جو چیز جتنی زیادہ معزز اور مکرم ہوگی اس کے نام بھی اتنے ہی زیادہ معزز اور مکرم ہوں گے۔ ناموں کی عظمت اس ہستی کی دلیل یا علامت ہے۔ چنانچہ لفظ اسم کی وضع ہی بلندی کے معنی کے لئے ہے۔ اسم یا تو ’’سموّ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی بلندی، برتری اور اونچی چوٹی کے آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ کی حقیقت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے اسماء بھی سب سے زیادہ اچھے ہوں۔ تصویر: آئی این این
جو چیز جتنی زیادہ معزز اور مکرم ہوگی اس کے نام بھی اتنے ہی زیادہ معزز اور مکرم ہوں گے۔ ناموں کی عظمت اس ہستی کی دلیل یا علامت ہے۔ چنانچہ لفظ اسم کی وضع ہی بلندی کے معنی کے لئے ہے۔ اسم یا تو ’’سموّ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی بلندی، برتری اور اونچی چوٹی کے آتے ہیں۔ اس طرح اسم بھی اپنے مسمیٰ کی برتری کی علامت ہے یا اس کا اشتقاق لفظ سمتہ سے ہے۔ اس کے معنی ہیں نشانی یا علامت، ایسی علامت جو اسے دوسروں سے ممتاز کردے۔ اسم کو اسم اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسمیٰ کو یا تو دوسروں سے جدا کرکے اس کا تشخص قائم کرتا ہے یا مسمیٰ کی برتری کی علامت بناتا ہے۔
مختلف تہذیبوں میں اپنے بڑوں کے لئے جو نام رکھے یا صفات بیان کی جاتی ہیں ان میں اس پہلو کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ان میں بلندی اور عظمت کے معنی ضرور پائے جائیں ، مثلاً ایران میں بادشاہ کو خداوند کہا جاتا تھا جس کے معنی مالک کے آتے ہیں یا مثلاً ہمارے یہاں راجہ کو ’’اَن داتا‘‘ کہا جاتا تھا جس کے معنی روزی رساں کے آتے ہیں۔اسی طرح دوسری تہذیبوں میں بھی مادی بزرگوں اور ذاتِ الٰہی کے لئے بلندی اور عظمت والے نام رکھے جاتے تھے۔
اسماء حسنیٰ
اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ، اس کی عظمت و ہیبت، اس کے جاہ و جلال، اس کی بزرگی و برتری، اس کے مقام و مرتبہ، اس کی شان و شوکت، اس کا رعب و دبدبہ، اس کے مقام ِ کبریائی، اس کی سطوت و شہنشاہیت اور اس کے قادر و قیوم ہونے کی حقیقت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے اسماء بھی سب سے زیادہ اچھے ہوں ، چنانچہ واقعہ بھی یہی ہے کہ رب العزت کے اسماء تمام کے تمام بہت اچھے بلکہ نہایت اچھے ہیں۔قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ (اسی کا اسمِ ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کے لئے (اور بھی) بہت خوبصورت نام ہیں ۔‘‘ (طٰہٰ:۸)
’’وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں ۔‘‘ (الحشر:۲۴)
مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے ’’الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ‘‘ (اچھے ناموں ) کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کو انہی ناموں سے پکارے جانے کی دعوت دی گئی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کے ان اسماء حسنیٰ سے نہ پکاریں ان کے بارے میں سخت وعید فرمائی گئی ہے:
’’اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے انحراف کرتے ہیں ۔‘‘ (الاعراف:۱۸۰)
جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس کے اچھے ناموں سے نہیں پکارتا وہ گویا الحاد کا شکار ہے، اسے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
صفات ِ الٰہی
اللہ تعالیٰ کی ذات بے ہمتا کا کوئی نظیر و مثیل نہیں ہے۔ اس کی ذات کا ادراک بھی استطاعت ِ بشری سے باہر ہے۔ قرآن میں جو ارشادا ت آئے ہیں کہ ’’اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے‘‘ (الشوریٰ: ۱۱) اور ’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ‘‘ (الانعام: ۱۰۳) وہ اسی حقیقت کا اظہار ہیں۔اس لئے اس کی ذات کا علم حاصل کرنے کے لئے اس کی صفات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کی صفات دراصل انسانوں کے لئے اس کی ذات کو قابل فہم بنانے کا ذریعہ ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے صفات باری تعالیٰ کی تعریف ہی یہ کی ہے:
’’صفات باری تعالیٰ جیسے پاکی، تقدس، عزت و عظمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ اطلاعات ہیں جو اس ذات ِ مقدس نے ایسی زبان میں بیان کی ہیں جس کو انسان سمجھ سکے۔‘‘
ویسے بھی کسی ہستی کے بارے میں اس کے اسماء و صفات سے زیادہ انسان کچھ جان بھی نہیں سکتا۔ امام رازیؒ کہتے ہیں کہ اصل تعریف کنندہ تو صفات ہی ہیں ، اسماء تو محض اجمالی تعارف کا ذریعہ ہیں ۔اس تفصیل کے پس پشت واقعہ یہ ہے کہ صفات ہی دراصل ذات تک یا معرفت ِ ذات تک رسائی کا واحد ذریعہ ہیں۔انسان کا علم صفات سے شروع ہوتا اور ذات پر یعنی اسم پر ختم ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ خالق ہے ، تو اس جملہ سے ہمیں یہ تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفت ِ خلق سے متصف ہے ، اس نے مخلوق پیدا کی ہے لیکن حقیقت خلق کیا ہے؟ اس کا علم اس سے بھی نہیں ہوتا اور نہ اس چیز کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ وہ اصلاً ہے کیا؟ علامہ سید سلیمان ندوی نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: ’’دنیا کے آغاز میں اللہ نے کہا تھا ہم نے آدم کو سب نام سکھائے۔ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور علم کی وسعت سے کہاں پہنچ گئی، مگر غور کیجئے تو ناموں کے ہیرپھیر سے ہم اب تک آگے نہیں بڑھے۔ یہی ہماری حقیقت رسی ہے اور یہی ہمارا فلسفہ ہے۔ ہم اپنے مفروضہ اصول منطقی کی بنیاد پر ذاتیات اور حقائق کے ذریعہ سے اشیاء کی تعریف کے مدعی بن گئے ہیں لیکن ہزاروں صدیاں گزرنے پر بھی ذاتی اور حقیقی تعریف (جدید منطقی) کی ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے۔ جو کچھ کرسکے وہ یہ کہ صفات، عوارض اور خواص کے مختلف رنگوں سے نئی نئی طفلانہ شکلیں بناتے اور بگاڑتے ہیں۔
جب مادیت کا یہ عالم ہے تو وراء الوریٰ ہستی میں ہماری بشری طاقت اس سے زیادہ تحمل کیونکر کرسکتی ہے؟ تجلی گاہِ طور اسی رمز کی آتشیں تصویر ہے۔ ہم اللہ کو بھی اس کے ناموں ، اس کے کاموں اور اسکی صفتوں ہی سے جان سکتے ہیں۔‘‘ (سیرۃ النبیؐ ،ج۴)