رواداری اسلام کی ایک نمایاں اور منفرد شناخت ہے۔ اسلام نے ہمیشہ انسانیت، عدل، اور باہمی احترام کا پیغام دیا ہے۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب امن و احترام کے ساتھ رہتے تھے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام نے ہمیں عدل، احترام اور خیر خواہی کا حکم دیا ہے، مگر ایمان اور توحید کے اصولوں پر کسی قسم کے سمجھوتے کی اجازت نہیں دی ہے۔ تصویر: آئی این این
رواداری اسلام کی ایک نمایاں اور منفرد شناخت ہے۔ اسلام نے ہمیشہ انسانیت، عدل، اور باہمی احترام کا پیغام دیا ہے۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب امن و احترام کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ ؐکی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو اس بات کا گواہ ہے کہ اختلافِ رائے کے باوجود دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا، نرم دلی سے پیش آنا، اور انصاف پر قائم رہنا ہی حقیقی اسلامی رواداری ہے۔ آج کے پرآشوب دور میں جب نفرتیں بڑھ رہی ہیں، اسلام کا یہی پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رواداری صرف اخلاقی خوبی نہیں بلکہ امت ِ مسلمہ کی شناخت ہے۔ رواداری کی ایک روشن مثال نبی اکرمؐ کی اس حدیث میں ملتی ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی غیر مسلم (ذمی) کو تکلیف دی، اس نے گویا مجھے تکلیف دی۔ ‘‘(رواہ الطبرانی)
یہ حدیث اسلامی رواداری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں رواداری صرف اپنے ہم مذہب افراد تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت تک پھیلی ہوئی ہے۔
لیکن یہاں سمجھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ رواداری کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمان اپنے عقیدے اور توحید کے اصولوں سے سمجھوتہ کرے یا کفریہ و شرکیہ اعمال میں کسی بھی طور شریک ہو جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’وہ تو چاہتے ہیں کہ (دین کے معاملے میں ) آپ (بے جا) نرمی اِختیار کر لیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔ ‘‘ (سورۃ القلم:۹) اس آیت میں صاف تنبیہ ہے کہ ایمان کے معاملے میں سمجھوتہ جائز نہیں۔ نبی اکرمؐ نے بھی کبھی باطل کے ساتھ اس معاملے میں مصالحت نہیں کی، اگرچہ دشمنوں نے بارہا یہ پیشکش کی کہ ایک دن آپؐ ان کے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک دن وہ آپؐ کے رب کی۔ قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں اسی کی تردید کی ہے: ’’تمہارے لئے تمہارا دین، اور میرے لئے میرا دین۔ ‘‘ (سورۃ الکافرون:۶) لہٰذا اسلام کی رواداری کا مطلب دوسروں کے عقائد کا احترام ہے، ان میں شرکت نہیں کیونکہ عقیدۂ توحید پر ثابت قدم رہنا ہی ایمان کی اصل روح ہے۔
اس تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں ایک طرف یہ بات ہمارے لئے نہایت اہم ہے کہ ہم غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کریں، وہیں دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس رواداری کی حدود کو بھی سمجھیں کیونکہ اسلام نے ہمیں عدل، احترام اور خیر خواہی کا حکم دیا ہے، مگر ایمان اور توحید کے اصولوں پر کسی قسم کے سمجھوتے کی اجازت نہیں دی ہے۔ لہٰذا رواداری کے نام پر دوسروں کے مذہبی عقائد یا عبادات میں شرکت نہ کریں، ہاں !اختلاف کے باوجود اخلاق، انصاف اور انسانیت کا مظاہرہ کریں جیسا کہ نبی اکرم ؐ نے اپنی سیرتِ طیبہ میں کر کے دکھایا۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ایمان کی سرحدیں مقدس اور ناقابلِ عبور ہیں، اگر غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر ’’سد بھاؤنا منچ‘‘ جیسے پلیٹ فارم کے ذریعے باہمی احترام، ہم آہنگی اور انسانی اخوت کا پیغام دیا جائے، تو یہ عمل درست اور شرعاً جائز ہے جس میں شرکت کرنی چاہئے۔ یہی متوازن رویہ دراصل اسلامی رواداری کا حقیقی نمونہ ہے۔ گزشتہ دِنوں جب دیوالی منائی جارہی تھی تب اس چشم گناہگار نے دیکھا کہ بہت سے مسلمان میں پٹاخہ بازی میں پیش پیش تھے۔ یہ اس لئے درست نہیں کہ یہ پیسے کا زیاں ہے اور اس سے سوائے صوتی و فضائی آلودگی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے کہیں کہیں آتشزدگی جیسے حادثے بھی رونما ہوتے ہیں جو جان و مال کے اتلاف کا سبب بنتے ہیں۔ اس لئے، دیوالی پر پٹاخہ بازی سے پرہیز کرنا چاہئے جس کی تلقین حکومت کی جانب سے بھی کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس عمل کی حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ ہمارے لئے غیر مسلم روایات کو بڑھاوا دینا کہیں سے بھی دانشمندی نہیں۔ اسے رواداری کا مظاہرہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ رواداری یہ ہے کہ آپ مل جل کر رہیں، دوسروں کی مدد کریں، اُن سے مدد لیں، اُن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں اور کہیں نزاع پیدا ہوجائے تو اسے حکمت کے ساتھ فرو کرنے کی کوشش کریں۔
جہاں تک غیر اسلامی روایات اور رسومات کا معاملہ ہے تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جب غیر اسلامی رسومات اور چیزیں ہمارے گھروں میں داخل ہو جاتی ہیں تو ان کا اثر صرف ظاہر تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ ہمارے ایمان اور روحانیت کو بھی کمزور کرنے لگتی ہیں۔ ایمان کی روشنی آہستہ آہستہ مدھم ہونے لگتی ہے اور گھروں سے برکت و سکون رخصت ہونے لگتا ہے۔ جو گھر کبھی ذکر ِ الٰہی، نماز اور نیکیوں سے روشن ہوتا ہے، وہ رفتہ رفتہ دنیاوی نام ونمود و نمائش اور غیر اسلامی اثرات کا شکار بن جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھروں کو اسلامی اقدار کا گہوارہ بنائیں۔