یہ واحد دستور زندگی اور رہنما اصول ہے جس کے مطابق انسان زندگی گزار کر اپنی حیات فانی کو بھی جنت نما بنا لیتا ہے۔
عبادت صرف مسجد تک محدود نہیں، بلکہ ہر نیک عمل عبادت ہے۔ تصویر: آئی این این
دین اور مذہب میں فرق یہ ہے کہ مذہب عام طور پر صرف عبادات، عقائد، رسم و رواج تک محدود ہوتا ہے جیسے نماز روزہ حج اور زکوٰۃ اور مراسم عبودیت ہمیں کس طرح ادا کرنی ہے وغیرہ جس سے عام طور پر دنیا کے کسی انسان کو اعتراض، الجھن اور کسی طرح کا کوئی مسئلہ اور رکاوٹ نہیں جیسے یورپ میں عیسائی حضرات چرچ کو مسلمانوں کے ہاتھوں بیچ کر نماز کے لئے مسجد بنانے کے بہت سارے واقعات موجود ہیں۔ جبکہ دین ایک مکمل نظام زندگی جو زندگی کے ہر پہلو، سیاست، معیشت، معاشرہ، اخلاق، قانون، عدل و انصاف، مساوات و برابری سب چیزوں میں ہدایت دیتاہے جس سے مخالفین کو ان کے مزاج کے مطابق دقت، پریشانی اور رکاوٹ ہے۔
اسلام محض چند عبادات یا رسوم کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل دینِ فطرت ہے جو انسان کی پوری زندگی کو منظم کرتا ہے۔ دین زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۹)
اسلام نے انسان کو یہ سکھایا ہے کہ عبادت صرف مسجد تک محدود نہیں، بلکہ ہر نیک عمل عبادت ہے اگر وہ اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو ’’نظامِ حیات‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں توازن، عدل اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔ لہٰذا اسلام کوئی محدود مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی کا مکمل دستور ہے۔ جو لوگ اس پر مکمل ایمان و یقین نہیں رکھتے یا اسے محض نیکی اور ثواب تک یا صرف باعث برکت و رحمت جانتے ہیں، جس کی نیکی اور ثواب بلا شبہ مل کر رہے گی، لیکن اس کے مطابق زندگی نہیں گزارتے یا اس نسخۂ کیمیا سے رہنمائی نہ لےکر یا اس کو نامکمل رہنما سمجھ کر رہنمائی کسی اور دستور یا کتاب سے لیتے ہیں وہ اس زندگی میں بھی مضطرب و پریشان رہتے ہیں۔ حالانکہ اللہ اور اس کے پیارے نبی ؐ نے پیدائش سے لے کر موت تک کے لئے رہنما اصول واضح طورپر بتا دیئے ہیں۔ اگر کوئی انسان اس کے خلاف زندگی گزارتا ہے تو کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے تنبیہ کے طور پر آیات کا نزول فرما دیا ہے چنانچہ فرمایا گیا: ’’جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین یا رہنمائی کا کوئی اور راستہ تلاش کرے گا اس کا وہ دین قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ ‘‘(آل عمران:۸۵ )
اسلام وہی دین ہے جس کی تعلیم و تبلیغ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے دور میں کرتے رہے ہیں اور اس کی کامل ترین شکل نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کی جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس کی تعلیم نبی آخرالزماں ؐ نے دی ہے۔
صرف یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے اعمال کر لینا کافی نہیں اور نہ اس سے آخرت میں نجات ہی ملے گی۔ ایمان و اسلام یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، محمد رسولؐ اللہ سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے، ختم رسالت کو تسلیم کیا جائے نیز آپؐ کی لائی ہوئی شریعت، طریقہ ٔ عمل اور احکام پر مکمل طور پر بغیر کسی قیل و قال سر تسلیم خم کر لیا جائے جیسا کہ سورہ اعراف آیت ۱۵۸؍ میں فرمایا گیا:’’اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں ۔ ‘‘ سورہ انبیاء آیت ۱۰۷؍ میں ہے : ’’ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘
اسی دین کی تشریح کرتے ہوے رب ذوالجلال نے سورہ الشوریٰ آیت نمبر ۱۳؍ میں اس طرح فرمایا ہے : ’’اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوحؑ کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ (توحید کی بات) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے حضور میں منتخب فرما لیتا ہے، اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔ ‘‘ یعنی اپنا دین اپنا اصول اور اسلام کا درست راستہ اپنانے کی توفیق اور عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو خوش قسمتی کے ساتھ اس کی رہنمائی کا متلاشی ہو۔
لکھنے پڑھنے اور تقریرو تحریر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم اور ہمارا معاشرہ اسلام کے کتنے فرمودات پر کما حقہ عمل پیرا ہیں اور اسلام اور نبیؐ کے فرمان کے مطابق کتنا عمل کر رہے ہیں۔ کیا ہمارا جینا مرنا اور ہمارا طرز زندگی، شادی، بیاہ، خوشی اور غم اسلامی اصولوں کے مطابق ہے؟
پیارے نبیؐ کی ایک حدیث جس کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، امام بیہقی نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا، ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گے۔ کیا ہم اپنی بے عملی کی وجہ سے اُسی دور میں داخل ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ہیں ؟ کیا ہمیں اب بھی احساس نہیں کہ ہم نے اسلام کو سچے دین کی حیثیت سے عملاً قبول نہیں کیا بلکہ دُنیوی محبت میں حقیقی اسلام سے دور ہورہے ہیں ؟
آج مادیت اور مغربیت کے غلبہ اور چکاچوند میں اس کے ابتدائی آثار رونما ہو چکے ہیں۔ دن بہ دن عملی طور پر اسلامی معاشرت اسلامی تمدن و ثقافت اور اسلامی روایات دم توڑ رہی ہیں ، اور لوگ عملاً دین سے دور ہو رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔