ہم تو وہ قوم ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذرہ برابر کی اچھائی اور برائی کا بھی حساب قیامت کے دن ہمیں اللہ عزوجل کو دینا ہے، اور اسی لئے دنیا میں بھی ہم اپنا حساب وکتاب صاف و شفاف رکھیں۔ لیکن عام طورپر اس سلسلے میں کافی تساہل دیکھنے میں آتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تحریر وتقریر کے ذریعہ اکثر صدقہ، زکوۃ دینے والوں کو تحریک دی جاتی ہے، لیکن ہمیں اس بات کی جانب بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو یہ امداد لینے والے ادارے، تنظیمیں اور افراد ہیں کیا وہ ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم امداد طلب کرنے میں ایمانداری کو مقدم رکھیں۔ ویسے تو اس کو اعداد وشمار سے ثابت کرنا مشکل ہے، لیکن مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اس ملک میں مال ومتاع کے ذریعہ مددکرنے کا جذبہ سب سے زیادہ مسلم قوم میں پایا جاتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس جذبہ کا فائدہ اٹھا کر بہت ساری مرتبہ غیر مستحق افراد اور ادارے بھی امداد جمع کرتے ہیں۔ یا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مقصد کے تحت مثلاً کسی کے علاج کے لئے ایک کیو آر کوڈ سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے، اب وہ شخص شفایاب ہوکر گھر بھی آگیا توآن لائن پیسہ جمع ہی ہورہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مالی فراڈ سے جڑے جرائم میں اضافہ ہورہاہے۔ سوال کرنے یعنی ہاتھ پھیلانے کی جو ممانعت اسلا م میں آئی ہے، اس کا مقتضا تو یہی تھا کہ ہمارے معاشرے میں سوال کرنے والے دیگر مذاہب کے مقابلے میں کم ہوتے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارےپاس ہی ایسے افراد کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ اسلام میں بہت شدید حاجت کی صورت میں ہی سوال کرنے کی اجازت دی گئی اور کسی سے کچھ مانگنے کے بدلے دینےکی ترغیب دی گئی ہے۔ مؤطا امام مالک میں روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے۔ ‘‘
اسلام مانگنے کے بجائے محنت کرنے، جفاکشی اختیار کرنے اور خودداری کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ حضور اکرمؓ نے فرمایا:’’ جو شخص اپنے آپ پر سوال (لوگوں سے مانگنے)کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس پر فقر (غربت) کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ آدمی اپنی رسی لے کر پہاڑ پر چڑھے پھر اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لے آئے تو اُس سے (یعنی انہیں بیچ کر) کھائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، کوئی اسے دے اور کوئی دھتکار دے۔ ‘‘
ایک اور بات جس کا خیال افراد اور اداروں کو رکھنا چاہئے، اور وہ بھی ایک طرح سے ایمانداری میں ہی داخل ہے، کہ کوئی بھی ایسا طور طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو فضول خرچی والا ہو، یا امداد کرنے والوں کے دل میں یہ بات پیدا کردے کہ ہم سے تو امداد غربت بتاکر حاصل کی اوریہاں تو فضول خرچی ہورہی ہے۔ مثلاً شادی کے نام پر بعض حضرات امداد جمع کرتے ہیں اور بسا اوقات شادی میں کچھ ایسے بھی کام کرتے ہیں جو غیر شرعی، غیر ضروری اور فضول خرچی والے ہوتے ہیں۔ ایسے افعال امداد کرنے والوں کو بدظن کردیتے ہیں کہ کیا ہم نے ایسے کاموں کے لئے کسی کی مدد کی تھی؟ حدیث شریف میں آیا ہے شیطان انسان کے بدن میں ایسے دوڑتا ہے جیسے خون۔ یعنی اس کا تسلط انسان پر بہت زیادہ ہے اور اس کے ذریعہ وہ بہت جلدی کسی بھی انسان کو گناہ میں اور بدگمانی میں مبتلا کردیتا ہے۔
ایک اور بات جس کا ہمارے پاس فقدان نظر آتا ہے وہ جمع کئے ہوئے مال کا حساب۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارے ادارے، ہمارے افراد ایک ایک پائی کا حساب تیار رکھیں اور وقت آنے پر ہر کسی پر ظاہر کردیں ۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذرہ برابر کی اچھائی اور برائی کا بھی حساب قیامت کے دن ہمیں اللہ عزوجل کو دینا ہے، اور اسی لئے دنیا میں بھی ہم اپنا حساب وکتاب صاف و شفاف رکھیں۔ لیکن عام طورپر اس سلسلے میں کافی تساہل دیکھنے میں آتا ہے۔ افراد تو اس کا اہتمام بالکل بھی نہیں کرتے، تنظیمیں اور ادارے کرتے ہیں لیکن ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے پاس حساب وکتاب میں شفافیت نہیں ہوتی۔ اکثر ایسا کسی بدنیتی یا غبن کی وجہ سے نہیں ہوتا، مسئلہ یہ ہے کہ لاابالی مزاج اور لاپروائی کی وجہ سے وقت پر آمد وخرچ کی تفصیل نوٹ نہ کرپانے کے سبب حساب کا معاملہ گڑبڑاجاتا ہے جو یقیناً امدادکرنےوالوں کو بدظن کرتا ہے۔
جہاں تک باہمی امداد کا سوال ہے تو تصویر کا بہت ہی افسوسناک رخ ہے جس سے پورامعاشرہ بدنام ہوتا ہے، اور معاشرے میں زکوٰۃ وصدقات اور عطیات دینے والوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری مدد صحیح جگہ پر نہیں پہنچ رہی ہے چنانچہ مستحق فرد یا تنظیم کو امداد دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک خوش آئند امر ہے کہ زکوٰۃ وصدقات کے معاملے میں اسلامی تعلیمات کا اثر ہے کہ کچھ مسائل کے باوجود آج بھی عام لوگ دل کھول کر ضرورتمندوں کی امداد کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ہاں، کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں کہ اگر امداد حاصل کرنے والے افراد، تنظیمیں اور ادارے ان کا خیال رکھیں تو نہ صرف یہ کہ ان سے امداد کرنے والوں کے دلوں کو اطمینان ملے گا بلکہ ایک دوسرے کی مالی مدد کا یہ سلسلہ ایک منظم طریقہ پر بھی انجام پائے گا۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب حکومتوں کی جانب سے ہر مالی لین دین پر گہری نظر رکھی جارہی ہے، باہمی امدا د میں ایک صاف وشفاف اور منظم طریقہ ٔ حساب وکتاب کو متعارف کروانا ہمارے لئے بہت سارے غیر ضروری مسائل سے نجات کا باعث بھی بنے گا۔ اس سے خود کو بھی راحت و اطمینان کا احساس رہے گا۔