قرآن مجید میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہے کہ نبیؐ کی اتباع کی جائے، آپؐ سے محبت کی جائے اور آپؐ نے جو احکامات پیش کئے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ موجودہ حالات میں اسی پر سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: October 04, 2025, 4:42 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہے کہ نبیؐ کی اتباع کی جائے، آپؐ سے محبت کی جائے اور آپؐ نے جو احکامات پیش کئے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ موجودہ حالات میں اسی پر سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ اس کو اپنے محبوب کا نمائندہ بھی محبوب اور مرکز تقدیس واحترام کا نمائندہ بھی مقدس ومحترم ہوتا ہے، یہ ایک فطری جذبہ ہے، اور ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے، پھر یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جو ہستی انسان پر احسان کرتی ہے، انسان اس کے لئے اپنے دل میں محبت کی حرارت محسوس کرتا ہے؛ اسی لئے عربی زبان کا محاورہ ہے: الانسان عبد الاحسان (انسان احسان کا بند ہ ہے)، اب غور کیجئے تو انسان کا پورا وجود اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کا شاہکار ہے۔ کھانے کے ایک ایک لقمہ سے لے کر جسم کو ڈھانکنے والے کپڑے کی ایک ایک دھجی تک، جسم میں دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرہ سے لے کر باہر اور اندر جانے والی ایک ایک سانس تک سب کچھ خدائے خالق و مالک کا عطیہ اورخود اس کا وجود اور زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کا صدقہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں اور قوتوں سے نوازا ہے، دیکھنے، سننے، بولنے اور چلنے پھرنے کی، یہ سب انمول نعمتیں هیں ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان صلاحیتوں کا استعمال بجا طریقہ پر بھی ہو سکتا ہے اور بے جا طریقہ پر بھی، اس طور پر بھی کہ وہ جسم انسانی کے لئے مفید ہو اور اس طرز پر بھی کہ وہ انسان کے لئے نقصان دہ اور مضرت رساں ہو جائیں، انگور ایک عمدہ، مزے کے اعتبار سے لذیذ، دیکھنے کے اعتبار سے خوبصورت اور صحت کے اعتبار سے انتہائی مفید پھل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی سے نشہ آور شراب بھی تیار ہوتی ہےجو مختلف پہلوؤں سے انسان کی صحت کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ اس لئے اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بات بھی ضروری تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں، اور غلط استعمال سے بچنے کی ہدایت سے نوازیں ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ رحمت اور بے حد وحساب فضل وکرم کرتے اور اپنے بندوں پر رحم کھاتے ہوئے پیغامبر بھیجے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو بندوں تک پہنچایا اور اپنے عمل کے ذریعہ بندگانِ خدا کے لئے واضح فرمادیا۔
چوں کہ یہ انسانیت کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس سے آخرت کی نجات ہی متعلق نہیں ہے؛ بلکہ دنیا کی کامیابی بھی اس سے مربوط ہے؛ اس لئے اول دن سے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا نظام قائم فرمایا، سیدنا حضرت آدم ؑ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ انسانی تمدن جوں جوں آگے بڑھتا گیا، الله تعالیٰ کے احکام آتے گئے، اور انسان جب جب راہ حق سے ہٹا، اور تعلیمات الٰہی کو فراموش کر دیا، اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے نبیوں کو بھیجتے رہے۔ جب انسانی معاشرہ اپنے فہم اور تمدن کے اعتبار سے کمال کو پہنچ گیا تو پیغمبر اسلام جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاج نبوت پہنا کر دنیا کی طرف بھیجا گیا۔ عقل وتمدن کے شباب کے اس دور میں اللہ کی طرف سے آپؐ کے ذریعے ایک ایسی شریعت بھیجی گئی جو قیامت تک انسانیت کے لئے کافی ہوگی؛ اسی لئے آپؐ کے بعد کسی اور نبی کی اور آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی، اور نبوت کا سلسلہ آپؐ پر تمام ہوگیا۔
اب خالق کائنات سے محبت اور اس کے احسانات کا لازمی تقاضہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو نمائند ے بھیجے گئے، ہر انسان ان کا احترام کرے۔ یوں تو یہ ہر انسان کا فریضہ ہے لیکن جب کوئی شخص ایمان لے آئے تو اس پر احترام کے ساتھ ساتھ محبت بھی ضروری ہے، ایسی محبت جو اس کے وجود سے بھی بڑھ کر ہو؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کے لئے نبیؐ کی ذات اس کے وجود سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب ہے (احزاب: ۶) بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی ہی اللہ تعالیٰ کی محبت وپیروی سے عبارت ہے۔ (آل عمران: ۳۱) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ جب تک میں تم لوگوں کو اپنے ماں باپ اور اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، تم مسلمان نہیں ہو سکتے۔ (صحیح البخاری، عن ابی ہریرۃؓ، باب حب الرسول من الایمان) آپؐ کے اس ارشاد میں والد اور اولاد کا ذکر بطور مثال کے ہے؛ کیوں کہ انسان کو سب سے زیادہ اپنے والدین اور اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں ؛ لیکن مقصود یہ ہے کہ حضورؐکی محبت پوری انسانیت سے بڑھ کر ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر آپؐ سے عرض کیا کہ آپؐ مجھے اپنی ذات کے سوا ہر چیز اورہر شخص سے زیادہ عزیز ہیں۔ حضورؐ نے اس کو ایمان کے لئے ناکافی قرار دیا، اور فرمایا:جب تک تمہارے دل میں میری محبت تمہاری اپنی ذات سے بھی زیادہ نہ ہو، تم مومن نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کا سینہ کھول دیا اور انہوں نے عرض کیا: اب آپؐ مجھ کو اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور)
محبت کوئی لفظی اور رسمی چیز نہیں ہے؛ یہ گہرے احساس اور جذباتی تعلق کا نام ہے، جس کو انسان محسوس کر سکتا ہے، کماحقہ بیان نہیں کرسکتا، جس کی لذت اعلیٰ سے اعلیٰ غذا سے بڑھ کر ہے؛ اسی لئے آپ ؐ نے ارشادفرمایا کہ جس میں تین باتیں ہوں گی، وہ ایمان کی حلاوت کو محسوس کرے گا، اس میں سب سے پہلے آپ ؐنے جس چیز کا ذکر فرمایا، وہ یہ ہے کہ اللہ ورسولؐ کی محبت اس کے ما سوا سے بڑھی ہوئی ہو (صحیح بخاری، عن انس، باب حلاوۃ الایمان) سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا گیا کہ حضور ؐسے آپ حضرات کی محبت کس درجہ کی تھی؟ آپؓ نے فرمایا: ہمارا مال، ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہمیں آپؐ کی ذات محبوب تھی (الشفا بہ تعریف حقوق المصطفیٰ) یہ ٹھنڈے پانی کی تشبیہ بہت اہم ہے؛ کیوں کہ جب زمین تپ رہی ہو، سورج آگ برسا رہا ہو اور پیاس سے حلق خشک ہو رہا ہو تو ٹھنڈے پانی سے صرف پیاس ہی دور نہیں ہوتی؛ بلکہ ایسے شخص کو بے حد لذت ملتی ہے، پس آپؐ کی محبت عام چاہتوں کی طرح ایک چاہت نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایک خاص قسم کی لذت ہے۔
اور یہ کوئی خوش گمانی کی بات نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت ہے کہ اس دورِ انحطاط میں بھی ہر صاحب ایمان اس کومحسوس کرتا ہے، اس کو حضورؐ کا نام لینے میں، آپؐ کا مبارک ذکر سننے میں، آپؐ کے روضۂ مبارک تک پہنچنے میں اور آپؐ کی اتباع و پیروی میں ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز سے ایسی لذت حاصل نہیں ہو سکتی۔
محبت کی جس کیفیت کا احادیث میں ذکر آیا ہے، یہ کوئی فرضی بات اور مبالغہ نہیں ہے، آپؐ کے رفقاء عالی مقام کی زندگی میں ہمیں اس کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ یہ آپؐ کے رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں۔ اہل مکہ کے انکار اور ایذا رسانیوں کے پس منظر میں حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہوئے آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، اور سفر کی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا، پہلی منزل غار ثور کی تھی۔ حضرت ابو بکر ؓ ساتھ چلتے ہوئے کبھی آپ سے آگے بڑھ جاتے اور کبھی آپ سے پیچھے ہو جاتے، حضورؐنے ان کے اس طرح کبھی آگے چلنے اور کبھی پیچھے آجانے کا سبب دریافت کیا، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ جب مجھے پیچھے کی طرف سے کسی کے حملہ آور ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو میں آپؐ کے پیچھے ہو جاتا ہوں، اور آگے سے کسی چھپے ہوئے شخص کے وار کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو آپؐ سے آگے ہو جاتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میرے بدلے تمہاری جان چلی جائے؟ ابو بکرؓ نے کہا: بے شک، پھر جب غار تک پہنچے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا : آپؐ ابھی باہر ہی رہیں، یہاں تک کہ ہم غار کو صاف کر دیں، یعنی یہ اندیشہ تھا کہ اگر غار میں موذی جانور ہوں تو آپؐ کو ان سے تکلیف نہ پہنچے۔ (دلائل النبوۃ)
محبت کا یہ نشہ صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہی میں نہیں تھا بلکہ ایک ایک مرد اور خاتون صحابی اس نشۂ محبت سے سرشار تھے۔ غزوہ احد کے موقع سے بنو دینار کی ایک خاتون کے شوہر، بھائی اور باپ تینوں شہید ہوگئے، جب جب اُن کو اِن میں سے کسی کی موت کی اطلاع دی گئی، انہوں نے انا للہ پڑھی اور فوراً دریافت کیا: رسولؐ اللہ کا کیا حال ہے؟ جواب ملا: وہ بحمدللہ عافیت کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: تو مجھے آپؐ کی ایک جھلک دکھا دیں۔ آپؐ کو دیکھتے ہی کہنے لگیں، آپؐ کے رہتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ (سیرت ابن ہشام)
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج بھی مسلمانوں کے سینے اسی طرح رسولؐ اللہ کی محبت سے معمور ہیں، ان کیلئے ہر مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہے؛ لیکن آپؐ کی شان اقدس میں ادنیٰ گستاخی بھی ناقابل برداشت ہے، اگر اس راہ میں ان کی جان بھی چلی گئی تو وہ اس کو ہنسی خوشی گوارا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ محبت کرنا ہر ایک کا حق ہے؛ مگر افسوس کہ اس وقت حضور ؐ سے محبت کے نعرے پر مسلمانوں کو ظلم وجور کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کے دستور اور یہاں کی تہذیبی روایات کے خلاف ہے؛ البتہ مسلمانوں کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اظہار محبت کا اصل طریقہ عمل ہے نہ کہ پوسٹر اور بینر۔ قرآن مجید نے ہمیں رسولؐ اللہ کی اتباع کی تعلیم دی ہے، صحابہ ؓنے جہاں ضرورت پڑی آپؐ کے لائے ہوئے دین کے لئے قربانیاں دی ہیں، یہ اظہار محبت کا صحیح طریقہ ہے اور ہمیں بنیادی طور پر یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔