Inquilab Logo Happiest Places to Work

خواہشات کا بندہ بن جانا، انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے

Updated: July 25, 2025, 5:22 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

موجودہ دور میں فضول خرچی کا بڑھتا رجحان مسلم معاشرے میں بھی نمایاں نظر آتا ہے جبکہ اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان دنیا کو ضروریات کیلئے رکھے اور خواہشات کیلئے آخرت کا انتظار کرے۔

One of the characteristics of desire is that a person becomes very fond of his own possessions, and then through his words and actions he begins to invite people to a life of extravagance. Photo: INN
خواہشات پرستی کا ایک مزاج یہ ہے کہ انسان کو اپنا رکھ رکھاؤ بہت بھانے لگتا ہے پھر وہ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو بھی مسرفانہ زندگی کی دعوت دینے لگتا ہے۔ تصویر: آئی این این

 اس میں شبہ نہیں کہ مال و دولت بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کی قدر ان بے کسوں سے پوچھئے، جن کو آسمان کے سائے کے سوا کوئی سایہ میسر نہیں ، جن کے لئے سڑک پر بنے ہوئے فٹ پاتھ بستر کا کام دیتے ہیں اور موسمِ گرما کی جھلساہٹ، سرما کی برفیلی ہوائیں اوربرسات کی موسلادھار بارش جن کے زخم پر نمک چھڑکتی رہتی ہے، فاقہ کشی بار بار ان کے یہاں تسلط جما لیتی ہے اور دوا و علاج سے محرومی ان کی بیماریوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے، ایسے لوگوں کی تعداد نہ صرف پوری دنیا میں بہت بڑی ہے؛ بلکہ خود ہمارے ملک میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد ایسے پریشان حال افراد اور خاندانوں کی ہے لیکن دوسری طرف دنیا میں شاہ خرچ لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ایک زمانہ میں بادشاہوں ، رئیسوں اور نوابوں کے چونچلے مشہور تھے، ان کی عیش و عشرت کے نقشے افسانے کی طرح بیان کئے اور سنے جاتے تھے اور کسی کو دیکھنے کا موقع ملتا تو وہ اس عیش کوشی کو حیرت کی آنکھوں سے دیکھتا تھا لیکن اب اس سلسلہ میں حاکم و محکوم اور محمود و ایاز کا فرق کم ہوگیا ہے، ہر آبادی میں بہت سے ایسے لوگ مل جاتے ہیں کہ ان کی فضول خرچی پچھلے نوابوں کو شرمندہ کرتی ہے اور اس کی وجہ سے سوسائٹی میں ایک طرح کا جذبۂ مسابقت پروان چڑھتا ہے ۔
یہ رجحان معاشرہ کے لئے بہت ہی نقصان دہ اور ہلاکت خیز ہے۔ انسان کے ساتھ قدرت نے دو چیزوں کو جوڑ رکھا ہے، ضروریات اور خواہشات۔ انسان کی ضروریات محدود ہیں لیکن خواہشات کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے، اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان دنیا کو ضروریات کیلئے رکھے اور خواہشات کیلئے آخرت کا انتظار کرے۔انسان کا خواہشات کا بندہ بن جانا اس کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ خواہشات اس کو فضول خرچی کے راستے پر ڈال دیتی ہیں ؛ اسی لئے قرآن مجید نے بار بار فضول خرچی سے منع کیا، رب العالمین کاارشاد ہے: ’’فضول خرچی مت کرو ؛ کیونکہ اللہ کوفضول خرچی کرنے والے بندے پسند نہیں ۔‘‘(الانعام : ۱۴۱ ) یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی ضرورتیں بھی پوری نہ کرے، اسی لئے فرمایا گیا کہ :’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘(الاعراف : ۳۱ ) 
ایک اور موقع پر فضول خرچی کرنے والے کو دوزخی قرار دیاگیا ہے:’’یقیناً حد سے گزرنے والے ہی دوزخی ہیں ۔‘‘ (الغافر : ۴۳ ) آپؐ نے اپنا مزاج اور اس امت کے لئے مطلوبہ مزاج یہ بنایا کہ ہمیں عیش و عشرت کا پرستار نہیں ہونا چاہئے؛ کیوں کہ اللہ کے حقیقی بندے اس مزاج کے نہیں ہوتے۔ ( مسند احمد) 
لیکن آج اگر کوئی اس اُمت کی شادی بیاہ کی تقریبات اور زندگی گزار نے کا طریقہ دیکھے تو وہ محسوس کریگا کہ اُمت کو اس مزاج سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا ، اس وقت دنیا کی سرمایہ دار طاقتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ فضول خرچی کا رجحان اختیار کریں ، اس کیلئے بہت سے دوسرے وسائل کے علاوہ تشہیر کو نہایت ہی مؤثر وسیلہ کی حیثیت سے اختیار کیا جارہا ہے، ایسی چیزیں جو انسانی زندگی کیلئے غیر اہم ہیں یا نقصان دہ ہیں ، اشتہارات کے زور پر ذہن کو ان کے لئے ہموار کیا جاتا ہے اور جو چیزیں ضروری نہیں ہیں ، ان کے ضروریاتِ زندگی میں داخل ہونے کا یقین بٹھایا جاتا ہے۔ یہ اشتہارات نہایت ہی خود غرضی پر مبنی ہوتے ہیں اور چونکہ ذرائع ابلاغ کے لئے سرمایہ کے اعتبار سے یہ ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں ، اس لئے انہوں نے اشتہارات کو قبول کرنے کے لئے کوئی اخلاقی معیار نہیں رکھا ہے۔ 
جب انسان خواہشات کے دام میں آجاتا ہے ، تو پھر بے فائدہ چیزوں میں ا س کے سرمایہ کا اتنا بڑا حصہ خرچ ہونے لگتا ہے کہ اگر اس سے غریبوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام کیا جائے، تو شاید کوئی شخص بھی بھوکا نہ مل سکے، مثال کے طور پر ’’اسٹیٹسٹا‘‘ کے اعدادو شمار کے مطابق صرف ہندوستان میں بیوٹی پروڈکٹس کی مالیت ۲۷ء۲۳؍ بلین ڈالر (۲ء۲۳؍ کھرب روپے) ہے۔ ۲۰۳۰ء تک اس کے ۳۱؍ بلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ فضول خرچی، خواہشات پرستی اورزائد از ضروریات صارفیت کا نتیجہ ہے۔ اب گلوبلائزیشن کے نام پر ہر خواہش کو پوری کرنے اور نت نئی خواہشوں کو وجود میں لانے کا جذبۂ بے کراں غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں برآمد کیا جارہا ہے۔ 
 اسی طرح ایسی گاڑیاں بیچ کر جو ہنوز کارآمد ہیں ، نئی گاڑیاں خرید نے، نئے نئے موبائیل سیٹ حاصل کرنے، عمارتوں کی اعلیٰ ترین اور دیدہ زیب آرائش، تقریبات کو رنگ و نور کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ آراستہ کرنے اور تکلفات پر پانی کی طرح پیسہ بہانے، دعوتوں میں حد سے زیادہ تنوع اور کھانے کی نت نئی قسموں کو جنم دینے کا مزاج اس تیزی سے پنپ رہا ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے کے ہندوستان میں اس کا تصور بھی دشوار تھا۔ اس فضول خرچی سے فرد ، سماج اور قوم پر بہت ہی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔چونکہ اس وقت مغربی کمپنیاں پوری دُنیا پر حاوی ہیں اور خواہشات کی پیاس بجھانے والی چیزیں وہی بناتی ہیں ؛ اس لئے ترقی پزیر ملکوں کی دولت کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں کی جھولی میں چلا جاتا ہے، بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کی مدد کی جارہی ہے؛ لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا دریا ہے ، جس کا نشیب مغرب کی طرف ہے ، چنانچہ دولت کا بڑا حصہ مختلف ذریعوں سے مغرب کی طرف چلا جاتا ہے۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب سماج میں خواہشات پرستی کا عمومی مزاج پیدا ہو جاتا ہے، تو جو حقیقی ضرورتیں ہیں ، ان میں غریبوں کا حصہ کم ہوتا جاتا ہے کیوں کہ وہ گنجائش نہ ہونے کے باوجود اپنے سرمایہ کا ایک اچھا خاصا حصہ ایسی غیر ضروری چیزوں کی نذر کردیتے ہیں ، چنانچہ چند برس پہلے اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا کے امیر ترین بیس فیصد لوگ پینتالیس فیصد مچھلی اور گوشت استعمال کرلیتے ہیں اوردنیا کے بیس فیصد غریب ترین لوگوں کو صرف ان کے پانچ فیصد پر اکتفا کرناپڑتاہے۔ یہ معاشی ناہمواری اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ، جو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تقریباً اسی طرح ہے ، جس طرح ترقی پذیر ملکوں میں ہے، کا ایک اہم سبب ضروریات سے زیادہ صارفیت کا نتیجہ ہے، دولت مندوں کی دولت، غریب عوام پر خرچ ہونے کے بجائے حد سے گزری ہوئی عیش کوشی پر خرچ ہو رہی ہے اور غریب عوام بھی ان کی تقلید میں ایسی مصنوعی ضروریات کے دام میں پھنس کر اپنی زندگی کو مشکل بنالیتے ہیں ۔
خواہشات پرستی کا ایک مزاج یہ ہے کہ انسان کو اپنا رکھ رکھاؤ بہت بھانے لگتا ہے پھر وہ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو بھی مسرفانہ زندگی کی دعوت دینے لگتا ہے، اسی لئے قرآن نے خاص طور پر متنبہ کیا ہے کہ ایسے فضول خرچ لوگوں کی بات نہ ماننی چاہئے:’’اور حد سے تجاوز کرنے والوں کا کہنا نہ مانو۔‘‘ (الشعراء : ۱۵۱ ) اور مسلمانوں سے کہا گیا کہ ’’فضول خرچی کرنے والے در اصل شیطان کے بھائی ہیں ۔‘‘ ( الاسراء : ۲۷ ) رسولؐ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات بتائی ہے کہ انسان کو دین کے اعتبار سے اپنے بہتر لوگوں پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ خیر میں مسابقت کا جذبہ پیدا ہو۔ اس کے برخلاف، دُنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم تر لوگوں پر نظر رکھنی چاہئے؛ تاکہ شکر کا جذبہ پیدا ہو اورانسان بندۂ ہوس نہ بن جائے۔ اس خواہش پرستی کا ایک نقصان قرض کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جب انسان کی موجودہ آمدنی خواہشات کا ساتھ نہیں دیتی، تو وہ قرض کے ذریعہ ان کو پوری کرتا ہے اور اکثر یہ قرض سودی نوعیت کا ہوتا ہے ، جو مکڑی کے جال کی طرح مقروض کو باندھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہت سی دفعہ خود کشی اس کے لئے آخری سہارا ہوتی ہے اور جو غریب قرض بھی لینے پر قادر نہیں ہوتا، محرومی کا احساس اسے بے قرار رکھتا ہے۔ یہی احساس بہت سی دفعہ انسان کے اندرمجرمانہ ذہن پیدا کردیتاہے ۔
غرض کہ خواہشات کو ضروریات میں داخل کرلینا انسان کے لئے ہر پہلو سے نقصان دہ ہے، معاشی اعتبار سے بھی، اخلاقی پہلو سے بھی، امن وامان کے لحاظ سے بھی اور روحانی اعتبار سے بھی۔ اس لئے ضروری ہے کہ سماج کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ ضروریات اور خواہشات کے فرق کو سمجھ سکے اور عیش کوشی اوراس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مزاج پیدا ہونے کے بجائے قناعت پیدا ہو کہ انسان کی عیش و عشرت کی زندگی جسم کیلئے کچھ لذت تو فراہم کرسکتی ہے، قلب کے لئے سکون کا سامان نہیں بن سکتی اور قناعت و استغناء وہ دولت ہے جو دل کو سکون و قرار کی دولت سے ہم کنار کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK