Inquilab Logo Happiest Places to Work

آیاتِ سجدہ کا ترجمہ، تفسیر اور شانِ نزول (۵)

Updated: April 01, 2024, 1:25 PM IST | Dr. Muhammad Iqbal Khalil | Mumbai

اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

گیارہواں سجدہ (۲۴؍واں پارہ) 
 (ترجمہ) ’’ لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پروا نہیں، جو فرشتے تمہارے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔ ‘‘ (حم ٓ السجدہ ۴۱:۳۸)
اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ ‘‘(۴۱:۳۷) یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور ا س کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیا علیہم السلام جس توحید خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امرواقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہرنہیں ہے بلکہ دونوں ہی مجبورو لاچار ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں، اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہِ راست خود اُسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے۔ 
(تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۶۰۔ ۴۶۱)
گویا اب اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات یا جہالت پر اڑے رہیں تو پروا نہیں ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے جن کے ذریعے پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اس کی بندگی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔ 
بارہواں سجدہ (۲۷؍واں پارہ) 
(ترجمہ) ’’ جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔ ‘‘ (النجم ۵۳:۶۲)
یہ وہ مشہور آیت سجدہ ہے جس پر جب آپؐ نے بیت اللہ شریف میں سجدہ کیا تو آپؐ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے۔ اس سے پہلے کی آیات میں مکہ کے کفار کے غلط طرزِعمل پر ان کو ٹوکا گیا تھا کہ تم ’’ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گابجا کر انھیں ٹالتے ہو؟‘‘ (۵۳:۶۱) یعنی قرآن سن کر اس کا مذاق اُڑاتے ہو اور لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کیلئے زور زور سے گانا شروع کر دیتے ہو، جب کہ صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ تم ’’جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، ابن عباسؓ اور مُطَّلب بن ابی وداعہؓ کی متفق علیہ روایات ہیں کہ حضوؐر نے جب پہلی مرتبہ حرمِ پاک میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپؐ نے سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گرگئے۔ (بخاری)
سیرت النبیؐ کی مشہور کتاب الرحیق المختوم میں یہ واقعہ یوں رقم ہے: ہجرتِ حبشہ اوّل کے بعد، اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیؐ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے ایک دم اچانک کھڑے ہوکر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا.... اور ان کے کانوں میں ایک ناقابلِ بیان رعنائی و دل کشی اور عظمت لئے ہوئے کلامِ الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے۔ کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ نے سورہ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ 
 بعد میں انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کربیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لئے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیرموجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھار شروع کی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لئے رسولؐ اللہ پر یہ افتراپردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرکے کہا تھا کہ تِلْکَ العَزَانِیْنُ.....(یہ بلندپایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے)۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لئے گھڑ لیا گیا تاکہ نبیؐ کے ساتھ سجدہ کرنے کا جو عمل اُن سے ہوا تھا، اس کے لئے ایک ’معقول‘ عذر پیش کیا جاسکے.... بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی اس طرح پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں چنانچہ انہوں نے ماہِ شوا ل میں مکہ واپسی کی راہ لی۔ لیکن جب قریب پہنچے تو حقیقت حال آشکار ہوئی۔ (ص ۱۳۳۔ ۱۳۴)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK