شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) مسلمانوں کو اس کا پابند کیا گیا ہے کہ حلال رزق کے حصول کی جد وجہد کریں (۲)نماز کے مسائل (۳)ترکہ کی تقسیم۔
EPAPER
Updated: August 02, 2025, 3:29 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) مسلمانوں کو اس کا پابند کیا گیا ہے کہ حلال رزق کے حصول کی جد وجہد کریں (۲)نماز کے مسائل (۳)ترکہ کی تقسیم۔
مفتی صاحب میں تجارت کرنا چاہتا ہوں صرف اس لئے کہ وہ سنت ہے، مجھے تجارت کی تمام سنتیں بتائیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی تجارت کی تھی؟
عبد الرافع، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اسلام میں کسب حلال کی بڑی اہمیت ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند کیا گیا ہے کہ حلال رزق کے حصول کی جد وجہد کریں چاہے ملازمت ہو یا صنعت و حرفت یا زراعت و تجارت۔۔ اسلام نے کسب حلال کے جو طریقے بتائے اور جو شرائط مقرر کی ہیں ان کی پابندی بنیادی ضرورت ہے۔
تجارت کے بیان میں سچائی اور امانتداری پر خاص زور دیاگیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے سچے اور امانتدار تاجر کو قیامت میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت حاصل ہوگی۔ تجارت میں یہ بھی ضروری ہے کہ دھوکہ اور فریب سے پاک ہو۔ آپؐ اس کی تاکیدبھی اور نگرانی بھی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے بازار میں گیہوں کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ اوپر تو سوکھا مگر اندر سے گیلا ہے۔ آپؐ نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں سچا ئی اور امانت و دیانت کو اختیار کیا جائے، جھوٹ اور فریب سے بچتے ہوئے تجارت کی جائے، مال میں کوئی نقص یا عیب ہو تو اسے چھپانے کے بجائے خریدار کو بتادیا جائے، مال کی کوالٹی واضح کرنے کے بعد سودا کیا جائے، نقلی مال کو اصلی کہہ کر نہ بیچاجائے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے گراں فروشی نہ کی جائے۔
یہ وہ امور ہیں جو تجارت میں مطلوب ہیں۔۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تجارت میں تجربہ اور معلومات کا ہونا بھی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔ پہلے آپ تجربہ حاصل کریں اور جو تجارت کریں اسلامی حدود کی رعایت کے ساتھ کریں، ساتھ ہی نیت بھی درست ہو، رزق حلال مطلوب ہو اور صرف حصول زر مقصد نہ ہو۔
علماء نے لکھاہے کہ اگر کوئی اس نیت سے کاروبار کرے کہ حلال روزی حاصل ہو اور جن کی کفالت اس کے ذمے میں ہے، حلال رزق سے ان کی کفالت کرے اور مزید وسعت میسر ہو تو ضرورتمندوں پر نیز دینی ضروریات میں خرچ کرسکے، اس نیت سے کی جانے والی یہ تجارت بھی عبادت میں شمار ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نماز کے مسائل
مغرب کی نماز پڑھاتے وقت امام صاحب نے سورۃ العادیات کی دوسری آیت چھوڑ دی، کسی نے لقمہ بھی نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے نماز مکمل کر دی تو اس صورت میں نماز ہوئی یا نہیں ؟ (۱) کیا ان کو اعادہ کرنا چاہئے تھا یا صرف سجدہ سہو سے نماز ادا ہو جاتی (۲)اگر نماز کا اعادہ ضروری تھا تو جو مسبوق ہیں وہ بھی دوسری نماز میں شریک ہو سکتے ہیں یا وہ اپنی نماز مکمل کر لیں کیونکہ وہ پہلی رکعت میں شریک نہیں تھے (۳) ضم سورۃ واجب ہے یا فرض(۴) نماز کا اعادہ کرنے کی صورت میں فاسد نماز میں جو قرأت کی گئی تھی وہی دہرانا ضروری ہے یا نئی سورۃ پڑھ سکتے ہیں کیوں کہ دیکھا گیا ہے یہ تراویح میں رکعت فاسد ہونے کی صورت میں حفاظ نماز کا اعادہ کرنے کے ساتھ فاسد رکعت کی قرأت کا بھی اعادہ کرتے ہیں ؟
عبد الرحیم، نیو دہلی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: دوران قرأت سورہ عادیات کی دوسری آیت چھوٹ گئی تو اس سے معنی میں فساد پیدا نہیں ہوتا اس لئے نماز ہوگئی۔ (۱) نہ سجدہ سہو کی ضرورت تھی نہ ہی اب اعادہ کی کوئی ضرورت ہے۔ (۲) اعادہ نماز کے فساد کی بنا پر ہو رہا ہو یا جبر نقصان یعنی کمی کو پورا کرنے کی غرض سے ہو مسبوق دونوں صورتوں میں شریک ہوگا البتہ نیا آنے والا (جو پہلی جماعت میں شریک نہیں تھا ) پہلی صورت میں شریک ہو سکتاہے (جب اعادہ فساد کی بناءپر ہورہا ہو) دوسری صورت میں نہیں۔۔ (۳) ضم سورہ نماز کے واجبات میں سے ہے رکن یا شرط نہیں ہے۔ (۴) عام یعنی پنجوقتہ اور جمعہ وعیدین میں اعادہ کی صورت میں جو قرأت کی گئی تھی اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، دوسری کوئی سورہ بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ تراویح میں قرأت کے اعادہ کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ادھورا نہ رہ جائے ۔۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
ترکہ کی تقسیم
زید کا انتقال ہوا، وارثین میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، بیوی کا پہلے انتقال ہو چکا تھا اب مذکورہ وارثین کے درمیان ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی ؟
نعیم احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اولاد (لڑکے لڑکیاں اور پوتے پوتیاں ) ان وارثوں میں سے ہیں جو عصبہ کہلاتے ہیں اور یہی سب سے قریبی عصبہ جو بلا کسی مانع کے شرعاً ترکہ سے محروم نہیں ہوتے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں تو لڑکے کو دہرا اور لڑکی کو اکہرا حصہ ملتا ہے۔ قرآن کریم میں اولاد کا ذکر کرتے ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اولاد نرینہ کا حصہ دو اناث کے برابر ہوتاہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں حقوق مقدمہ تجہیز وتکفین کے ضروری مصرف، قرض اور جائز وصیت کے بعد ترکہ کے نو سہام (حصے)بناکر ہر لڑکی کو ایک اور ہر لڑکے کو دو حصے ملیں گے۔ فیصد کے حساب سے ہر لڑکی کو ۱۱۔ ۱۱؍ فیصد اور ہرلڑکے کو ۲۲۔ ۲۲؍ فیصد دیا جائے گا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم