• Thu, 30 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

لفظوں کی دُنیا بہت گہری ہے، کبھی غور کیجئے!

Updated: October 30, 2025, 5:08 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

زندگی دراصل الفاظ کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک طویل تحریر ہے۔ کبھی ایک لفظ انسان کو جہنم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے، اور کبھی ایک جملہ اسے افلاک کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔

Every compliment can bring life to a heart and every insult can bring a soul closer to death. Photo: INN
ہر تعریف کسی دل میں زندگی ڈال سکتی ہے اور ہر تحقیر کسی روح کو موت کے قریب لے جا سکتی ہے۔ تصویر: آئی این این
زندگی دراصل الفاظ کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک طویل تحریر ہے۔ کبھی ایک لفظ انسان کو جہنم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے، اور کبھی ایک جملہ اسے افلاک کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ انسان کی باطنی ساخت اس قدر لطیف اور حساس ہے کہ زبان کی ضربیں کبھی دل کے خلیوں تک جا پہنچتی ہیں اور کبھی ایک جملہ روح کے زخموں پر مرہم بن جاتا ہے۔ 
مجھے یاد ہے، ہم دونوں ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ لڑکا غیرمعمولی ذہانت اور فطانت کا پیکر تھا۔ جیسے ذہنِ انسانی کی پوری قوتیں اس کے دماغ میں مجتمع ہوں۔ کلاس میں جب بھی نتیجہ آتا، اس کا نام ہمیشہ فہرست ِ اول میں ہوتا۔ روشن چہرہ، مطالعے میں انہماک اور سوال کرنے کی جرأت سب کچھ اس کے اندر ایک غیرمعمولی مستقبل کا پتہ دیتے تھے۔ 
وقت گزرا، ہم نے ایک ہی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ دنیا اس کے لئے کھلی کتاب تھی، مگر ایک دن وہ واقعہ پیش آیا جس نے اس کی زندگی کی سطریں بدل ڈالیں۔ 
کلاس میں اس نے ایک علمی سوال کیا، ایک ایسا سوال جس میں جستجو کی آگ تھی۔ مگر استاد کا جواب غیرمتوقع تھا۔ اس کے بعد آنے والے امتحان میں اتفاقاً اس کے نمبرات اچھے نہ آئے۔ استاد، جو کبھی اس کی ذہانت پر فخر کیا کرتا تھا، اس دن غضبناک ہوگیا۔ اس نے نہ صرف تنقید کی بلکہ اپنی زبان کے تیروں سے اس کے وجود کو چھلنی کر دیا۔ کہا:’’تم کسی لائق نہیں ! اپنے ماں باپ کے سہارے پلنے والے نالائق! تم کچھ بھی نہیں بن سکتے! “یہ جملہ گویا ایک خنجر تھا جو الفاظ کے غلاف میں لپٹا ہوا تھا۔ ایک لمحے میں اس کے اندر کی دنیا اجڑ گئی۔ وہ جو علم کا متلاشی تھا، اب مایوسی کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔ 
میں نے دیکھا، وہ یونیورسٹی چھوڑ چکا تھا۔ وہ سڑکوں پر بھٹکتا، جیسے زندگی کا مفہوم گم ہوگیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھے مگر جواب کہیں نہ تھے۔ پھر ایک دن تقدیر نے نیا باب کھولا۔ اسی یونیورسٹی کا ایک دانا، ایک دوررس فلسفی پروفیسر اس کے پاس سے گزرا۔ وہ رکا، اس کی جانب بھرپور نگاہ کی اور اس کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھی جو مایوسی کی گرد میں چھپی ہوئی تھی۔ 
وہ اسے گھر لے آیا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ کہا: بیٹے! مجھے تمہارے اندر البرٹ آئنسٹائن نظر آ رہا ہے۔ تمہاری لغزش تمہاری ناکامی نہیں، تمہاری ابتداء ہے۔ “
یہ جملہ اس کے لئے مثل ِ آبِ حیات ثابت ہوا۔ اس کے اندر دبی ہوئی توانائی پھر سے بیدار ہوگئی۔ اس نے خود کو نئے جوش سے پڑھائی میں جھونک دیا۔ علم اس کے لئے اب صرف مضمون نہیں رہا، ایک عبادت بن گیا۔ 
سال گزرتے گئے، اور آج وہ جرمنی کی نامور Theoretical Physics University کا صدر ہے۔ وہی شخص، جس کیلئے کہا گیا تھا کہ ”تم کچھ نہیں بن سکتے۔ “
یہ واقعہ محض ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ انسانی فطرت کی ازلی داستان ہے۔ کبھی کبھی ایک تلخ جملہ انسان کو مٹی میں دفن کردیتا ہے، اور کبھی ایک محبت بھرا لفظ اسے ازسرِنو تخلیق کر دیتا ہے۔ یہی وہ کیمیاءِ الفاظ ہے جس پر پوری تہذیبیں تعمیر اور برباد ہوتی ہیں۔ 
انسان کا ذہن دراصل ایک لطیف رشتہ ہے سبب اور اثر کا۔ جو کچھ وہ سنتا ہے، وہی اس کے اندر اثر ڈالتا ہے۔ الفاظ دروازہ کھولتے ہیں، اور انسان کا رویہ اس کے بعد کے عمل کی تصویر بن جاتا ہے۔ اگر سنے گئے الفاظ منفی ہوں تو دل میں زہر گھل جاتا ہے، سوچ بگڑ جاتی ہے، اور کردار اپنی روشنی کھو بیٹھتا ہے۔ لیکن اگر الفاظ میں روشنی ہو، امید ہو، حوصلہ ہو، تو یہی روشنی انسان کے عمل میں در آتی ہے، اور وہ خود چراغ بن جاتا ہے۔ 
لفظ، بظاہر معمولی سا وسیلۂ اظہار ہے، مگر اس کے پیچھے ایک تخلیقی قوت چھپی ہوتی ہے۔ کائنات کا آغاز بھی ایک لفظ ”کن“ سے ہوا تھا۔ اس ایک حکم سے وجود کے دروازے کھل گئے۔ یہی راز انسان کی فطرت میں بھی رکھا گیا ہے کہ اس کا لفظ، اس کی نیت اور اس کی زبان کسی دوسرے کے وجود پر اثر ڈال سکتی ہے، اسے توڑ بھی سکتی ہے اور بنا بھی سکتی ہے۔ 
 ایک حدیث مبارکہ ہے: ”(حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور (حقیقی) مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں امان حاصل ہو۔ “( بخاری ومسلم )
 یہ حدیث ایمان اور اسلام کی عملی بنیاد واضح کرتی ہے۔ اسلام محض عقیدہ نہیں بلکہ کردار اور عمل کا نام ہے۔ ایک مسلمان کی پہچان صرف نماز، روزہ یا ظاہری عبادت سے نہیں ہوتی بلکہ اس بات سے ہوتی ہے کہ اس کے الفاظ اور عمل دوسروں کے لئے امن کا ذریعہ ہیں یا تکلیف کا۔ زبان اگر نرمی اور خیر میں استعمال ہو تو معاشرہ جنت بن جاتا ہے، اور اگر وہ زہر بن جائے تو تعلقات، عزتیں اور دل سب جل جاتے ہیں۔ 
زبان کو اکثر دل کا ترجمان کہا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ تقدیر کا قلم ہے۔ ہم جو کچھ بولتے ہیں، وہ کسی نہ کسی کے مقدر کی لکیر بن جاتا ہے۔ ہمارے لفظ کسی کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں یا ان میں نمک بن کر جلنے لگ سکتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ بصیرت ہمیشہ زبان کو ایک امانت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ الفاظ ہی ہیں جو روح کو بیدار کرتے یا مایوس کرتے ہیں۔ 
لفظوں کی دنیا بہت گہری ہے۔ ہر تعریف کسی دل میں زندگی ڈال سکتی ہے اور ہر تحقیر کسی روح کو موت کے قریب لے جا سکتی ہے۔ انسان محض جسم سے نہیں بنتا، بلکہ ان لفظوں سے بنتا ہے جو وہ سنتا ہے، جو اس کے دل پر اثر ڈالتے ہیں، اور جن کے معنی اس کے شعور میں رچ بس جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد بکھرے جملوں، دئیے گئے معنی اور کہے گئے جملوں سے اپنی پہچان تراشتا ہے۔ یہی اس کی اصل تعمیرہے، لفظوں کی بنیاد پر وجود کی عمارت۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK