کرلا میں رہائش پزیر حبیب چودھری کا خاندان پنجاب سے ممبئی منتقل ہوا تھا۔ باندرہ اسکول آف آرٹس میں دوران تعلیم انہوں نے انٹرکالجیٹ ڈرائنگ مقابلےمیں حصہ لیا تھا اوراوّل مقام حاصل کرنے پرگولڈمیڈل کے حقدار قرار پائے تھے، بعد ازاں ڈرائنگ ہی کو پروفیشن بنا لیا
حبیب چودھری شروع ہی سے سماجی، ملّی ،تعلیمی اور تجارتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اسلئے دنیا کے اُتار چڑھا کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔۱۹۶۴ءمیں جب وہ باندرہ اسکول آف آرٹس میں زیر تعلیم تھے ، انٹرکالجیٹ ڈرائنگ مقابلےمیں اوّل مقام حاصل کرنے پرانہیں گولڈمیڈل سے نوازاگیاتھا۔ یوں تو انہوںنے اپنی زندگی میں متعدد عمارتو ں کی ڈیزائننگ کی ہے لیکن کچھ عمارتیں ایسی ہیں جنہیں وہ اپنا شاہکار مانتے ہیں۔ انہیں میں ممبرا کی الفلاح مسجد کامینار بھی ہے۔ اس کانقشہ انہیں کا بنایاہواہے ۔ ۲۰؍سال تک ۲؍ آرکیٹیکٹ کمپنیوں کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کےبعد انہوںنے ممبرا میں اپنی آرکیٹیکٹ کمپنی شروع کی تھی۔اس کے بعد ممبرا کی متعدد بلڈنگو ںکا نقشہ انہوںنے بنایالیکن ۲۰۱۳ءمیں ممبرا میں ایک بلڈنگ منہدم ہوگئی تھی جس میں تقریباً ۷۰؍جانیں تلف ہوئی تھیں۔ اس حادثے کےبعد ممبرا کے آرکیٹیکٹ ڈیزائنروںکے خلاف ہونےوالی کارروائی کے پیش نظر انہوںنے اپنی آفس بند کردی اور پھر سماجی ،ملّی اور تعلیمی سرگرمیوں سےمنسلک ہوگئے۔
گاؤںگیا تو لوگوں نے پہچاننے ہی سے انکار کردیا
ایک واقعہ کا تذکرہ کرتےہوئےانہوں نےبتایاکہ ’’ملک کی تقسیم سے ہمیں اپنا گائوں اورگھر چھوڑکر ممبئی منتقل ہوناپڑاتھا لیکن گائوں کی کشش کے ساتھ ہی پشتینی گھر کا نقشہ ذہن میں بسا ہواتھا۔ جماعت اسلامی سے منسلک ہونے سے متعددشہروںکادورہ کرنے کا موقع میسر تھا۔ تبلیغی کام سےایک مرتبہ دہلی کے اوکھلامیں جماعت اسلامی کے مرکز پر جانےکا اتفاق ہوا تھا۔ یہا ںکےامیر اور دیگر ذمہ داران سے قریبی مراسم ہوگئےتھے۔ ان لوگو ںسےمیں نے اپنے گائوں اور گھر کی باتیں کی تھیں۔ان لوگوںنے کہاتھا کہ آپ کبھی فرصت سے آئیے۔ ہم مل کر آپ کے گائوں چلیں گے۔ ۲۰۰۲ءمیں جماعت کے ساتھیوں کے ہمراہ ۵۶؍سال بعدگائوں جانےکا اتفاق ہوا۔ آرکیٹیکٹ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے گائوں اور گھر کا نقشہ کسی طرح حاصل کرلیاتھا ۔ جب ہم گائوں پہنچے تو یہاں کی چند سکھ خواتین نے کہا کہ یہاں کیوں آئے ہو؟ میں نے کہاکہ یہاں میرا گھر ہے۔ وہ لوگ میری بات پر یقین نہیں کر رہے تھے ۔ میں نے ان خواتین سے گائوں کے موجودہ ضعیف ترین شخص سے ملانےکی اپیل کی۔ ان لوگوںنے سادھونامی ایک شخص سے ہمیں ملوایا۔ میں نےسادھو کو اپنے دادا اور والد کا نام بتایا لیکن وہ انہیں نہیں پہچان سکا۔ بعدازیں میں نے اپنی پھوپھی کا ذکر کیا۔ سادھوپھوپھی سے واقف تھا۔ اس نے کہاہاں وہ یہیں رہتی تھیں۔ سادھوکی تصدیق کے بعد مجھے اپنے گھر پہنچنےمیں آسانی ہوئی۔ گھرکے درودیوار پر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں بھر آئیں ۔ گھر میںجاکر میں نے اپنا کمرہ دیکھا، دالان کا مشاہدہ کیا۔ سب کچھ وہی تھا مگر لوگ بدل گئے تھے۔ ایک خاتون گھر میں رہ رہی تھیں۔ان سے میں نے کہاکہ ’یہ گھر میرا ہے‘ ۔ انہوں نے اعتراف کرلیا کہ اس مکان کا کرایہ کوئی نہیں لیتا ہے۔بعد ازیں گھر سے قریب واقع مسجد کی یاد آئی تو مسجد دیکھنے چلاگیا۔ مسجد کے گیٹ پر بنے چاندتارے کے تصور کے ساتھ گیٹ پر نگاہ پڑی تو وہی چاندتارہ دکھائی دیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن ۵۶؍ سال گزرگئے تھے۔‘‘
لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ میں آرکٹیکٹ ہوں
حبیب چودھری کےمطابق ’’ جب میں فائونٹن پر ملازمت کرتاتھا، اس دور میںمجگائوں کے فلپس کمپائونڈ کی ۳؍ بلڈنگو ںکا نقشہ میںنے بنایاتھا۔ نقشہ کےمطابق یہ تینوں بلڈنگیں بنائی گئی تھیں۔ مسجداور ڈاکیارڈ روڈ اسٹیشنوں کے مابین لوکل ٹرین سے گزرتے ہوئےاکثر ان بلڈنگوںپر نگاہ پڑتی تھی۔ان بلڈنگوںکودیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔میرا حلیہ اور لباس شروع ہی سے روایتی رہا ہے۔ کرتاپائجامہ اور داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے لوگ مجھے بس ایک عام مسلمان سمجھتے تھے۔ ایک دن معمول کے مطابق سی ایس ٹی سےلوکل ٹرین کےذریعے کرلا جارہاتھا۔ ڈبہ میں سو ار۳؍نوجوان جو میرے قریب ہی کھڑے تھے ، مذکورہ بلڈنگوںکودیکھ کر کہہ رہےتھےکہ کیا خوبصورت بلڈنگ ہے۔ یہ سن کر میں نے ان نوجوانوںکو مخاطب کرکے کہاکہ اگر میں ان بلڈنگو ںکےبارےمیں یہ بتائوں کہ ان کی ڈیزائننگ میں نے کی ہے تو کیا آپ لو گ یقین کریں گے ؟ جس پر ان نوجوانوں نے کہاکہ قطعی نہیں .... ان کی بات سن کر میں مسکرانےلگا۔‘‘
سنسار ہوٹل سے وابستہ یادیں اور باتیں
کرلا اسٹیشن ( مغرب ) سے متصل سنسار ہوٹل کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس ہوٹل کی کامیابی اورتاریخی حیثیت کا ذکرکرتےہوئے انہوں نے بتایاکہ ’’کسی زمانےمیں ،یہ ہوٹل جہاں آج اس کاکیش اور پارسل کائونٹر ہے اسی حدتک محدودتھالیکن اب اس ہوٹل کے چاروں طرف کی جگہ اس کےمالکان کی ہے۔سنسار ہوٹل میں ایک چھوٹے قد کا باہر والاتھا۔ جوفلم کامیڈین مقری کی طرح تھا۔ اس وجہ سے لوگ اسے مقری سے خطاب کرتےتھے۔ یہ کیرالا کا رہنے والاتھا۔ ایک روز مقری نے مجھے بتایاکہ کیرالامیں ایک جگہ بیرون ِملک ، سعودی عرب جانےکا اشتہار لگاہواتھا۔اشتہار دیکھ کرمیںنےبھی سعودی جانے کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ ایجنٹ نے جو رقم بتائی تھی ،اس کی ادائیگی کے بعد ایجنٹ نےجس روز روانگی کی تاریخ بتائی تھی ، میں اس دن مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ رات کاوقت تھا ،ایک پانی کے جہاز میں ہم سب کو بٹھایاگیا، علی ا لصباح ایک ساحلی علاقہ پر لاکر ہمیں چھوڑدیاگیا۔ کچھ اُجالا ہونے پر ایک راستہ دکھائی دیا، جس پر بی ای ایس ٹی کی بسیں دوڑ رہی تھیں۔ بعدمیں معلوم ہواکہ ہمیں سعودی نہیں ورسوابیچ پر لاکر چھوڑدیا گیاتھا۔ مقری کی یہ بات سن کرجو ہنسی آئی تھی ،اس کےبارےمیں اب بھی سوچتاہوںتو مسکرا دیتا ہوں۔
کرلا طویلوں کا مرکز تھا
کرلا کے بارےمیںانہوںنےکہاکہ یہ علاقہ طویلوں کا مرکز تھا۔ بیشتر علاقوںمیں پانی جمع رہتاتھا۔جس کی وجہ سے بھینسیں پانی میں جاکر نہایاکرتی تھیں۔ کھلی اور وسیع گٹروںکی وجہ سے بھینسیں ان میں گرجاتی تھیں۔جنہیں نکالنےمیںدشواری ہوتی تھی۔انہیںمارپیٹ کر نکالا جاتا تھا
میرے بھائی کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا
حبیب چودھری کےبقول ’’میرے بڑے بھائی عبدالحمید چودھری جالندھرکے ایک کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک روز کالج کے دوستوںنے کالج کے قریب واقع نہر میں نہانے کاپروگرام بنایا ۔ میرے بھائی کے دوست عبدالرحمٰن بھی ان میں شامل تھے۔ ان دونوں کوتیراکی نہیں آتی تھی، اسلئے وہ نہانے کے بجائے دوستوںکو نہاتا دیکھ رہےتھے۔ کچھ دیر بعد جب ان دوستوںنے دیکھا تو دونوں غائب تھے۔انہیں تلاش کرنا شروع کیا لیکن دونوں نہیں ملے۔ مقامی لوگو ںنے انہیں نہر میں کافی دور تک تلاش کیالیکن نہ وہ ملے، نہ ان کی لاش ملی۔شاید وہ غرق ہوگئے تھے۔ آج تک نہیں پتہ چلا کہ وہ دونوں اچانک کہاں غائب ہوگئے تھے؟‘‘