شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) آبائی شہر میں قصر یا اتمام (۲) بے ہوش شخص اور نماز (۳) شادی کے اخراجات میں تعاون۔
EPAPER
Updated: March 07, 2025, 1:39 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) آبائی شہر میں قصر یا اتمام (۲) بے ہوش شخص اور نماز (۳) شادی کے اخراجات میں تعاون۔
آبائی شہر میں قصر یا اتمام
ایک شخص کی پیدائش جنوبی ممبئی کی ہے اور والدین کا ابھی بھی وہیں قیام ہے۔ وہ کئی برسوں سے بصورت ملازمت ممبئی سے باہر رہائش پزیر ہے اور اب ممبئی میں سکونت کا خاص ارادہ نہیں ہے۔ اس کی ذاتی پراپرٹی جنوبی ممبئی میں بھی ہے مگر وہ رہائشی نہیں ہے اور ممبئی کے مضافاتی علاقے میرا روڈ میں بھی ایک پراپرٹی ہے جو رہائشی ہے۔ اس کی نیت ان دونوں جگہ مسکن بنانے کی نہیں ہے۔ جب ممبئی آئے گا تو شہر میں قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟ اور میرا روڈ میں جہاں رہائشی مکان ہے وہاں جب کچھ دنوں کے لئے رکے گا تو قصر کرے گا یا پوری پڑھے گا؟ قیام کے دوران لازماً دوسرے شہروں میں تیسرے چوتھے دن جانا ہوگا، تو ایسے شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ فراز احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ کے مطابق شخص مذکور ممبئی سے باہر بغرض ملازمت قیام پزیر ہے۔ سوال کے مطابق اس کا ارادہ نہ ممبئی کو مسکن بنانے کاہے جہاں والدین کی مستقل رہائش ہے نہ ہی میرا روڈ میں رہنے کا ارادہ ہے جہاں اس کا ذاتی مکان ہے۔
اصول یہ ہے کہ آدمی جس مقام کو مستقل وطن بنالے وہاں اسے پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے، بھلے ایک دو دن رکے۔ شرعاً اصلی وطن ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا اگر اس نے ممبئی یا میرا روڈ کی وطنیت کو ختم نہیں کیا ہے تو یہ بھی اس کے لئے وطن اصلی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں اسے یہاں بھی پوری نماز پڑھنی ہوگی لیکن جہاں ہے اسی کو وطن بنالیا ہے، ممبئی اور میرا روڈ میں کبھی بھی مستقل رہائش کا ارادہ نہیں ہے تو اس صورت میں یہ جب بھی ممبئی یا میرا روڈ آکر قیام کریگا اگر پندرہ دن سے کم کے قیام کی نیت ہو تو اس کیلئے قصر کا حکم ہوگا، پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کی نیت ہو تو البتہ پوری نماز پڑھےگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
بے ہوش شخص اور نماز
اگر کوئی شخص نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے بے ہوش ہو جائے اور پوری نماز کے وقت بے ہوش رہے، دوسری نماز کے وقت میں ہوش میں آئے تو کیا اس پر وہ نماز فرض ہوگی؟ یا اگر بیچ بیچ میں افاقہ ہوتا ہو مگر اس قدر نہ ہو کہ آدمی کچھ ہوش مندی کا کام کر سکے تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ فہیم احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کسی کو نماز کے وقت بے ہوشی طاری ہوگئی یاجنون اور پاگل پن لاحق ہوگیا تو اگر وقت باقی رہتے ہوئے عذر جاتا رہا تو جیسے ہی عذر جاتا رہے نماز ادا کرلے اور عذر پورے وقت موجود رہا اور اس صورت میں ایک دو نمازیں چھوٹی ہوں تو بعد میں قضا کرلے حتیٰ کہ پانچ نمازوں کے فوت ہونے کی صورت میں بھی یہی حکم ہوگا لیکن اگر مسلسل چھ نمازوں کا وقت اسی بیہوشی یا جنون کی حالت میں گزرگیا تو اس صورت میں ان نمازوں کی قضا اس کے ذمے نہ ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
شادی کے اخراجات میں تعاون
اگر کوئی شخص اپنی حیثیت سے زیادہ شادی میں غیر پسندیدہ چیزوں میں خرچ کرنا چاہتا ہے مثلاً لڑکی کا کھانا، مہندی اور دوسری رسمیں اور جہیز وغیرہ میں اور اس کے لئے اپنے دوستوں وغیرہ سے مدد طلب کرتا ہے تو کیا ایسے شخص کو مشکوک رقم سے یا ناجائز رقم سے مدد کی جا سکتی ہے؟ مثلا ًشیئرز کی آمدنی سے جو احتیاطاً رقم نکالی جاتی ہے اس رقم کو اس شخص کو دینا جائز ہوگا؟ عبداللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:شادی بیاہ کی فضول رسمیں ملت اسلامیہ کا بہت بڑا المیہ ہیں جن کی وجہ سے بہت غریب لوگ سودی قرض لینے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں اور دوسروں سے تعاون حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، جائیداد اور مکان تک فروخت کرنے یا گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ کسی طرح لڑکے والوں کے مطالبات پورے نہ کرسکیں ان کی لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی رہتی ہیں۔ اس طرح کے سوالات میں یہ تفصیل بہر صورت مدنظر رکھنی چاہئے۔
جن کو اللہ پاک نے مال ودولت سے نواز رکھا ہے سب سے پہلی ذمے داری تو ان کی ہے کہ اپنے بچے بچیوں کی شادی اسلامی احکام کے مطابق سادگی سے کریں اور جہیز وغیرہ کے بجائے وراثت میں لڑکیوں کے حصے کو یقینی بنائیں کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ شادی بیاہ کے اخراجات کو وراثت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو کم حیثیت یا غریب ہیں اگر انہیں ایسے گھرانوں کے رشتے ملیں جو سادگی سے شادی کر سکیں اور بعد میں بچیوں کے لئے طعن وتشنیع کا اندیشہ نہ ہو تو انہیں بھی چاہئے کہ سادگی کو اپنائیں۔ آخری درجہ یہ ہے کہ وہ جہیز وغیرہ دینے پر مجبور ہوں جس کی وجہ سے ان کو دست تعاون دراز کرنا پڑرہا ہو تو موجودہ حالات کے پیش نظر ان کا تعاون باعث اجر ہوگا اور اگر حددرجہ غریب ہیں تو مذکورہ رقم بھی انہیں دی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتمn