قرآن مجید میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ صرف خبر کے طور پر نہیں ہیں یا قصہ کہانی نہیں ہیں بلکہ ان کا زندگی سے گہرا اور ایسا تعلق ہے جو کسی ایک وقت کیلئے محدود نہیں بلکہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اس وقت تک وہ چیز انسان کیلئے ایک نمونہ بنی رہے گی۔
عمان ، اردن کے مشرق میں واقع ایک گاؤں الرجیب میں واقع کہف رقیم کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں’’اصحاب کہف‘‘ کے نام سے جو تذکرہ ہوا ہے وہ یہی غار ہے۔ تصویر: آئی این این
احادیث میں سورہ کہف کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، جمعہ کے دن اس سورہ کی تلاوت کا اہتمام کرنے کی بالخصوص ہدایت ہے، ارشاد نبوی ؐ ہے:
’’جس نے جمعہ کی رات سورہ کہف پڑھی تو اس کے اور بیت اللہ کے درمیان میں ایک روشنی ہو جاتی ہے۔ ‘’ (سنن الدارمی، فضائل القرآن باب في فضل سورة الكهف)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ سورہ کہف دجال کے فتنہ سے حفاظت کا ذریعہ ہے:
’’ جس نے سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کر لیں تو اسے دجال کے فتنہ سے محفوظ کر لیا گیا۔ ‘‘( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل سورة الكهف)
کہف اور غار کا فرق
پہاڑ میں رہنے کے لئے ایسی جگہ منتخب کرنا جو استعمال میں لائی جا سکے یا کمرہ وغیرہ بنانے کو کہف کہتے ہیں، تاہم پہاڑ میں خود بخود کٹ کر کوئی ایسی جگہ بن جائے جس سے آدمی سایہ حاصل کر سکے اور بارش یا دھوپ سے بچ سکے یا اس میں جا کر چھپ سکے تو اس کو غار کہتے ہیں، ایسے غار کا راستہ ٹیڑھا میڑھا ہوگا، سیدھا نہیں ہوگا، کیونکہ پہاڑ فطری طور پر اونچا نیچا ہوتا ہے اور اس میں کھوہ ہوتی ہے، غار ثور یا غار حرا اسی قبیل کے غار ہیں۔
قرآنی واقعات کا مقصد
قرآن مجید میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ صرف خبر کے طور پر نہیں ہیں یا قصہ کہانی کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ ان کا زندگی سے گہرا تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے جو کسی ایک وقت کے لئے محدود نہیں ہے، بلکہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اس وقت تک وہ چیز انسان کے لئے ایک نمونہ بنی رہے گی، یعنی زندگی میں ایسے حالات پیش آسکتے ہیں جن میں اس واقعہ سے مدد ملے، اس لئے کہ وہ واقعہ انسان ہی سے تعلق رکھتا ہے اور انسان کو مختلف حالات اور مختلف زمانوں سے گزرنا پڑتا ہے، لہٰذا اس کی واقفیت کے لئے اور اس کو اپنے معاملہ میں صحیح رائے قائم کرنے کے لئے ایسے قرآنی واقعات سے مدد ملتی ہے۔
سورہ کہف میں واقعات کی حکمت
اصحاب کہف کا واقعہ اہل کتاب کے یہاں بہت مشہور تھا، لیکن ایک خاص انداز سے ان کے درمیان معروف تھا، یہود نے حضور ﷺ کا امتحان لینے کی غرض سے مشرکین کو اکسایا کہ وہ حضور ؐسے واقعہ کہف کے متعلق پوچھیں، یہود کا ماننا تھا کہ حضور ﷺ پڑھے ہوئے نہیں ہیں، لہٰذا اس واقعہ سے بالکل نا واقف ہوں گے اور جب لوگ سوال کریں گے تو آپ یہ جواب نہیں دے سکیں گے، بس وہیں نعوذ باللہ ان کی قلعی کھل جائے گی، مگر اللہ نے اس سورہ میں واقعہ کی پوری تفصیل بیان فرما دی اور حضور ؐ نے لوگوں کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ اصحاب کہف کا واقعہ مادیت اور روحانیت دونوں کو واضح کرنے والا واقعہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے لئے قربانی دینے والی ایک جماعت کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے دین کے لئے کس طرح قربانی دی، یہ جماعت اپنے وطن کو چھوڑ کر ایک غار میں چھپ گئی تھی، گویا ان لوگوں نے خود کو دنیا سے منقطع کر کے الگ راستہ اختیار کیا تھا، تا کہ ان کا ایمان محفوظ رہے۔
اللہ کا تدبیری نظام
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کئی واقعات بیان کئے ہیں، اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا واقعہ بیان کیا، ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا اور اسی طرح دو باغ والوں کا بھی تذکرہ کیا، ان واقعات کو بیان کرنے کا عمومی مقصد یہ ہے کہ انسان اسباب اور مسبب کی حقیقت کو پہچان سکے، ذرائع اور حقائق میں تفریق کر سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں تدبیری نظام چلایا ہے، جس طرح ڈھال پر پانی نیچے کو بہے گا نہ کہ اوپر کی طرف، اسی طرح دنیا کا نظام ایک تدبیر کے مطابق چل رہا ہے، بعض مرتبہ اس نظام کو دیکھ کر آدمی کو یہ دھو کہ ہوتا ہے کہ اصل یہی تدبیر اور ذرائع سب کچھ ہیں، اس کے آگے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یہی فرق واضح کیا ہے اور بعض ایسے واقعات بیان کئے ہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تدبیری نظام میں بھی بندوں کی عبرت و موعظت کے لئے وقتی طور پر تبدیلی کر دیتا ہے اور یہ تبدیلی بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی دینی وجہ ہوتی ہے، تا کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ دینی وجہ سے دنیاوی نظام میں تبدیلی کر دیتا ہے۔
دو باغ والوں کے قصہ میں ایک ساتھی بخل سے کام لیتا تھا اور غریبوں کی مدد نہیں کرنا چاہتا تھا، تو اللہ نے اس کو سزا دی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دیتا ہے۔ عذاب کے معنی سزا اور تکلیف کے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا میں بعض وقت تکلیفیں اس لئے دیتا ہے کہ تنبیہ ہو جائے اور آدمی ہوشیار ہو کر صحیح راستہ اختیار کرلے، اسی لئے اللہ تعالی غلط راستہ اختیار کرنے والے کو تدبیری نظام کے ذریعہ روکتا ہے، مثلاً بعض وقت انسان حوادث یا امراض کا شکار ہوتا ہے، جس کے ذریعہ اصلاً ٹوکنا مقصود ہوتا ہے کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے راستہ سے نہ بہکو۔ باغ والے شخص کو جوسز املی در اصل اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو جائے اور اللہ سے رجوع کرے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے متعدد واقعات بیان کئے ہیں، جو دنیا کے عام معمول کے خلاف ہیں اور انسان کے بس سے باہر ہیں، جن کے متعلق انسان خود یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کے بس میں نہیں ہے تو پھر خدا ہی کے بس میں ہوگا، اس لئے اللہ تعالیٰ بعض مرتبہ ایسی چیزیں نازل فرماتا ہے اور پھر اِن پر بندوں سے عمل بھی کرواتا ہے، تا کہ انسانوں کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ ہر چیز اللہ کے اختیار اور اس کے ہاتھ میں ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے۔
انسانی زندگی پر محیط واقعات
سورہ کہف میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں، اگر ان کا اصل مفہوم اور فائدہ سامنے رکھا جائے تو یہ واقعات انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ دراصل یہ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں جو ایمان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن میں اس سورہ کے اندران مراحل کی مثالیں واقعات کے ذریعہ دی گئی ہیں، اسی لئے اس سورہ کا بنیادی موضوع مادیت اور ایمان کی تشریح ہے، ایمان کیا ہے اور مادیت کیا ہے؟ ان دونوں کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ ایک عام آدمی کو، یا دولت مند شخص کو یا حاکم انسان کو مادیت سے کس طرح نکلنا چاہیے اور پھر کس طرح ایمان کی زندگی گزارنی چاہئے۔
اصحاب کہف کے واقعہ کا زمانہ
اصحاب کہف کا واقعہ اس زمانہ کا ہے جب مشرکین کا دور دورہ تھا اور شرک کا رواج تھا۔ ایسے وقت میں چند نوجوان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر ایمان لے آئے تھے، مگر انہیں اس کی خاطر انتہائی اذیتوں سے گزرنا پڑ رہا تھا، چنانچہ انہوں نے وہاں سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی اور اس میں آکر سو گئے۔ جب وہ سو گئے تو اللہ کے حکم سے تین سونو (۳۰۹) سال تک سوتے ہی رہے اور تین سو نو سال کے بعد جب بیدار ہوئے تو ان کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔
انہیں اتنا خیال ضرور تھا کہ ہم بہت زیادہ دیر سوئے ہیں، اسی لئے انہوں نے آپس میں چرچا کرتے ہوئے کہا کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ تو کسی نے کہا: ہم تھوڑی ہی دیر سوئے۔ پھر انہوں نے کہا: بھوک لگی ہے تو کیا کیا جائے، چنانچہ ایک آدمی کو تیار کیا کہ دیکھو یہ پیسے لو اور بہت اخفاء کے ساتھ (کسی پر ظاہر ہوئے بغیر) بازار میں جاؤ، ایسی جگہ نہ جاتا جہاں تمہیں لوگ پہچان لیں ور نہ پکڑ لیں گے، اس لئے کہ ہم لوگ اپنے علاقہ سے بچ کر بھاگے ہیں اور اب یہ بات سب کو معلوم ہوگئی ہوگی کہ ہم بھاگ گئے ہیں، اگر ہمارا راز کھل گیا تو وہ لوگ آکر گرفتار کر لیں گے اور سزائیں دیں گے، لہٰذا چھپ کر ایسی دکان پر جاؤ جہاں تم کو پہچانا نہ جاسکے اور خاموشی سے کھانے پینے کا سامان لے آؤ۔ جب وہ شخص ایک اجنبی آدمی کی دکان پر گیا اور اس نے اپنا سکہ نکال کر دیا، تو وہ سکہ اس زمانہ کے اعتبار سے قدیم تھا اور بولی میں بھی تھوڑا بہت فرق نظر آ رہا تھا۔
مگر بات پھیل گئی
اس لئے فوراً بات پھیل گئی اور بستی کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہم اپنے باپ دادا سے سنتے آئے ہیں کہ چند نوجوان ایسے تھے جو اپنادین بچانے کیلئے غائب ہو گئے تھے اور کہیں دور چلے گئے تھے، بلاشبہ یہ وہی نوجوان معلوم ہوتے ہیں، بس وہاں ایک ہنگامہ ہو گیا اور پورے ایک جلوس نے ان کو گھیر لیا، اس وقت وہاں حکومت تبدیل ہو چکی تھی اور لوگ شرک سے تو بہ کر کے دین میں داخل ہو چکے تھے، اس لئے بھی سب نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور یہ طے ہوا کہ یہاں ان کی جگہ پر ایک عبادت خانہ بنا دیا جائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان کر کے دکھا دیا کہ اللہ نے دنیا میں تدبیر کا نظام بنایا ہے، مگر بعض مرتبہ دنیوی تدبیر کے بجائے وہ دینی تدبیر بھی لے آتا ہے اور تدبیر کے نظام کے علاوہ بھی کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو کفر کے زمانہ میں سلایا اور ایمان کے زمانہ میں جگایا، ۳۰۹؍ سال تک وہ لوگ سوتے رہے اور مرے نہیں، اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت مرنے والوں کو یقیناً دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ مرنے سے روک سکتا ہے تو مرنے والوں کو زندہ بھی کر سکتا ہے۔ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں اٹھے تھے، اس سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ دین حق تھا مگر بعد میں تم نے اس کو بدل دیا اور حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا رسول ماننے کے بجائے خدا کا بیٹا کہنے لگے۔
اتنا عرصہ اللہ نے اُنہیں محفوظ رکھا
اس سورہ میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، جنہوں نے اللہ کے دین اور اپنے عقیدہ کے لئے ہر چیز کو قربان کر دیا اور ہر طرح کے خطرہ کو قبول کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ دو باتیں کیں ؛ ایک تو یہ کہ انہیں محفوظ رکھا اور دوسرے یہ کہ اللہ نے چاہا کہ دنیا دیکھ لے کہ اگر کوئی اللہ کے لئے قربانی دیتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تین سو سال تک ایک طرح کی نیند میں رکھا، وہ دیکھنے میں سوتے معلوم نہ ہوتے تھے مگر سور ہے تھے، پھر انہیں تب اٹھایا جب وہاں اہل ایمان کا غلبہ ہو چکا تھا اور حالات بدل چکے تھے، تب ان کی بڑی قدر ہوئی لیکن اللہ نے نمونہ دکھا دیا اور اس کو قرآن مجید میں بیان کر کے دائمی بنا دیا، تا کہ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے سامنے یہ بات رہے کہ جو شخص اللہ کیلئے کچھ کرتا ہے تو اللہ اس کو اس کا صلہ بھی عطا فرماتا ہے، چاہے وہ معجزہ کے طور پر ہی صلہ عطا فرمائے۔ یہ معجزہ ہی کی بات تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اتنا بڑا فضل فرمایا، ان کو تین سو سال تک ان کی غذا نہیں پہنچی مگر پھر بھی ان کا جسم نہ سڑا اور نہ گلا، اللہ نے غیب سے ان کیلئے ایسی روحانی غذا کا انتظام کیا، جس سے ان کا جسم بھی محفوظ رہا اور وہ خود بھی محفوظ رہے، اس واقعہ سے بجا طور پر ہمیں یہ عبرت ملتی ہے کہ جو شخص اللہ کا ہو جاتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔
(آئندہ ہفتے پڑھئے: سورہ کہف کے اقعات کی تفصیل)