یہ حقیقت ہے کہ دین کے احکام کا تین چوتھائی حصہ حقوق العباد سے متعلق ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج اپنی زندگی میں ہم لوگوں نے حقوق العباد سے متعلق شریعت کے احکام کو اس طرح پیچھے ڈال دیا ، گویا کہ یہ دین کا حصہ ہی نہیں ۔
EPAPER
Updated: September 08, 2023, 1:22 PM IST | Mufti Muhammad Taqi Usmani | Mumbai
یہ حقیقت ہے کہ دین کے احکام کا تین چوتھائی حصہ حقوق العباد سے متعلق ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج اپنی زندگی میں ہم لوگوں نے حقوق العباد سے متعلق شریعت کے احکام کو اس طرح پیچھے ڈال دیا ، گویا کہ یہ دین کا حصہ ہی نہیں ۔
’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ، لغویات سے دور رہتے ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو اُن کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں ) وہ قابل ملامت نہیں ہیں ، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں ، اوراپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں ۔‘‘
سورہ المومنون کی آیات نمبر ایک تا ۸؍ میں در حقیقت اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ دین اسلام کا مطالبہ صرف ” عبادات‘‘ ادا کر کے پورا نہیں ہوتا، کہ عبادتیں ادا کرلیں ، نماز پڑھ لی، رمضان کے روزے لکھ لئے، زکوٰۃ ادا کر دی اور ذمہ داری پوری ہوگئی۔یاد رکھنا چاہئے کہ دین کا بہت بڑا اور اہم حصہ وہ ہے، جس کو ’’ حقوق اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
حقوق العباد کی رعایت
موضوع پر آنے سے قبل آئیے یہ سمجھ لیں کہ ’’ حقوق العباد‘‘ یعنی کیا؟ اس کا معنی ہے ”بندوں کے حقوق‘‘ اور بندوں کے حقوق کی پاسداری اور رعایت اتنی ہی ضروری ہے جتنی رعایت اور پاسداری اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ضروری ہے۔ اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق یعنی عبادات ادا کرتا ہے لیکن بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو محض عبادتوں کے انجام دے لینے سے وہ شخص نجات اور فلاح نہیں پاسکتا، جب تک کہ وہ حقوق العباد کو بھی اللہ تعالیٰ کے بیان کئے ہوئے طریقے کے مطابق ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ نے حقوق العباد کو بہت زیاد اہمیت دی ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ اسلام کی تمام تعلیمات اور اسلام کے سارے احکام جس علم میں جمع کر دیئے جاتے ہیں اس کو ’’علم فقہ‘‘ کہتے ہیں ۔ گویا کہ علم فقہ میں شریعت کے احکام بیان کئے جاتے ہیں کہ کون سا کام جائز ہے، کون سا نا جائز ہے، کون سی چیز حلال ہے، کون سی چیز حرام ہے۔ ’’فقہ ‘‘کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ، اس کا ایک چوتھائی حصہ تو عبادات ( مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ سے متعلق ہوگا) مگر تین چوتھائی حصہ حقوق العباد سے متعلق ہوگا۔
حقوق العباد کی طرف دھیان نہیں !
آپ نے فقہ کی مشہور کتاب’’ ھدایہ‘‘ کا نام سنا ہوگاجو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد عبادت سے متعلق ہے، یعنی طہارت ، نماز، زکوٰۃ، روزہ ، حج اور باقی تین جلدیں حقوق العباد سے متعلق ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ جب تک میرے پیدا کئے ہوئے بندوں کے حقوق ادا نہیں کرو گے ، میرا حق بھی اس وقت تک ادا نہیں ہوگا۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دین کے احکام کا تین چوتھائی حصہ حقوق العباد سے متعلق ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کی ہماری زندگی میں ہم لوگوں نے حقوق العباد سے متعلق شریعت کے احکام کو اس طرح پیچھے ڈال دیا ، گویا کہ یہ دین کا حصہ ہی نہیں ۔ نماز پڑھ لی، روزہ رکھ لیا، زکوٰۃ ادا کر دی، تسبیح اور وظائف پڑھ لئے، اور سمجھے کہ بس اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہو گیا۔ بندوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کرنا چاہئے، بندوں کے کیا حقوق ہمارے ذمہ عائد ہیں ، اس کی طرف دھیان اور التفات نہیں ۔ اگر کسی سے اس بارے میں کوئی گناہ بھی ہو جاتا ہے تو وہ اس کو گناہ سمجھتا ہی نہیں ، اگر گناہ سمجھ لیا تو اس پر ندامت نہیں ہوتی۔ اس گناہ پر توبہ کی توفیق نہیں ہوتی اور اس گناہ کو چھوڑنے کا احساس ہوتا ہے نہ ہی فکر بیدار ہوتی ہے۔
حقوق اللہ تو بہ سے معاف ہو جاتے ہیں
حقوق العباد کا معاملہ بڑا سنگین اور نازک ہے، وہ یہ کہ اگر کسی مسلمان سے حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا کوئی غلطی ہو جائے، مثلاً کوئی گناہ سرزد ہو گیا تو اس کا معاملہ یہ ہے کہ جب کبھی ندامت ہو جائے، اور شرمندگی ہو جائے اور توبہ کی توفیق ہو جائے تو صدق دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرلے کہ استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ ’’ یا اللہ مجھ سے غلطی ہوگئی ، میں آپ سے تو بہ کرتا ہوں ، معافی مانگتا ہوں ، یا اللہ مجھے معاف فرما دے ، تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ گناہ معاف ہو جائے گا۔ اور اس طرح معاف ہوجائیگا جیسے حضورؐ اقدس نے فرمایا کہ: ’’جو شخص کسی گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسا ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہیں ۔‘‘ (ابن ماجه، کتاب الزهد، باب ذكر التوبة)
نامہ ٔ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے
بزرگوں نے فرمایا کہ صرف اتنا نہیں ہوگا کہ وہ گناہ معاف ہو گیا بلکہ نامہ ٔ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اتنے رحیم و کریم ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس بندے کے گناہ کو معاف کر دیا تو میں اس کو قیامت کے دن رسوا بھی نہیں کروں گا، کہ اس کے نامہ ٔ اعمال میں وہ گناہ باقی رہے۔ جب اس بندہ نے توبہ کر لی تو اب نامہ اعمال ہی سے اس کو مٹا دیا۔ اب وہ گناہ نامہ اعمال کا حصہ ہی نہیں ، گویا کہ اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے …بہر حال ! حقوق اللہ سے متعلق کوئی بھی گناہ سرزد ہو، اس کی تلافی آسان ہے، وہ اس طرح کہ آدمی کو جب بھی توجہ ہو جائے تو وہ بیٹھ کر سچے دل سے توبہ کرلے۔
حقوق العباد سے متعلق قصور توبہ سے معاف نہیں ہوتا
لیکن اگر کسی بندے کا حق تلف ہوا، اس کی حق تلفی کی گئی، اور اس کا کوئی جانی حق، یا اس کا کوئی مالی حق کوئی آبرو کا حق کسی نے پامال کیا تو یہ صرف تو بہ کر لینے سے معاف نہیں ہوگا۔ فرض کیجئے کسی شخص نے دوسرے شخص کو جانی نقصان پہنچایا، اور ظلم کرتے ہوئے اس کو مارا، بعد میں خیال آیا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔ اب اگر یہ شخص گھر کے اندر بیٹھ کر تو بہ کر لے کہ یا اللہ! مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی، مجھے معاف کردیجئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تب تک معاف نہیں کروں گا جب تک کہ وہ بندہ جس کو تم نے مارا، وہ خود معاف نہ کر دے۔ جاکر پہلے اس سے معافی مانگو، اگر کسی کا مالی حق تم نے دبا لیا، اس کے پیسے ناجائز طریقے پر کھا گئے تو اب یہ محض تو بہ کر لینے سے معاف نہیں ہوگا، یا تو اس کی تلافی ہو، یا اس کو پیسے واپس کئے جائیں ، یا اس سے معاف کرائے۔ جب تک بندہ معاف نہیں کرےگا ، وہ گناہ معاف نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حق کو تو ایک لمحہ میں صرف تو بہ کرنے سے معاف فرما دیتے ہیں ، لیکن بندے کا حق اس وقت تک معاف نہیں کرتے جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے، اور جب تک اس بندے کے حق کی تلافی نہ کی جائے۔
نابالغ بچے کی حق تلفی کی سنگینی
اسی وجہ سے کہا گیا ہے اور آپ بھی اس سنگینی کو محسوس کریں گے کہ نابالغ بچے کے ساتھ کوئی حق تلفی ہوئی، مثلاً اسے ناحق مار دیا، یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کی معافی بہت مشکل ہے کیونکہ یہ گناہ تو بہ سے معاف نہیں ہوگا، اس لئے کہ بندے کا حق ہے، اور اگر بچے سے معاف کراؤ گے تو نا بالغ بچے کی معافی شرعا ً معتبر نہیں ۔ اگر وہ بچہ ہزار مرتبہ بھی کہے کہ میں معاف کرتا ہوں ، تب بھی وہ معاف نہیں ہوگا۔ اس لئے حقوق العباد جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے ذمہ فرض فرمائے ہیں، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اتنا سنگین بنایا ہے کہ اس سے بڑا خطرہ اور ڈر معلوم ہوتا ہے۔
بتاؤ مفلس کون ہے؟
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے سوال کیا کہ ذرا یہ بتاؤ کہ مفلس کون ہے؟ کس کو مفلس کہتے ہیں؟ بعض صحابہ کرام نے جواب میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! ہم مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پیسے نہ ہوں۔ اس زمانے میں سونے اور چاندی کے درہم اور دینار چلا کرتے تھے۔ جس کے پاس درہم نہ ہوں، جس کے پاس دینار نہ ہوں، وہ شخص مفلس ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مفلس وہ نہیں، یعنی حقیقی مفلس وہ نہیں جس کے پاس پیسے نہ ہوں، اس لئے اگر اس کے پاس آج پیسے نہیں ہیں، تو کل اس کے پاس پیسے آجائینگے۔ حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور اس حالت میں حاضر ہوگا کہ نمازیں، نفلیں، تلاوتیں، تسبیحات، وظائف، صدقات، خیرات، بے شمار نیک اعمال کا ڈھیر لے کر آیا ہوگا، اور اس کے نامہ اعمال میں یہ ساری نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی کہ ساری عمر وہ یہ نیک اعمال کرتا رہا لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ کیا کہ کسی شخص کا مال ناحق کھا لیا، کسی کو گالی دےدی، کسی شخص کی غیبت کردی، کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا، کسی کی جان پر حملہ کر دیا تو اس طرح بے شمار لوگوں کے حقوق تلف کئے ہوں گے۔ (مسلم شریف، کتاب البروالصلۃ)
یہاں تک کہ سارے اعمال ختم ہو جائینگے
جب حساب کتاب شروع ہوگا تو جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہوں گے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے سامنے جمع ہو جائیں گے کہ یا اللہ! اس نےہمارے حقوق غصب کئے ہیں، کوئی کہے گا کہ یہ شخص میرے پیسے کھا گیا، کوئی کہے گا کہ اس نے میری جان پر حملہ کیا تھا، کوئی کہے گا کہ اس نے میری آبرو پر حملہ کیا تھا، اس نے مجھے گالی دی تھی، اس نے میری غیبت کی تھی لہٰذا آپ ہمارے حقوق اس سے دلوائیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اس نے تمہارے جو حقوق ضائع کئے تھے، اس کی تلافی کے لئے یہاں درہم اور دینار نہیں یہاں کی کرنسی تو نیک اعمال ہیں۔ اب اس کی تلافی کی صرف یہ شکل ہے کہ یہ شخص جو نیکیوں کا انبار لے کر آیا ہے، تو جس جس کا حق اس نے ضائع کیا ہے، اس کے عوض اس کی نیکیاں ان کو دیتے رہو۔ چنانچہ ایک صاحب حق اس کی نمازیں لے جائیگا، اور دوسرا شخص اس کے روزے لے جائیگا، تیسرا شخص اس کے صدقات لے جائیگا، ایک شخص اس کا حج و عمرہ لے جائیگا، ایک شخص اس کی تسبیحات اور وظائف لے جائیگا۔ چنانچہ وہ شخص جتنے نیک اعمال لے کر آیا تھا ، وہ سب دوسرے لوگ لے جائینگے یہاں تک کہ سارے نیک اعمال ختم ہو جائیں گے۔
دوسروں کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں
اس کے بعد بھی اگر حق کا مطالبہ کرنے والے باقی رہ جائینگے تو وہ کہیں گے کہ ہمارا بھی حق دلوائیے، ہمیں تو ابھی تک حق نہیں ملا، تو اللہ تعالیٰ فرمائینگے کہ اب حقوق دلوانے کی ایک شکل ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ جو صاحب حق ہیں، ان کے نامہ اعمال میں جو گناہ ہیں، وہ گناہ اٹھا کر اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیئے جائیں۔
سرکار دو عالم ﷺ فرما رہے ہیں کہ حقیقی مفلس وہ ہے جو نیکیوں کے انبار لے کر آیا تھا، لیکن حقوق العباد کو تلف کرنے کے نتیجے میں وہ نیکیوں کے بجائے گناہوں کا انبار لے کر جائیگا،حقیقی معنی میں مفلس وہ ہے کہ اس کے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی سامان باقی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس انجام سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
حقوق العباد کے معاملے میں اللہ سے ڈرو
یاد رکھئے! حقوق العباد کا معاملہ اتنا نازک اور اتنا سنگین ہے، اور اتنا اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے بہت سارے شعبے رکھے ہیں، مثلاً والدین کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، عام مسلمانوں کے حقوق۔ یہاں تک کہ کافروں اور جانوروں کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے احکام عطا فرمائے ہیں۔ ان سب احکام پر عمل کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر فلاح حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین