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، عائد ہوتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعلق حیات انسانی کے کسی ایک گوشے سے نہیں بلکہ یہ پوری زندگی کے لئے ایک رہنما اصول ہے جس کی مخلصانہ پیروی سے معاشرے میں خیر و برکت پیدا ہوتی ہے۔
دین نام ہے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا جو اُس نے انسانوں پر عائد کر رکھے ہیں۔ اللہ کے حقوق دوسرے تمام حقوق پر فائق ہیں اور انہیں کسی بڑی سے بڑی مصلحت پر قربان نہیں کیا جاسکتا، کوئی انفرادی اور اجتماعی مطالبہ دینی مطالبے پر بھاری نہیں ہوسکتا۔ دین انسان کے افکار و نظریات کی تشکیل اور احساسات و جذبات کی تربیت کرتا ہے اور اس بنا پر وہ انسان کو بے جا قسم کی خارجی جکڑبندیوں سے بے نیاز بنا دیتا ہے۔ دین کا دارومدار احساس و ضمیر کی بیداری پر ہے اور یہ گوہر مقصود باری تعالیٰ سے گہری محبت اور اس کے احکام کی خوش دِلی کے ساتھ پیروی ہی سے ہاتھ آتا ہے اور یہ پیروی زندگی کے کسی ایک گوشے تک محدود نہیں بلکہ جب تک انسان پوری طرح اللہ کی منشا اور مرضی کے تابع نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ اسلام کی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔
اس بنا پر امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا فریضہ جسے ہم ’’احتساب‘‘ سے موسوم کرتے ہیں، وہ بھی باری تعالیٰ کی عبادت ہی میں شامل ہے۔ اس سے ضمیر کی بیداری وابستہ ہے کیونکہ جب تک انسان ہر وقت اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ نہیں رہتا، اپنے ہر عمل کو اُس کی مرضی کے تابع نہیں کرتا اس وقت تک وہ اس فریضۂ احتساب کو اچھی طرح سر انجام نہیں دے سکتا۔