• Thu, 30 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

احکام ِ الٰہی دوسروں تک پہنچانے سے پہلے معاف کرنا اور درگزر کرنا سیکھئے

Updated: October 30, 2025, 4:54 PM IST | Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai

سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۹۹؍میں فرمایا گیا ہے کہ دین کی دعوت دینے، اچھائی، نیکی، بھلائی، سچائی، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیماتِ اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں مگر اس سے قبل طبیعت کو بدلیں۔

When the nature does not change but the injunctions of Shariah continue to be implemented, then there is reward because even copying involves effort, but no revolution occurs within and the mind does not change. Photo: INN
جب طبیعت نہ بدلے مگر شریعت کے احکام پر عمل درآمد ہوتا رہے تو اس سے ثواب تو ملتا ہے اس لئے کہ نقل میں بھی ایک محنت ہےمگر باطن میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا اور مَن تبدیل نہیں ہوتا۔ تصویر: آئی این این
للہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’(اے حبیب مکرم!) آپ در گزر فرمانا اختیار کریں اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ ‘‘(الاعراف:۱۹۹)
اس آیت کریمہ میں تین احکامات مذکور ہیں :
(۱) اللہ رب العزت نے عفو و درگزر اپنانے اور لوگوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزر کرنے کا طرزِ عمل اپنانے کا حکم دیا ہے۔ 
(۲) لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی دعوت و تبلیغ کرنے کا حکم دیا ہے، اور 
(۳) تبلیغ و اشاعت ِ دین، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے دوران اگر کوئی برے طریقے سے ردعمل دے، ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو تکلیف دہ ہو اور Stressful ہو تو ان لوگوں کو اسی طرح جواب نہ دینے اور ان کی جہالت، اکھڑ پن، زیادتی اور نا مناسب رویہ کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی ان کے منفی یا دل آزردہ ردِعمل پر صبر کرنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا۔ 
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خُذِالْعَفْوَ کے ذریعے واضح فرما دیا کہ سب سے پہلے خود معاف کرنے والے بنو اور معاف کرنے کا سلیقہ سیکھو۔ پھر اس کے بعد وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ کے مصداق اسلام کی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچانے کا عمل شروع کرو۔ آیتِ کریمہ کی اس ترتیب سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات دوسروں تک پہنچانے سے پہلے معاف کرنا اور درگزر کرنا سیکھنا ہوگا۔ اس دوران اگر منفی ردعمل ملے جو دل کو ٹھیس پہنچائے تو وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ کے مصداق ایسے جاہلوں پر دھیان نہ دیں جو منفی جواب دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق اپنے دل میں یہ سوچیں کہ وہ نہیں جانتے۔ 
یاد رکھیں ! یہ تینوں چیزیں محض شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ طبیعت کو بدلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہیں :
 نافرمان: وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے احکام پر عمل نہیں کیا۔ ان کی زندگی میں اللہ کا خوف بھی نہ رہا، دین کی اہمیت بھی نہیں رہی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ان کی زندگی بن گئی۔ 
 فرمانبردار: وہ لوگ جو اللہ، اس کے رسول اور شریعت کے تابعدار ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں یہ انتخاب کرلیا ہے کہ ہم دین کے مطابق چلیں گے۔ انہوں نے شریعت، اللہ کے احکامات پر عمل اور اس کے فرمانبردار اور اطاعت گزار بندہ بننے کے راستے کو اختیار کیا ہے۔ 
شریعت پر عمل کرنا ان لوگوں کے لئے آسان ہے جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ ہے۔ وہ لوگ جو جانتے اور سمجھتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اطاعت گزار اور فرمانبردار بننا چاہتے ہیں اور جو پہلے ہی سیدھے راستے پر ہیں، ان کے لئے شریعت پر عمل کرنا آسان ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ نہ ہو، ان کے لئے اپنی طبیعت اور مزاج و عادت کو بدل کر احکاماتِ الہٰیہ کی طرف متوجہ ہونا مشکل ہے۔ 
فرمانبردار لوگوں کے لئے نافرمان لوگوں کی نسبت شریعت پر عمل کرنا آسان ہے۔ ان کے لئے مشکل امر اپنی طبیعت کو بدلنا ہے۔ جب یہ طبقہ اپنی طبیعت نہیں بدلتا، تو شریعت پر عمل کرنے سے ملنے والے فیوض و برکات سے نفع نہیں اٹھا سکتا اور جو نفع شریعت پر عمل سے انہیں ملنا چاہئے تھا، وہ اس سے محروم رہتا ہے۔ 
طبیعت کیا ہے؟
شریعت کے بارے میں ہم میں سے ہر ایک اپنے علم کے مطابق آگاہ ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنا اور اس کی منع کی گئی باتوں پر عمل نہ کرنا، شریعت ہے جبکہ طبیعت کے بارے میں زیادہ لوگ علم نہیں رکھتے جس کے سبب ہم اس کی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتے۔ یاد رکھیں ! انسانی جسم کے ظاہر کو صورت کہتے ہیں اور انسان کی باطنی شخصیت کو طبیعت کہتے ہیں۔ یہی طبیعت کبھی سیرت کہلاتی ہے اور کبھی اسے فطرت بھی کہتے ہیں۔ اگر اس کو مزید خاص کرنا چاہیں تو انسان کے اندر موجود خصلتیں اور خوبیاں طبیعت کہلاتی ہیں۔ 
انسان کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ایک ظاہری وجود رکھتا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہے۔ ظاہری وجود ہمارے تمام اعضاء پرمشتمل ہے، جن کے ذریعے ہم اپنی زندگی کے امور انجام دیتے ہیں۔ جبکہ ہماری باطنی شخصیت تین امور پر منحصر ہے:
(۱) نفس: ہمارا نفس کس طرح سوچتا ہے؟ کیا چاہتا ہے اور کیسے کام کررہا ہے؟ (۲) عقل: دماغ کیا سوچتا ہے، کس طرح سوچتا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے؟ (۳) دل: دل کی خواہش کیا ہے، یہ خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے اور دل کس طرح اس کی طرف راغب ہوتا ہے؟
یہ تینوں چیزیں الگ الگ بھی ہیں مگر ان کے نتیجے میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، اسے طبیعت کہتے ہیں۔ اسی طبیعت سے مزاج جنم لیتا ہے اور پھر اس مزاج سے اخلاق جنم لیتا ہے۔ اس طرح ہماری طبیعت اور اخلاق سے ہماری باطنی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ 
گویا اصل میں طبیعت؛ نفس، عقل اور دل کے امتزاج کو کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے نفس، دماغ اور دل، ان تین چیزوں کو جمع کرنے سے جوInvisible Entity وجود میں آتی ہے، اسے طبیعت کہتے ہیں۔ 
 انسان کی اصل اس کی باطنی شخصیت ہے۔ اگر اصل ٹھیک نہ ہو تو احکامِ شریعت پر عمل کرنا نقل ہے۔ اگر باطنی شخصیت صحیح نہیں ہے تو شریعت کے احکام پر عمل کرنا کام نہیں دیتا، اس لئے کہ اصل ٹھیک نہیں۔ شریعت کو اپنانا آسان ہے مگر طبیعت کا بدلنا مشکل ہے۔ جب طبیعت نہ بدلے مگر شریعت کے احکام پر عمل درآمد ہوتا رہے تو اس سے ثواب تو ملتا ہے اس لئے کہ نقل میں بھی ایک محنت ہےمگر باطن میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا اور مَن تبدیل نہیں ہوتا۔ شریعت کی فرمانبرداری جتنی اعلیٰ ہوتو یہ جنت میں لے جاتی ہےاور اگر طبیعت اعلیٰ ہوجائے تو وہ اللہ سے ملا دیتی ہے۔ شریعت جنت تک لے جاتی ہے اور اگر شریعت؛ طبیعت بن جائے تو طبیعت بندے کو مولیٰ تک لے جاتی ہے۔ 
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے یہ بات سمجھائی ہے کہ دین کی دعوت دینے، اچھائی، نیکی، بھلائی، سچائی، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیماتِ اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں مگر اس سے قبل طبیعت کو بدلیں۔ خُذِالْعَفْوَ میں طبیعت ہے اور وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ میں شریعت ہے۔ اپنی طبیعت سنوارے بغیر جو شریعت کا حکم دے گا، اسے ثواب تو ملے گا مگر لوگ تبدیل نہیں ہوں گے۔ تبلیغ ہوگی مگر تاثیر نہیں ہوگی۔ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں پہلے اپنا رویہ ٹھیک کرنے کا حکم دیا ہے۔ دعوتِ دین شروع کرنے سے پہلے دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنا سیکھیں اور اچھے اخلاق، ہمدردی اور محبت اختیار کریں، تب ہی دعوت اور تبلیغ مؤثر، فائدہ مند اور کارآمد ثابت ہوگی۔ 
 یہ انسانی فطرت ہے لوگ تبلیغ، تقریر اور خطاب سے اتنا اثر نہیں لیتے، جتنا سیرت و کردار سے اثر لیتے ہیں۔ جو تبلیغ کے ذریعے ہم کہنا چاہتے ہیں اگر وہ ہمارے اندر نظر آئے اور ہم وہ کر رہے ہوں تو اسے دیکھ کر لوگ جلد بدلتے ہیں اور اس کا اثر لیتے ہیں۔ اس لئے اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے فرمایا:
”فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔ ‘‘(الاحزاب:۲۱)
خطباء، مبلغین، واعظین، اساتذہ، وارثانِ منبر و محراب، سوشل میڈیا کے محاذ پر سرگرم اسکالرز، طلباء و طالبات اور والدین یاد رکھ لیں کہ اگر ہمارےکئے اور کہے ہوئے میں مطابقت نہ ہو تو اس سے لوگ دین سے متنفر ہونگے۔ جس شخص کے کئے اور کہے میں تضاد ہے، اس کی زبان سے لوگ اور نوجوان نسل جب دین کی تعلیمات کو سنیں گے تو ان کی نفرت اس شخص سے نہیں بلکہ دین سے بھی ہوگی۔ وہ اس بات سے بھی متنفر ہو جائیں گے جو اس نے کہی ہے۔ وہ سمجھیں گے کہ یہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ یہ بظاہر؛ اچھا بننے، لوگوں سے نیکی کرنے، لوگوں کو معاف کرنے، درگزر کرنے، دل وسیع رکھنے، رحمت و شفقت سے پیش آنے، سچ بولنے، کسی کی بے عزتی و توہین نہ کرنے، ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرنے، سخاوت کرنے، ادب کرنے، مہذب زبان استعمال کرنے، کسی کو گالی نہ دینے کا کہہ رہا ہے اور قرآن مجید و حدیث و سنت نبوی کی تعلیمات کی تبلیغ کررہا ہے مگر اس تعلیم دینے والے کے اپنے اندر غصہ بھی بھڑک رہا ہے، وہ ہر ایک پر تنقید بھی کررہا ہے، وہ دوسروں پر تہمت بھی لگا رہا ہے، الزام تراشی بھی کر رہا ہے، فتوے بھی لگا رہا ہے، کافر بھی بنا رہا ہے، اسلام سے بھی نکال رہا ہے، اس کی طبیعت میں جمہوری رویہ بھی نہیں ہے، اچھا رویہ بھی نہیں ہے، اخلاقی اقدار بھی نہیں ہیں، صبر بھی نہیں ہے، خود پر قابو بھی نہیں ہے اور انسانیت بھی نہیں ہے۔ نتیجتاً اس کی شخصیت کے اس تضاد یعنی قول و فعل کے تضاد کے باعث نوجوان اس دین کے پیغام سے متنفر ہو جائیں گے جو وہ دے رہا ہے۔ 
یہ المیہ امت ِ مسلمہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ تبلیغ کا اثر کیوں نہیں ہورہا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغ کرنے والے خود شریعت کی بات کررہے ہیں لیکن ان کی اپنی طبیعت؛ شریعت سے متضاد ہے۔ اس سبب سے لوگ دین سے متنفر ہوتے ہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں پہلے طبیعت کی بات کی اور بعد میں شریعت کی بات کی۔ جب فرمایا معاف کرنے والے بنو تو یہ بھی احکامِ شریعت میں سے ہی ایک حکم ہے مگر ایک ایسا حکم ہے جو طبیعت کو بدل رہا ہے، طبیعت کی تنگی دور کر رہا ہے اورطبیعت سے غصہ نکال رہا ہے۔ جس آدمی کی طبیعت میں غصہ ہے، وہ دوسرے کو معاف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ بظاہر زبان سے معاف کر بھی دے مگر اس کا دل معاف نہیں کر رہا ہوگا، اس لئے کہ اس کے اندر گھٹن ہے۔ پس جس بندے کی طبیعت میں گھٹن ہے، وسعت نہیں ہے تو اس کا دین کی تبلیغ کرنا کوئی بھی اثرات مرتب نہیں کرتا۔ 
اس کے بعد پھر فرمایا: واعرض عن الجاھلین؛ جب طبیعت کو بدل کر شریعت کا حکم آگے پہنچائیں گے تو پھر استقامت بھی چاہئے۔ اس لئے کہ بے شک تبلیغ کرنے والے نے برا بھلا کہناچھوڑ دیا، دوسروں کو للکارنا، چیلنج کرنا اورالزام دینا چھوڑ دیااور ہر مثبت طریقہ اپنالیا، لیکن ابھی چیلنجز باقی ہیں۔ اسلئے کہ اچھی اور مثبت بات، شریعت کا پیغام اور تبلیغ کے جواب میں منفی ردعمل آئے گا۔ ممکن ہے لوگ منفی جواب دیں تو اس مرحلہ پر جاہلوں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ ان سے نہ الجھیں اور نہ رد عمل دیں بلکہ انہیں نظر انداز کریں۔ یہی بہتر طریقہ ہوگا جس کی بایت اوپر بتایا جاچکا ہے کہ ایسے لوگوں کے متعلق سوچیں کہ وہ نہیں جانتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK