شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)عربی سے نابلد نمازیوں کے درمیان خطبہ کا ترجمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں (۲) نکاح کا ایک سوال (۳) طلاق کے تعلق سے ایک سوال (۴) قاعدہ میں بیٹھنا بھول گیا!
تین اور چار رکعت والی نمازوں میں قعدہ اولی ٰواجب ہے۔ تصویر: آئی این این
میں ایک مسجد میں امام ہوں۔ مصلیانِ مسجد کا اصرارہے کہ جمعہ کے دن جو عربی میں خطبہ ہوتا ہے، اس کا اُردو میں ترجمہ بھی کیا جائے۔ اذان کے فوراً بعد اُردو بیان شروع ہوجاتا ہے۔ بیان کے ختم ہونے کے بعدپانچ سے سات منٹ سنت کے لئے وقت دیاجاتا ہے، اس کے بعدعربی کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عربی خطبے کا اُردو ترجمہ کب کیا جائے؟ نماز ختم کرکے فوراً کردیا جائے؟یا دعا سے پہلے یاجب اُردو بیان شروع ہوتا ہے، اسی وقت کردیاجائے؟ اور اردو ترجمہ کرنابھی چاہئے یانہیں ؟ اُردو ترجمہ کی شرعی حیثیت کیاہوگی؟ شرعی طورپرکیاہوناچاہئے، براہ کرم تفصیل سے بتائیے۔ عبدالباری، اتراکھنڈ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: خطبہ، نماز جمعہ کے لئے شرط ہے جس کا سننا ہراس نمازی کے لئے ضروری ہے جو موجود ہے۔ جمعہ کا بیان بھی اہمیت رکھتا ہے اور فائدے سے خالی بھی نہیں لیکن یہ شرائط میں سے نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبے کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے کہ خطبے میں امام لوگوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے۔ اس صراحت کی رو سے خطبۂ جمعہ کے ترجمے کی اہمیت بھی ظاہر ہے۔ غیر عرب ممالک میں عام طور سے نمازی عربی سے نابلد ہوتے ہیں اس لئے ترجمہ کرکے بتانے میں حرج نہیں۔ بیان کے لئے وقت طویل ہو تو بیان کے آخر میں جن احکام کا خطبے میں ذکر ہو ان کا خلاصہ بتا دیا جائے۔ نماز کے بعد بھی ترجمہ یا احکام کا خلاصہ بتاسکتے ہیں، دعا سے پہلے بھی اور دعا کے بعد بھی، تاہم بہتر یہ ہے کہ بیان ہی میں دیگر تفصیلات کے بجائے وہ احکام و مسائل مختصراً بتادیئے جائیں جن کا اس دن کے خطبے میں ذکر آیا ہو۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نکاح کا ایک سوال
لڑکی کے نکاح کے وقت اجازت لینا کافی ہے یا لڑکی سے قبول کرانا بھی ضروری ہے؟عابد علی، یوپی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق : نکاح کے لئے ایجاب و قبول رکن ہیں اور گواہوں کا موجود رہ کر ایجاب وقبول کو سننا بنیادی شرط ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایجاب ہونے والے شوہر یا بیوی ہی کی طرف سے ہوں، زوجین میں سے کسی ایک کی طرف سے ایجاب اور دوسرے کی طرف سے قبول کا پایا جانا کافی ہے۔ پھر ایجاب وقبول زوجین کے وکلاء کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔ وکالت کی صورت یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک یا دونوں کسی اور کو اپنے نکاح کا وکیل بنادیں ۔ جو صورت عام طور پر رائج ہے وہ یہ ہے کہ عورت کا ولی یا دوسرا کوئی عزیز دو گواہوں کے ساتھ عورت سے اجازت لینے جاتا ہے۔ در اصل یہ وکیل بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ عورت نکاح کے مجمع میں خود موجود نہیں ہوتی اس لئے وکیل اجازت طلب کرتا ہے کہ اس کی مرضی ہو تو وکیل اس کی طرف سے نکاح کا ایجاب کرکے شوہر سے نکاح قبول کرالے (خود یا بذریعہ قاضی نکاح)۔ اس صورت حال میں صرف اجازت کافی ہے۔ لڑکی قبول کا محل نہیں ہے۔ اس کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ لڑکی صاف اور صریح الفاظ میں اجازت دے، صرف نکاح نامے پر دستخط کافی نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
طلاق کے تعلق سے ایک سوال
زید نے اپنی بیوی سے لڑائی کے موقع پر یہ الفاظ بول دیئے کہ ’’نکل، مَیں نے تجھے ایک طرف کردیا “اور یہ الفاظ زید نے تین مرتبہ کہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ان الفاظ سے تمہاری کیا نیت اور ارادہ تھا تو اس نے کہا کہ میری نیت اور میرا ارادہ دھمکانا اور تنبیہ کرنا تھا تاکہ یہ لڑائی جھگڑا کرنے سے باز آجائے۔ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی؟عبد اللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: طلاق کیلئے لفظ طلاق صریح ہے اس میں نیت نہیں دیکھی جاتی۔ اسی طرح کسی علاقے اور معاشرے میں بعض الفاظ محض طلاق کے لئے مستعمل ہوں، وہاں ان کا حکم بھی صریح کا ہے۔ صریح کے علاوہ کچھ الفاظ جن سے علاحدگی کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے وہ الفاظ کنایہ کہلاتے ہیں مگر ان میں تفصیل ہے اور بیشتر ان الفاظ سے نیت ِطلاق کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ طلاق کے لئے صریح نہیں ہیں ؛ کنایہ کے معروف الفاظ میں سے بھی کوئی لفظ نہیں ہے نیز وہ طلاق کی نیت کا بھی منکر ہے اس لئے سوال صحیح ہو تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
قاعدہ میں بیٹھنا بھول گیا!
ایک مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ چار رکعت والی نماز میں بیچ کے قاعدہ میں نہیں بیٹھا بلکہ بھول گیا اور چار رکعت پوری کرکے سلام پھیر دیا، فوری طور پریاد آیا کہ سجدۂ سہو نہیں کیا تو فوراً سجدۂ سہو کیا، اس صورت میں کیا نماز ہوگی یا نہیں ؟ فہیم اشرف، ممبئی
باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: تین اور چار رکعت والی نمازوں میں قعدہ اولی (دو رکعت کے بعد بیٹھ کر التحیات پڑھنا) واجب ہے، اگر سہواً بیٹھنا بھول گیا یا بیٹھا مگر التحیات نہیں پڑھی، اس صورت میں سجدۂ سہو لازم ہوجاتا ہے۔ سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد ایک طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرنے کے بعد دوبارہ تشہد (التحیات)اور درود شریف وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اگر کسی نے دونوں طرف سلام پھیر دیا اس کے بعد سجدۂ سہو یاد آیا تو اگر اس نے کوئی ایساکام نہیں کیا جو نماز کے منافی ہو( جیسے بات چیت وغیرہ ) تو یاد آتے ہی فوراً دو سجدے کرکے تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیردے۔ لہٰذا اگر صورت مسئولہ میں مصلّی نے کوئی نماز کے منافی عمل سے پہلے اس طرح سجدۂ سہو مکمل کرلیا ہے تو شرعاً نماز مکمل ہوگئی، اب اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم