قرآن مجید میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ صرف خبر کے طور پر نہیں ہیں یا قصہ کہانی نہیں ہیں بلکہ ان کا زندگی سے گہرا اور ایسا تعلق ہے جو کسی ایک وقت کیلئے محدود نہیں بلکہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اس وقت تک وہ چیز انسان کیلئے ایک نمونہ بنی رہے گی۔
عمان ، اردن کے مشرق میں واقع ایک گاؤں الرجیب میں واقع کہف رقیم کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں’’اصحاب کہف‘‘ کے نام سے جو تذکرہ ہوا ہے وہ یہی غار ہے۔ تصویر: آئی این این
احادیث میں سورہ کہف کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، جمعہ کے دن اس سورہ کی تلاوت کا اہتمام کرنے کی بالخصوص ہدایت ہے، ارشاد نبوی ؐ ہے:
’’جس نے جمعہ کی رات سورہ کہف پڑھی تو اس کے اور بیت اللہ کے درمیان میں ایک روشنی ہو جاتی ہے۔ ‘’ (سنن الدارمی، فضائل القرآن باب في فضل سورة الكهف)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ سورہ کہف دجال کے فتنہ سے حفاظت کا ذریعہ ہے:
’’ جس نے سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کر لیں تو اسے دجال کے فتنہ سے محفوظ کر لیا گیا۔ ‘‘( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل سورة الكهف)
کہف اور غار کا فرق
پہاڑ میں رہنے کے لئے ایسی جگہ منتخب کرنا جو استعمال میں لائی جا سکے یا کمرہ وغیرہ بنانے کو کہف کہتے ہیں، تاہم پہاڑ میں خود بخود کٹ کر کوئی ایسی جگہ بن جائے جس سے آدمی سایہ حاصل کر سکے اور بارش یا دھوپ سے بچ سکے یا اس میں جا کر چھپ سکے تو اس کو غار کہتے ہیں، ایسے غار کا راستہ ٹیڑھا میڑھا ہوگا، سیدھا نہیں ہوگا، کیونکہ پہاڑ فطری طور پر اونچا نیچا ہوتا ہے اور اس میں کھوہ ہوتی ہے، غار ثور یا غار حرا اسی قبیل کے غار ہیں۔
قرآنی واقعات کا مقصد
قرآن مجید میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ صرف خبر کے طور پر نہیں ہیں یا قصہ کہانی کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ ان کا زندگی سے گہرا تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے جو کسی ایک وقت کے لئے محدود نہیں ہے، بلکہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اس وقت تک وہ چیز انسان کے لئے ایک نمونہ بنی رہے گی، یعنی زندگی میں ایسے حالات پیش آسکتے ہیں جن میں اس واقعہ سے مدد ملے، اس لئے کہ وہ واقعہ انسان ہی سے تعلق رکھتا ہے اور انسان کو مختلف حالات اور مختلف زمانوں سے گزرنا پڑتا ہے، لہٰذا اس کی واقفیت کے لئے اور اس کو اپنے معاملہ میں صحیح رائے قائم کرنے کے لئے ایسے قرآنی واقعات سے مدد ملتی ہے۔
سورہ کہف میں واقعات کی حکمت
اصحاب کہف کا واقعہ اہل کتاب کے یہاں بہت مشہور تھا، لیکن ایک خاص انداز سے ان کے درمیان معروف تھا، یہود نے حضور ﷺ کا امتحان لینے کی غرض سے مشرکین کو اکسایا کہ وہ حضور ؐسے واقعہ کہف کے متعلق پوچھیں، یہود کا ماننا تھا کہ حضور ﷺ پڑھے ہوئے نہیں ہیں، لہٰذا اس واقعہ سے بالکل نا واقف ہوں گے اور جب لوگ سوال کریں گے تو آپ یہ جواب نہیں دے سکیں گے، بس وہیں نعوذ باللہ ان کی قلعی کھل جائے گی، مگر اللہ نے اس سورہ میں واقعہ کی پوری تفصیل بیان فرما دی اور حضور ؐ نے لوگوں کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ اصحاب کہف کا واقعہ مادیت اور روحانیت دونوں کو واضح کرنے والا واقعہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے لئے قربانی دینے والی ایک جماعت کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے دین کے لئے کس طرح قربانی دی، یہ جماعت اپنے وطن کو چھوڑ کر ایک غار میں چھپ گئی تھی، گویا ان لوگوں نے خود کو دنیا سے منقطع کر کے الگ راستہ اختیار کیا تھا، تا کہ ان کا ایمان محفوظ رہے۔
اللہ کا تدبیری نظام
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کئی واقعات بیان کئے ہیں، اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا واقعہ بیان کیا، ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا اور اسی طرح دو باغ والوں کا بھی تذکرہ کیا، ان واقعات کو بیان کرنے کا عمومی مقصد یہ ہے کہ انسان اسباب اور مسبب کی حقیقت کو پہچان سکے، ذرائع اور حقائق میں تفریق کر سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں تدبیری نظام چلایا ہے، جس طرح ڈھال پر پانی نیچے کو بہے گا نہ کہ اوپر کی طرف، اسی طرح دنیا کا نظام ایک تدبیر کے مطابق چل رہا ہے، بعض مرتبہ اس نظام کو دیکھ کر آدمی کو یہ دھو کہ ہوتا ہے کہ اصل یہی تدبیر اور ذرائع سب کچھ ہیں، اس کے آگے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یہی فرق واضح کیا ہے اور بعض ایسے واقعات بیان کئے ہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تدبیری نظام میں بھی بندوں کی عبرت و موعظت کے لئے وقتی طور پر تبدیلی کر دیتا ہے اور یہ تبدیلی بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی دینی وجہ ہوتی ہے، تا کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ دینی وجہ سے دنیاوی نظام میں تبدیلی کر دیتا ہے۔
دو باغ والوں کے قصہ میں ایک ساتھی بخل سے کام لیتا تھا اور غریبوں کی مدد نہیں کرنا چاہتا تھا، تو اللہ نے اس کو سزا دی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دیتا ہے۔ عذاب کے معنی سزا اور تکلیف کے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا میں بعض وقت تکلیفیں اس لئے دیتا ہے کہ تنبیہ ہو جائے اور آدمی ہوشیار ہو کر صحیح راستہ اختیار کرلے، اسی لئے اللہ تعالی غلط راستہ اختیار کرنے والے کو تدبیری نظام کے ذریعہ روکتا ہے، مثلاً بعض وقت انسان حوادث یا امراض کا شکار ہوتا ہے، جس کے ذریعہ اصلاً ٹوکنا مقصود ہوتا ہے کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے راستہ سے نہ بہکو۔ باغ والے شخص کو جوسز املی در اصل اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو جائے اور اللہ سے رجوع کرے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے متعدد واقعات بیان کئے ہیں، جو دنیا کے عام معمول کے خلاف ہیں اور انسان کے بس سے باہر ہیں، جن کے متعلق انسان خود یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب انسان کے بس میں نہیں ہے تو پھر خدا ہی کے بس میں ہوگا، اس لئے اللہ تعالیٰ بعض مرتبہ ایسی چیزیں نازل فرماتا ہے اور پھر اِن پر بندوں سے عمل بھی کرواتا ہے، تا کہ انسانوں کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ ہر چیز اللہ کے اختیار اور اس کے ہاتھ میں ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے۔
انسانی زندگی پر محیط واقعات
سورہ کہف میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں، اگر ان کا اصل مفہوم اور فائدہ سامنے رکھا جائے تو یہ واقعات انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ دراصل یہ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں جو ایمان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن میں اس سورہ کے اندران مراحل کی مثالیں واقعات کے ذریعہ دی گئی ہیں، اسی لئے اس سورہ کا بنیادی موضوع مادیت اور ایمان کی تشریح ہے، ایمان کیا ہے اور مادیت کیا ہے؟ ان دونوں کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ ایک عام آدمی کو، یا دولت مند شخص کو یا حاکم انسان کو مادیت سے کس طرح نکلنا چاہیے اور پھر کس طرح ایمان کی زندگی گزارنی چاہئے۔
اصحاب کہف کے واقعہ کا زمانہ
اصحاب کہف کا واقعہ اس زمانہ کا ہے جب مشرکین کا دور دورہ تھا اور شرک کا رواج تھا۔ ایسے وقت میں چند نوجوان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر ایمان لے آئے تھے، مگر انہیں اس کی خاطر انتہائی اذیتوں سے گزرنا پڑ رہا تھا، چنانچہ انہوں نے وہاں سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی اور اس میں آکر سو گئے۔ جب وہ سو گئے تو اللہ کے حکم سے تین سونو (۳۰۹) سال تک سوتے ہی رہے اور تین سو نو سال کے بعد جب بیدار ہوئے تو ان کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔
انہیں اتنا خیال ضرور تھا کہ ہم بہت زیادہ دیر سوئے ہیں، اسی لئے انہوں نے آپس میں چرچا کرتے ہوئے کہا کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ تو کسی نے کہا: ہم تھوڑی ہی دیر سوئے۔ پھر انہوں نے کہا: بھوک لگی ہے تو کیا کیا جائے، چنانچہ ایک آدمی کو تیار کیا کہ دیکھو یہ پیسے لو اور بہت اخفاء کے ساتھ (کسی پر ظاہر ہوئے بغیر) بازار میں جاؤ، ایسی جگہ نہ جاتا جہاں تمہیں لوگ پہچان لیں ور نہ پکڑ لیں گے، اس لئے کہ ہم لوگ اپنے علاقہ سے بچ کر بھاگے ہیں اور اب یہ بات سب کو معلوم ہوگئی ہوگی کہ ہم بھاگ گئے ہیں، اگر ہمارا راز کھل گیا تو وہ لوگ آکر گرفتار کر لیں گے اور سزائیں دیں گے، لہٰذا چھپ کر ایسی دکان پر جاؤ جہاں تم کو پہچانا نہ جاسکے اور خاموشی سے کھانے پینے کا سامان لے آؤ۔ جب وہ شخص ایک اجنبی آدمی کی دکان پر گیا اور اس نے اپنا سکہ نکال کر دیا، تو وہ سکہ اس زمانہ کے اعتبار سے قدیم تھا اور بولی میں بھی تھوڑا بہت فرق نظر آ رہا تھا۔
مگر بات پھیل گئی
اس لئے فوراً بات پھیل گئی اور بستی کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہم اپنے باپ دادا سے سنتے آئے ہیں کہ چند نوجوان ایسے تھے جو اپنادین بچانے کیلئے غائب ہو گئے تھے اور کہیں دور چلے گئے تھے، بلاشبہ یہ وہی نوجوان معلوم ہوتے ہیں، بس وہاں ایک ہنگامہ ہو گیا اور پورے ایک جلوس نے ان کو گھیر لیا، اس وقت وہاں حکومت تبدیل ہو چکی تھی اور لوگ شرک سے تو بہ کر کے دین میں داخل ہو چکے تھے، اس لئے بھی سب نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور یہ طے ہوا کہ یہاں ان کی جگہ پر ایک عبادت خانہ بنا دیا جائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان کر کے دکھا دیا کہ اللہ نے دنیا میں تدبیر کا نظام بنایا ہے، مگر بعض مرتبہ دنیوی تدبیر کے بجائے وہ دینی تدبیر بھی لے آتا ہے اور تدبیر کے نظام کے علاوہ بھی کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو کفر کے زمانہ میں سلایا اور ایمان کے زمانہ میں جگایا، ۳۰۹؍ سال تک وہ لوگ سوتے رہے اور مرے نہیں، اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت مرنے والوں کو یقیناً دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ مرنے سے روک سکتا ہے تو مرنے والوں کو زندہ بھی کر سکتا ہے۔ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں اٹھے تھے، اس سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ دین حق تھا مگر بعد میں تم نے اس کو بدل دیا اور حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا رسول ماننے کے بجائے خدا کا بیٹا کہنے لگے۔
اتنا عرصہ اللہ نے اُنہیں محفوظ رکھا
اس سورہ میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، جنہوں نے اللہ کے دین اور اپنے عقیدہ کے لئے ہر چیز کو قربان کر دیا اور ہر طرح کے خطرہ کو قبول کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ دو باتیں کیں ؛ ایک تو یہ کہ انہیں محفوظ رکھا اور دوسرے یہ کہ اللہ نے چاہا کہ دنیا دیکھ لے کہ اگر کوئی اللہ کے لئے قربانی دیتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تین سو سال تک ایک طرح کی نیند میں رکھا، وہ دیکھنے میں سوتے معلوم نہ ہوتے تھے مگر سور ہے تھے، پھر انہیں تب اٹھایا جب وہاں اہل ایمان کا غلبہ ہو چکا تھا اور حالات بدل چکے تھے، تب ان کی بڑی قدر ہوئی لیکن اللہ نے نمونہ دکھا دیا اور اس کو قرآن مجید میں بیان کر کے دائمی بنا دیا، تا کہ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے سامنے یہ بات رہے کہ جو شخص اللہ کیلئے کچھ کرتا ہے تو اللہ اس کو اس کا صلہ بھی عطا فرماتا ہے، چاہے وہ معجزہ کے طور پر ہی صلہ عطا فرمائے۔ یہ معجزہ ہی کی بات تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اتنا بڑا فضل فرمایا، ان کو تین سو سال تک ان کی غذا نہیں پہنچی مگر پھر بھی ان کا جسم نہ سڑا اور نہ گلا، اللہ نے غیب سے ان کیلئے ایسی روحانی غذا کا انتظام کیا، جس سے ان کا جسم بھی محفوظ رہا اور وہ خود بھی محفوظ رہے، اس واقعہ سے بجا طور پر ہمیں یہ عبرت ملتی ہے کہ جو شخص اللہ کا ہو جاتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔
واقعہ ٔاصحاب کہف سے درس عبرت
دشمنانِ اسلام نے اصحاب کہف پر زور دیا تھا کہ تمہیں ہمارا طرز زندگی اختیار کرنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں سخت سے سخت سزا دیں گے لیکن انہوں نے عزم و ہمت سے کام لیا اور صاف اعلان کردیا کہ ہم نہ تو کفر کا ساتھ دےسکتے ہیں نہ ہی مشرکین کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ تمام اسباب آرام و راحت چھوڑ کر غار میں چھپ گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نیک جذبہ اور قربانی کا انہیں غیرمعمولی صلہ عطا فرمایا اور ان کو ایک معجزہ بنا دیا۔ وہ تین سو سال تک غار میں سوتے رہے، پھر جب وہ بیدار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دکھا دیا کہ جب تم سوئے تھے اس وقت کفر کی مسموم ہوائیں چل رہی تھیں جن میں تمہارا دم گھٹ رہا تھا، لیکن جب تم بیدار ہوئے تو اب ایمان کی باد بہاری چل رہی ہے اور اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے۔
اصحاب کہف کے واقعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح پل بھر میں حالات بدلنے پر قادر ہے۔ ان کو اتنی لمبی مدت تک زندہ رکھنے کا یہی راز تھا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اللہ رب العزت کس طرح حالات بدلتا ہے اور قربانیوں کا صلہ کیسے عطا کرتا ہے۔
دو باغ والے
اللہ تعالیٰ نے اصحاف ِ کہف کے بعد دو باغ والوں کا قصہ بیان کیا جن میں سے ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور اس کا شکر ادا کرتا تھا۔ دوسرا شخص بھی مسلمانوں کے ماحول میں رہتا تھا اور مسلمانوں کی سوسائٹی کے مطابق ہی زندگی گزارتا تھا لیکن اس کے دل میں پختہ ایمان نہیں تھا اور نہ ہی اس کا ایمان واضح تھا۔ اسی لئے جب اس نے باغ لگایا تو خیال کیا کہ یہ محض اس کی محنتوں، کوششوں اور تدبیروں کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھی نے اسے سمجھایا کہ یہ تصور ایمان کے خلاف ہے، مگر اس نے کوئی بات تسلیم نہیں کی۔ چنانچہ اللہ نے اس کو دکھا دیا کہ اگر تم کامیابیوں کو صرف اپنی محنتوں کا نتیجہ سمجھتے ہو اور تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تدبیر کی بنیاد پر جو چاہو گے کرلوگے، تمہارے پاس باغات اور کھیت ہیں، جن میں ہر طرح کی پیداوار ہورہی ہے تو یہ سب چیزیں اللہ کے ارادہ اور اس کے فیصلہ سے باہر نہیں ہیں، اصلاً وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے اسی لئے اللہ نے جب چاہا تب لمحہ بھر میں لہلہاتی ہوئی کھیتی بنجر زمین بن گئی اور وہاں خاک اڑنے لگی۔
ماشاء اللہ کی تعلیم
قرآن مجید میں اسی واقعہ کے ضمن میں اہل ایمان کو ’’ماشاء اللہ‘‘ کہنے کی تعلیم بھی دی گئی جو دراصل اسی بات کا مظہر ہے کہ کارسازِ حقیقی اللہ ہے، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، مستقبل کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں بلکہ مستقبل میں جو کچھ بھی ہونا ہے وہ سب اللہ نے پہلے سےطے کردیا ہے، لہٰذا ہمیں اپنی ہر بات اللہ کی ذات سے منسوب کرنا چاہئے اور یوں کہنا چاہئے کہ اگر اللہ چاہے گا تو ایسا ہوگا، اور اللہ چاہے گا تو ہمیں فلاں کامیابی حاصل ہوگی ورنہ فی نفسہٖ ہم خود کچھ نہیں ہیں اور نہ ہماری کوئی حقیقت ہے۔ ایک مومن کی شان یہی ہونی چاہئے کہ اس کی تمام تر مرضیات اللہ کی مرضیات کے تابع ہوں، ہر کام میں اس کو یہی خیال ہو کہ اگر اللہ کی مرضی شامل حال ہوگی تو ایسا کام ہوگا، اللہ ہم سے جو کام کرائے گا ہم وہ کریں گے۔ بلاشبہ ایمانی زندگی کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ آدمی اپنی محنت کو اصل نہ سمجھے بلکہ اللہ کے فیصلہ کو اصل سمجھے۔
چونکہ اللہ کا فیصلہ ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا اس لئے کہ وہ غیب کی بات ہے جو مستقبل میں پیش آنے والی ہے اور اس کا علم صرف اللہ کو ہے اسی لئے ہمیں مستقبل کے متعلق ہر چیز میں یہی کہنے کا مزاج بنانا چاہئے کہ اگر اللہ چاہے گا تو ایسا ہوگا یا یوں کہیں کہ اگر اللہ کا فیصلہ ہوگا تو ایسا ہوگا، ہمارے تمام فیصلے اسی کے فیصلہ کے تابع ہیں۔۔
واقعہ ٔ موسیٰ ؑ کا منظر اور پس منظر
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پوچھا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہوسکتا ہے؟ حضرت موسیٰؑ نے خیال کیا کہ اللہ نے ہم کو نبی بنایا ہے اور وحی کے ذریعے ہمیں ساری باتیں بتائی ہیں، تو ظاہر ہے کہ ہم سے زیادہ دین و شریعت کا جاننے والا اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام سے واقف دوسرا کون ہوگا؟ اسی لئے انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو جواب دیا کہ اس وقت سب سے زیادہ علم رکھنے والا میں خود ہی ہوں۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ تم کو یہ بات نہیں کہنی تھی، اس لئے کہ دُنیا میں تم سے بھی زیادہ جاننے والے لوگ موجود ہیں، لہٰذا اب تم فلاں جگہ جاؤں، وہاں تمہیں ایک ایسا شخص ملے گا جو تم سے زیادہ جانتا ہوگا، اس سے مل کر تمہیں پتہ چلے گا کہ تم زیادہ جانتے ہو یا وہ زیادہ جانتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر سے ملنے اور ان کو پہچاننے کی علامات بھی بتادیں اور کہا کہ تم اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لینا، راستہ میں وہ جہاں غائب ہوجائے تو سمجھ لینا کہ وہیں پر حضرت خضر مل جائیں گے۔۔ حضرت موسیٰؑ اپنے شاگرد یوشع کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگئے، جس جگہ ان دونوں بزرگ ہستیوں کی ملاقات ہونا تھی وہ ایک چٹان تھی، مگر سفر کرتے کرتے یہ لوگ اس چٹان سے گزر گئے اور چٹان پر دھیان نہ دے سکے۔ اسی درمیان میں ان کے ساتھ جو مچھلی تھی وہ اچھل کر دریا میں چلی گئی، لیکن ان کے رفیق اس کو دیکھ لینے کے باوجود اس پر زیادہ دھیان نہ دے سکے۔ پھر جب سفر کرتے ہوئے تکان محسوس ہوئی اور بھوک کا تقاضا ہوا تو حضرت موسیٰؑ نے اپنے رفیق سفر سے کہا: سفر بہت لمبا ہوچکا اور بھوک کا تقاضا بھی ہے لہٰذا جو کھانا ہمارے ساتھ ہے لاؤ ہم وہ کھا لیتے ہیں۔۔ لیکن جب انہوں نے کھانا دیکھا تو پتہ چلا کہ مچھلی غائب ہے، تو اس وقت رفیق نے کہا کہ فلاں جگہ مچھلی دریا میں اچھل کر چلی گئی تھی لیکن ہم بتانا بھول گئے۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا: ان سے ملنے کی وہی ایک علامت تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی منزل مقصود سے آگے نکل آئے ہیں، وہ ہم کو اسی جگہ پر ملیں گے جہاں مچھلی غائب ہوئی ہے لہٰذا ان کی تلاش میں اسی راستہ پر واپس پیچھے کی طرف چلو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب واپس پیچھے کی طرف لوٹے تو اسی راستہ پر حضرت خضر سے ملاقات ہوئی اور دونوں کا باہم تعارف ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ ہم جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیسا علم عطا فرمایا ہے، ہم بھی اس سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: تم ہمارے ساتھ چلو اور ہم راستہ میں جو کچھ کریں اس کو دیکھتے رہنا لیکن کچھ پوچھنا نہیں، صرف خاموشی سے دیکھتے جانا۔
ملاح کی کشتی
ان لوگوں نے ایک ایسی جگہ کا رخ کیا جہاں راستہ میں دریا تھا لہٰذا دریا پار کرنے کے لئے ایک کشتی پر سوار ہوئے جو چند غریب لوگوں کی تھی، انہوں نے نئی کشتی بنائی تھی اور ان کی کمائی کا وہی ایک ذریعہ تھا لیکن ملاح نے ان لوگوں کو شریف آدمی سمجھتے ہوئے بغیر کرایہ کے دریا پار کرانے کے لئے بٹھا لیا۔۔ مگر یہ لوگ جب کشتی پر سوار ہوئے تو حضرت خضر نے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا اور کشتی خراب ہوگئی۔ اس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا :
یہ تو آپ نے عجیب بات کی، کشتی والا شخص ہمارے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا مگر آپ نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا (کہ اس کی کشتی خراب کردی)؟
انہوں نے کہا: ہم نے اسی لئے آپ سے کہا تھا کہ کوئی سوال مت کرنا بلکہ خاموشی سے دیکھتے جانا۔
نوخیز بچے کا قتل
اس کے بعد جب آگے بڑھے تو ایک ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں چند بچے کھیل رہے تھے، حضرت خضر نے ان بچوں میں سے ایک لڑکے کو بلایا اور ایسا مارا کہ وہ مر گیا۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی آدمی تھے تو ان سے خاموش رہا نہ گیا، وہ بولے: آپ نے بالکل ایک بے گناہ کو مار دیا، یہ کیسی بات ہوئی؟
حضرت خضر نے کہا: آپ پھر ہمارے بیچ میں بول پڑے؟ حضرت موسیٰؑ نے کہا: ٹھیک ہے، اب اگر ہم اعتراض کریں تو ہم کو چھوڑ دیجئے گا، پھر ہم آپ کے ساتھ نہیں چلیں گے۔
دیوار کی مرمت
جب کچھ دور پہنچے تو ایک ایسی جگہ ٹھہرے جہاں ان لوگوں کو کھانے کا تقاضا ہوا۔ قدیم زمانہ میں ہوٹل نہیں ہوتے تھے اس لئے یہ رواج تھا کہ جس علاقہ میں مہمان پہنچتا تھا وہاں کے لوگوں کو اس کی خاطرداری کرنا انسانی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ دونوں حضرات جس جگہ پہنچے وہاں ان کو کسی نے نہیں پوچھا، حالانکہ بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ اسی حالت میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ اتنے میں حضرت خضر نے دیکھا کہ ایک دیوار جھکی ہوئی ہے، کہیں وہ گر نہ جائے، لہٰذا وہ اٹھے اور دیوار ایسی کردی کہ وہ گر نہ سکے اور بالکل نئی دیوار بنا دی، تو حضرت موسیٰؑ نے کہا : یہ آپ نے بہت اچھا کام کیا، ان لوگوں نے ہم سے کھانے کو بھی نہیں پوچھا مگر آپ نے ان کے ساتھ ایسا اچھا اخلاق برتا، اگر آپ اس کی اجرت لے لیتے تو ہم لوگوں کا کام ہوجاتا۔ حضرت خضر نے کہا: تم اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اب ہم ایک ساتھ آگے نہیں چل سکتے، لہٰذا میں تم کو تینوں واقعات کی حقیقت بتاد یتا ہوں۔
تینوں واقعات کی حکمت
حضرت خضر نے بتایا کہ جس کشتی کا تختہ ہم نے اکھاڑا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقہ کا بادشاہ نئی کشتیاں ضبط کرلیتا تھا، چونکہ ان غریبوں کی کشتی بھی نئی تھی اس لئے خطرہ تھا کہ کہیں ضبط نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کشتی کو تھوڑا خراب کردیا تھا تاکہ جب بادشاہ کے ہرکارے کشتی ضبط کرنے آئیں تو اس میں عیب دیکھ کر واپس چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عمل اس لئے کرایا تاکہ ان کی کشتی بچ جائے، ورنہ ظاہری صورت ِ حال تو یہ تھی کہ ان کی کشتی بھی ضبط ہوجاتی، لیکن اللہ کو بچانا مقصود تھا تو اس نے اس طریقہ سے بچا دیا اور ان حضرات پر اپنا خاص فضل کیا۔
پھر بتایا کہ ہم نے جس لڑکے کو مارا تھا اس کی حکمت یہ تھی کہ تکوینی نظام کے لحاظ سے وہ لڑکا مستقبل میں بہت خراب ہونے والا تھا، یہاں تک کہ وہ بڑا ہوکر اپنے ماں باپ کے لئے ایک مصیبت بننے والا تھا اور جب ایسا ہوتا تو اس کے ماں باپ بددعا کرتے کہ کاش یہ لڑکا زندہ ہی نہ ہوتا، اسی لئے قبل اس کے کہ وہ اپنے ماں باپ کے لئے درد سر بنتا، اللہ نے اس نوبت کے آنے سے پہلے ہی اُس لڑکے کو ختم کروادیا۔ اس کے ماں باپ بہت نیک تھے اور ان کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مصیبت سے بچا لیا، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس سے اچھا فرزند عطا کرے گا۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ عبرت ملتی ہے کہ اگر آدمی نیکوکار ہو اور اللہ کے نزدیک بھی نیک شمار ہو تو اللہ اس کو مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے اور پریشانیوں سے اس طرح بچا لیتا ہے کہ بندہ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ اسی لئے آدمی کو ہر چیز اللہ کی طرف منسوب کرنا چاہئے، مگر غلطی یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کو اسباب سے جوڑتا ہے یا اپنے علم و ہنرمندی سے جوڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے اپنی کوشش سے کیا ہے، یا پھر یہ سب اتفاقاً ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی ذات سے وابستہ ہے اور ہر چیز پر اس کی نظر ہے اور ہر چیز اسی کے کہنے سے ہوتی ہے، اسی لئے بہت سے مواقع پر انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا، جب کہ عام حالات میں ویسا نہیں ہوتا، گویا خاص طور پر ہوا ہے، اس سب کے باوجود بھی وہ ایسے مواقع کو اتفاق سمجھتا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے تو وہ اپنے اس نظام کو تبدیل کردیتا ہے جو نظام تکوینی کے لحاظ سے جاری ہے، مثلاً ڈھال پر پانی ڈالا جائے گا تو نیچے کی طرف بہے گا، یہی نظام ہے، لیکن بعض مرتبہ یہ بھی ممکن ہے کہ جب ڈھال پر پانی ڈالا جائے تو اس کا رخ کسی ترکیب سے موڑ دیا جائے اور پانی نیچے کی طرف جانے کے بجائے اس رخ پر بہے جسکی طرف موڑ دیا ہے۔
حضرت خضر نے تیسرے واقعہ کی حقیقت یہ بیان کی کہ وہ دیوار جس کو ہم نے درست کیا تھا، وہ نیک لوگوں کی تھی اور وہ لوگ مرحوم ہوچکے تھے، ان کے بچے یتیم تھے اور دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا جو ان کے ماں باپ نے یہ سوچ کر رکھ دیا تھا کہ بڑے ہوکر بچوں کے کام آجائے گا اور وہ نکال لیں گے، اب جبکہ وہ دیوار گرنے کے قریب تھی، تو ایسی صورت میں اس کو درست کرنا ضروری تھا، اس لئے کہ اگر دیوار گر جاتی تو خزانہ کا راز کھل جاتا اور لوگ مال کو لوٹ کر لے جاتے، اس طرح نیک والدین کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی اور انہوں نے اپنے بچوں کے لئے جو انتظام کیا تھا وہ ختم ہوسکتا تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ بچے بڑے ہوکر اپنے ماں باپ کا دفن کیا ہوا خزانہ استعمال کریں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے وہ دیوار ٹھیک کردی۔
قدیم زمانہ میں بینک وغیرہ کا کوئی نظام نہیں تھا اس لئے لوگ اپنی رقمیں زمین میں ہی دفن کرتے تھے اور ایک علامت بنالیتے تھے جس سے ضرورت پڑنے پر نکالنا آسان ہو، لہٰذا بہت ممکن ہے کہ جس جگہ خزانہ دفن ہو اس کی کوئی علامت بھی بچوں کے علم میں ہو۔
واقعہ کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید کے ذریعہ یہ تین اہم واقعات بطور علامت سارے انسانوں کو بتائے، جن سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یاد رکھو! اللہ نے کائنات کا نظام بنا کر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ اس میں لوگوں کے حالات کے لحاظ سے وہ فرق کرتا رہتا ہے، لوگوں پر عذاب کا آنا بھی اسی میں شامل ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو آدمی اس کی بھی تاویل کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ فلاں وجہ سے اتفاقاً یہ واقعہ پیش آگیا، حالانکہ وہ اصلاً عذاب ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے سزا ہوتی ہے، یا اللہ کی طرف سے کوئی ایسا انتظام ہوتا ہے جس کے ذریعہ متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم ہر چیز کی مادی توجیہ کرلیتے ہو، یہ سراسر غلط ہے، بلکہ یہ تو پورا نظام اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی ڈور اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے، وہ جتنا چاہے کھینچ لیتا ہے اور جتنا چاہے ڈھیلی کرلیتا ہے۔ اس نے پورا نظام پہلے سے طے کردیا ہے اور بتا بھی دیا ہے کہ ہر چیز کتاب میں موجود ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کی جو بات پہلے سے طے کردی ہے وہ پورا نظام اسی کے مطابق چلے گا ، لیکن یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس نے پورا نظام مقرر کرکے وسائل پر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ وہ خود سب کچھ دیکھتا ہے اور وسائل میں تبدیلی کردیتا ہے۔
عبرت کا پہلو
اللہ تعالیٰ کے طے شدہ نظام تکو ینی لحاظ سے جاری ہے مگر کبھی کبھی وہ اس میں تبدیلی بھی کردیتا ہے جیسا کہ حضرت خضر کے واقعات سے پتہ چلتا ہے۔ یہ تینوں واقعات بہت عبر ت کے ہیں۔ شروع کے دو واقعات میں بظاہر سزا معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں وہ اللہ کا فضل تھا جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہر وقت اللہ کی نظر میں ہیں ، اگر ہم ذرا سا بھی خیانت سے کام لیں گے تو ہمارے اوپر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور اگر ہمارے عمل سے اللہ ناراض ہوگیا تو اس کی سزا بھی مل سکتی ہے، یا پھر یہ کہ اگر وہ ہمارے کسی عمل سے خوش ہوگیا تو استثنائی طور پر ہمارے ساتھ خیر کا معاملہ بھی کرسکتا ہے، اس لئے جو صاحب ِ عزیمت بزرگ ہوتے ہیں ان کو تکلیف سے رنج نہیں ہوتا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر عطا فرمائے گا۔
ذوالقرنین کاواقعہ
سورۂ کہف میں ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی ذکر ہے۔ ذوالقرنین کون تھے اور کس زمانہ میں تھے؟ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں مگر قرآن مجید ان تفصیلات میں نہیں جاتا بلکہ جو عبرت کے پہلو ہیں وہ صرف ان کو بیان فرماتا ہے۔ قدیم زمانہ میں بادشاہت کا رواج تھا، بادشاہ مطلق العنان ہوتا تھا اور اس کو سارے اختیارات حاصل ہوتے تھے، وہ جو چاہے کرے۔ اسی دور میں ذوالقرنین بھی ایک بادشاہ ہوئے مگر انہوں نے اپنے طرز حکومت میں بادشاہت کے باوجود اللہ کی رضا اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھا اور حکومتی نظام چلانے کیلئے اپنے اعتبار سے موزوں طریقے اختیار کئے۔ چنانچہ وہ فوج اور اپنا ساز و سامان لے کر نکلے اور حکومت قائم کرتے چلے گئے۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ وہ حکومت قائم کرتے ہوئے ایک دور دراز مغربی علاقہ میں پہنچے جہاں انسانوں کی آبادی بھی تھی۔ وہ لوگ ان کی طاقت و قوت کےسامنے سرنگوں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے بادشاہت کی دونوں صورتیں رکھیں کہ اگر تم چاہو تو دنیاوی بادشاہوں کی طرح رویہ اختیار کرو اور جس کو چاہو مارو، جس کو چاہو سزا دو اور جس کو چاہو لوٹ لو، اور اگر تم چاہو تو لوگوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرو جو اللہ کو پسند ہے یعنی محبت اور ہمدردی کا سلوک کرو۔ چنانچہ ذوالقرنین نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم تو بہتر طریقہ اختیار کریں ، جو شخص گناہ کرے گا اور زیادتی سے کام لے گا یا غلط راستہ پر پڑے گا تو اس کو ہم سزا دیں گے اور پھر جب وہ اللہ کے یہاں حاضر ہوگا تو وہاں بھی سخت سزا کا مستحق ہوگا تاہم جو لوگ اچھے اعمال کریں گے اور حق بات قبول کریں گے تو ان کو اچھا بدلہ ملے گا اور ایسے لوگوں پر ہماری حکومت کا رویہ نرم ہوگا اور ہم ان سے آسانی کی بات کہیں گے جس سے ان کو آسانی ہو۔
ذوالقرنین کا مشرقی علاقہ سے گزر
ذوالقرنین نے اپنی سلطنت کی حدود کو وسعت دینے کا کام جاری رکھا اور اپنے ساز و سامان کے ساتھ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ان کا گزر ایک ایسے دور دراز مشرقی علاقہ سے ہوا جہاں انسانوں کی آبادی تھی اور سورج ان کے سر پر اس طرح طلوع ہوتا تھا کہ ان کے پاس آڑ کرنے یا ڈھانکنے کی کوئی چیز نہیں تھی یعنی نہ ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کیلئے کپڑے تھے اور نہ ہی محفوظ مکانات تھے بلکہ وہ بالکل عجیب قسم کے لوگ تھے جو انہیں ملے۔ قرآن مجید کی گواہی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ذوالقرنین نے جو رویہ اختیار کیا، ہم اس سے خوب اچھی طرح واقف ہیں یعنی انہوں نے لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے میں اللہ کی مرضی کو اختیار کریا۔
ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا پشتہ
اس مقام سے آگے بڑھے تو ذوالقرنین کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں دو پشتے مل رہے تھے۔ وہاں انہوں نے ایسے لوگ دیکھے جن سے اگر کچھ کہا جائے تو ان کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی۔ گویا وہ وحشی قسم کے لوگ تھے اور بڑے پریشان تھے، چنانچہ ان لوگوں نے ذوالقرنین کے سامنے اپنی پریشانیاں بیان کیں اور کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج ایک وحشی قسم کی اجڈ قوم ہے جس نے زمین میں فساد پھیلا رکھا ہے، اس کی وجہ سے ہم بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں اور تم ایک بڑے بادشاہ ہو لہٰذا اس تکلیف اور آزمائش سے تم ہی ہمیں نجات دلا سکتے ہو، اگر اس سلسلہ میں کچھ مصارف کا مسئلہ ہوگا تو ان کا انتظام ہم کردیں گے، لیکن آپ کے پاس وسائل ہیں اور آپ بادشاہ ہیں اس لئے اتنا کردیجئے کہ ہمارے اور اس قوم کے درمیان ایک پشتہ قائم کردیں تاکہ ہم ان کی مصیبت سے بری ہوجائیں۔
ذوالقرنین کی حکیمانہ تدبیر
ذوالقرنین نے اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کیا اور جواب دیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسباب و وسائل عطا کئے ہیں اور مدد کرنے کے مواقع بھی بخشے ہیں ، میرے پاس بہت خیر ہے لہٰذا میں تم لوگوں کی ضرور مدد کروں گا، بس مجھے تمہارا تعاون چاہئے نہ کہ اس کام پر کوئی معاوضہ، اور تمہارا تعاون یہ ہے کہ ایک پشتہ قائم کرنے کے لئے جس سامان کی ضرورت ہے وہ تم مجھے مہیا کرادو یعنی لوہا وغیرہ، یہاں تک کہ جب اس کے دونوں حصے برابر ہوجائیں تو لوہا رکھ کر ایک دیوار بنا دی جائے گی جس کے اوپر اس قدر آگ جلائی جائے گی کہ لوہے میں پگھلنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے، پھر جب لوہا پگھل جائے گا تو اس کی درازیں بند کردی جائیں گی اور ان میں سیال مادہ بھر دیا جائے گا تاکہ دیوار مزید مضبوطی پکڑ لے، اس کے بعد یاجوج ماجوج کے بس میں نہیں ہوگا کہ وہ اس دیوار پر چڑھ آئیں یا اسمیں سوراخ کرکے باہر آجائیں۔
ذوالقرنین کی نصیحت
ذوالقرنین کی یہ تدبیر سب نے بڑی پسند کی تو انہوں نے کہا: ہمارے ساتھ یہ اللہ رب العزت کی رحمت کا خاص معاملہ ہے جس کی بنیاد پر ہم ایسا کردیں گے اور اس کے بعد یاجوج ماجوج کا فتنہ رک جائے گا، مگر اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہ جب چاہے گا تو اس ذریعہ کو ختم کر دے گا جس ذریعہ سے ان کے فتنہ کو روکا ہے اور اس کی بات سچ ثابت ہوگی، یعنی جب اس کا وعدہ آئے گا تو یہ مضبوط دیوار وہ توڑ دے گا اور اس کو بالکل مٹا دے گا، پھر یہ وحشی لوگ نکلیں گے اور ساری دنیا میں تباہی مچائیں گے اور بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ختم کرے گا جس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب یاجوج ماجوج ایک سیل رواں کی طرح ہر جانب سے امڈیں گے تو اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوچکا ہوگا مگر وہ اپنے متبعین کے ساتھ یاجوج ماجوج کی شورش کے سبب محصور ہوکر رہ جائیں گے، چنانچہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے یاجوج ماجوج کے فتنہ سے نجات پانے کیلئے گڑگڑا کر دعا کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ایسی وحشی قوم کا ایک معمولی کیڑے کے ذریعے خاتمہ کردے گا، جو بجائے خود یہ پیغام ہے کہ اصل کرنے والی ذات اللہ کی ہے اور اس کی طاقت کے سامنے سب ہیچ ہیں، وہ اپنی جس مخلوق سے چاہے بڑے بڑے کام لے لینے پر قادر ہے۔
عبرت کا پہلو
یاجوج ماجوج کے قصہ میں دنیا کو خیر اور شر پہنچانے کے دونوں نمونے موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو طاقت اور وسائل سے نوازا تو انہوں نے اس کو لوگوں پر جائز طریقہ سے خرچ کیا اور اچھا سلوک کیا، اسی طرح یاجوج ماجوج کو بھی طاقت بخشی لیکن انہوں نے تباہی اور فساد مچایا۔ معلوم یہ ہوا کہ اگر ہم اسباب و وسائل کو استعمال کرنے کا غلط طریقہ اختیار کریں گے اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ اللہ کا حکم اور اس کی مرضی کیا ہے تو وہ یاجوج ماجوج کا طریقہ اور ان کی سوچ ہوگی، جس میں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔