Inquilab Logo Happiest Places to Work

آپؐ کی ہجرت مبارکہ کا اوّلین سبق: تنگی کے بعد فراخی اور تاریکی کے بعد روشنی ہے

Updated: June 28, 2025, 1:33 PM IST | Abdul Sattar Khan | Mumbai

ہجرت کے ہر واقعے میں امید کا سبق ہے۔مایوسیوں کے گرداب میںڈوبتی اس امت کے دلوں میں امید کے جوت جگانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح گھٹاٹوپ اندھیرے سے نور کی کرن پھوٹتی ہے، شر کے قلب سے خیر کا پہلو نکلتا ہے اور غموں کے بطن سے خوشی پیدا ہوتی ہے۔

Along with attending the Prophet`s Mosque, it is also important to pray and pledge that we will remain steadfast in the example of goodness until our last breath. Photo: INN
مسجد نبویؐ میں حاضر ہونے کے ساتھ یہ دعا اور عہد بھی ضروری ہے کہ ہم زندگی کی آخری سانس تک اسوۂ حسنہ پر قائم رہیں گے۔ تصویر: آئی این این

اللہ کے رسول ﷺ حج کے موقع پر منیٰ آنے والے عرب قبائل کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وفود سے ملاقات کرتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے۔ گیارہویں سن نبوت کے موسم حج میں بھی آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علی ؓ کو ہمراہ لیا اور رات کی تاریکی میں بنوہذیل اور بنو شیبان کے ڈیروں سے گزرے، انہیں اسلام کی دعوت دی مگر کوئی حوصلہ افزا جواب نہ پایا۔ ’’اس کے بعد رسول اکرم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔ آپؐ نے سیدھے ان کا رخ کیا۔ یہ یثرب کی ۶؍ سعادتمند روحیں تھیں جن کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ آپؐ نے ان سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کیوں نہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات چیت کی جائے؟ رخصت سفر باندھ کر عازم یثرب ہونے والے نوجوان بیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان فرمائی، انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ 
آپؐ خاموش ہوئے تو نوجوانوں نے ایک دوسرے سے کہا: معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی (ﷺ) ہیں جن کا حوالہ دے کر یہودی تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں، یہود تم پر سبقت نہ لے جائیں۔ انہوں نے فوراً آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام لے آئے۔ (الرحیق المختوم۔ از صفی الرحمن مبارکپوری) ہجرت کے تمام واقعات کا سب سے بڑا سبق ’’امید‘‘ ہے۔ امت جو مایوسیوں کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھارہی ہے، اس کیلئے ہجرت کا واقعہ ’’امید کی نئی کرن ‘‘ دکھاتا ہے۔ سرداران قریش نے جب دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کیاتو اللہ تعالی نے اس دین کیلئے خزرج قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان ۶؍افراد کو روانہ کیا جنہوں نے دین قبول کرنے پرہی اکتفا نہیں بلکہ یثرب میں دین حق کا تخم مبارک ثابت ہوئے۔ انہی کی وجہ سے یثرب دار ہجرت کیلئے سازگار ہوا۔ اس دین کی نصرت سے اللہ تعالی نے عرب کے عظیم قبائل اور سرداران کو محروم کرکے یثرب کے ۶؍نوجوانوں کو اس سے سرفراز فرمانا تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا کہنا ہے: ہم یثرب سے اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا۔ بعد ازاں ہم نے دین کے احکامات سیکھے اور قرآ ن کی تلاوت کی۔ ہم میں سے جو شخص ایمان لاتا وہ اپنے گھر پلٹ جاتا اور اہل واولاد کو اسلام کی دعوت دیتا یہاں تک یثرب میں کوئی گھر ایسا باقی نہیں بچا جس میں اسلام قبول کرنے والے نہ ہوں۔ 
اسلام قبول کرنے والے اہل یثرب نے ایک دن ایک دوسرے سے کہا: ہم کب تک رسولؐ اللہ کو یوں ہی مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اور خوفزدہ کئے جاتے چھوڑیں گے؟ پھر ہم میں سے ۷۰؍آدمی حج کے موسم میں مکہ آئے، آپؐ سے ملے اور بیعت عقبہ کی۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ، ہم آپؐ کے ساتھ کس چیز پر بیعت کریں ؟ آپؐ نے فرمایا: اس بات پر کہ چستی اور سستی ہر حال میں بات سنوگے اور مانوگے، تنگی و خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کروگے، بھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے، اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروانہ کروگے اور جب تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کروگے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔ (مسند احمد) 
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی اور لوگوں نے بیعت کا ارادہ کیا ہی تھا کہ انصار میں سے دو مسلمان اٹھے اور بیعت کرنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: جانتے ہو کس بات پر بیعت کر رہے ہو؟تم سرخ و سیاہ سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو، اگر تمہارا خیال ہے کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کردیئے جائیں گے تو تم آپؐ کا ساتھ چھوڑدو گے تو ابھی سے چھوڑدو۔ اس پر سب نے بیک آواز کہا: ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر آپؐ کو قبول کرتے ہیں۔ پھر آپؐ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسولؐ، ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں کیا ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا:جنت۔ لوگوں نے عرض کیا’’اپنا ہاتھ پھیلایئے، ہم بیعت کرتے ہیں ‘‘(الرحیق المختوم)
بیعت عقبہ کا پہلا سبق یہ ہے کہ داعی حق اپنے حصے کا کام کرتا رہے، جب وہ اپنے حصے کا کام مکمل کردے گا تو اللہ تعالیٰ نصرت کیلئے وہ راستہ مہیا کرے گا جس کی طرف داعی کاگمان تک نہیں جاسکتا۔ اللہ کی نصرت ومدد کے نزول کی اولین شرط یہ ہے کہ امت اپنے حصے کا کام مکمل کردے، جب وہ اپنا کام مکمل کرے گی تو اللہ کی نصرت ومدد پھر لازما آئے گی۔ 
 ’’سچائی کا ننھا سا بیج ایک تناور درخت بن چکا تھا اور جو خطرہ کل تک خداوندانِ جاہلیت کیلئے خیالی تھا، وہ اب واقعی صورت میں سامنے تھا۔ اب وقت ان سے کہہ رہا تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے کی قوت رکھتے ہو تو نمٹ لو ورنہ دورِنو کا طوفانِ نوح چلاآرہا ہے جس میں تم، تمہارے مناصب، تمہارا مذہب اور تمہاری جاہلانہ روایات سب کچھ بہہ جانے والی ہے۔ کل تمہیں اپنی اکڑی ہوئی گردنیں محمد اور ان کے پیغام کے سامنے خم کردینی ہوں گی‘‘(محسن انسانیت) اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب رسول اکرم کو ہجرت کی اجازت مل جاتی ہے۔ سیرت ابن ہشام کے مطابق جو رات ہجرت کے لئے منتخب ہوئی، اس میں رسول اکرم بحکمِ الٰہی اپنے مکان پر نہ سوئے اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر بلاخوف سوجانے کی ہدایت فرمائی۔ ساتھ ہی لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کیں کہ صبح کو یہ مالکوں کو ادا کردی جائیں۔ اس اخلاق کی کتنی ایک مثالیں تاریخ کے پاس ہیں کہ ایک فریق تو قتل کی سازش کر رہا ہے اور دوسرا فریق اپنے قاتلوں کو امانتوں کی ادائیگی کی فکر میں ہے۔ (محسن انسانیت)اللہ کے رسول مشرکین کی صفیں چیرتے ہوئے اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی۔ اللہ نے ان کی بینائی سلب کرلی تھی اور وہ آپؐ کو دیکھ نہ سکے۔ ایک مرتبہ پھر امید کا سبق دہرایا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کا کہنا کہ چاروں طرف موت منڈلارہی ہے مگر آسمانی حقیقت کہتی ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے گاوہی اس کیلئے کافی ہوگا۔ 
ہجرت کا بھولا ہوا سبق ہمیں یاد دلارہا ہے کہ تاریکی کے بعد روشنی ہے، اندھیرا چھٹنے والا ہے اورمومنین صادقین صبح صادق کو دیکھ کو خوش ہوں گے۔ واقعات آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ حضرت صدیق اکبر ؓ کے ساتھ غار میں ہیں اور امید کا ایک اور سبق امت کو سکھلایا جارہاہے۔ تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا: میں نبیؐ کے ساتھ غار میں تھا، سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ ان میں سے کوئی شخص اپنی نگاہ نیچی کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ صدیق اکبرؓ غار ثور میں مشرکین کی آمد سے گھبرااٹھے، انہیں رسول اکرمؐ کی حیات مبارکہ خطرے میں نظر آئی۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ کو اپنی جان کا خطرہ نہ تھا مگر رسولؐ کی زندگی کی فکر تھی۔ مشرکین کے قبضے میں آپؐ کے چلے جانے سے اسلام کا مستقبل ڈوبتا نظر آرہا تھا۔ ادھر صدیق اکبرؓ کا حال یہ تھاکہ کاٹو تو لہو نہیں ، ادھر رسول اکرم کے چہرہ انور پر ایمان ویقین اور اللہ کی مدد ونصرت پر کامل اعتماد جھلک رہا تھا۔ فرمایا: ابوبکرؓ! ان دوکے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو، غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدت کاملہ پر حد درجہ اعتماد اوراس کی نصرت کی قوی امید کی ایک بے نظیر مثال ہے۔ آپؐ سخت ترین خطرے میں تھے، اس کے باوجود آپؐ کو کامل درجہ کا انشراح حاصل تھاکہ جس ذات نے آپؐ کو انسانوں کیلئے ہدایت ورحمت بناکر بھیجا ہے وہ اس وقت آپؐ کوتنہا نہیں چھوڑے گی۔ اللہ کی معیت کایہ یقین ہمیں یاد دلارہا ہے کہ اس کے بغیر ہم خیر امت کے فرائض ادا نہیں کرسکتے۔ امید کا سبق ہمیں یاد دلارہا ہے کہ دشمن اپنی چالیں چلتا ہے اور اللہ خیر الماکرین ہے، وہ اپنے بندوں کی ضرور حفاظت فرماتا ہے ’’تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو‘‘ (آل عمران) اور پھر وہ وقت بھی چشم فلک نے دیکھا جب اللہ کے رسولؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔ ’’آج مکہ کے پیکر سے اس کی روح نکل گئی تھی، آج اس چمن کے پھولوں سے خوشبو اڑی جارہی تھی، آج یہ چشمہ سوکھ رہا تھا، آج اس کے اندر سے بااصول اور صاحب کردار ہستیوں کا آخری قافلہ روانہ ہورہا تھا۔ دعوت حق کا پودا مکہ کی سرزمین سے اگا لیکن اس کے پھلوں سے دامن بھرنا مکہ والوں کے نصیب میں نہ تھا، پھل مدینہ والوں کے حصے میں آئے۔ 
’’آج دنیا کا سب سے بڑا محسن وخیر وخواہ بغیر کسی قصور کے بے گھر ہورہا ہے۔ کلیجہ کٹا ہوگا، آنکھیں ڈبڈبائی ہوں گی، جذبات امڈے ہوں گے مگر خدا کی رضا اور زندگی کا مشن چونکہ اس قربانی کا بھی طالب ہوا اس لئے انسان کامل نے یہ قربانی بھی دے دی‘‘(محسن انسانیتؐ) حضور نے مکہ کے پہاڑوں، گلیوں اور وادیوں پرآخری نگاہ ڈالی، یہی وہ گلیاں ، یہی وہ پہاڑ اور وادیاں ہیں جہاں آپ کا بچپن گزرا، جہاں آپ جوان ہوئے۔ الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے مکہ سے خطاب فرمایا: خدا کی قسم تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے، اگر یہاں سے مجھے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، مسند) اللہ تعالی کی رضا اور مشن کی تکمیل کے لئے اللہ کے رسول کو یہ قربانی بھی دینی پڑی مگر رہتی دنیا تک امت کیلئے ہجرت کا راستہ کھلا چھوڑا۔ آپؐ کے فرمان کا مفہوم ہے: ہجرت کا دروازہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (ابوداؤد) گویا آپؐ نے ہجرت کو ’’تزکیہ‘‘ کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ ایک اور جگہ پر آپؐ ہجرت کے حقیقی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حقیقی ہجرت کرنے والا وہ ہے جس نے ان امور سے ہجرت کی(یعنی ترک کیا) جن سے اللہ تعالی سے منع فرمایا ہے۔ (مسند احمد)
ہجرت مبارکہ کے اس سفر میں امید دلانے اور حوصلہ بڑھانے کا ایک اور واقعہ پیش آتا ہے۔ سراقہ بن مالک ؓ سو اونٹ کے لالچ میں تعاقب کرتے ہوئے قافلہ مبارک کو پالیتے ہیں ۔ خود سراقہؓ کا بیان ہے:میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں اس میں سے گرگیا… مجھے یقین ہوگیا کہ رسول اللہ کا معاملہ غالب ہونے والا ہے۔ سواونٹ کے لالچ میں آنے والے سراقہ ؓ نے مبارک قافلے کو پکار کر کہا: مجھے پروانۂ امن دیا جائے۔ (بخاری) قدرت کو سراقہؓ کو سو اونٹ سے کہیں سے زیادہ بیش بہا انعام سے نوازنا منظور تھا۔ ارشاد ہوا: اے سراقہؓ! تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے؟ سراقہؓ نے وقت کے سب سے بڑے شہنشاہ کسریٰ کا نام سنا تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، عرض کیا: کون کسریٰ؟ یہ جو عراق، ایران اور شام کے سیاہ وسپید کا مالک ہے، جو وقت کی سب سے بڑی طاقت ہے، اس کے کنگن مکہ کے ایک بدو کے ہاتھ میں ہوں گے؟اتنی بڑی پیشگوئی کرنے والوں کا حال تو دیکھو! اپنے ملک سے نکالے گئے، مدینہ میں جائے امان تلاش کر رہے ہیں، وہ یہ بات کر رہے ہیں، مگر دربار رسالت کی یہ بات سورج کی چمک سے بھی زیادہ واضح اور روشن تھی گویا اس وقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ رسولؐ اللہ نے سراقہؓ سے کسریٰ کے کنگن کا جو وعدہ کیا وہ ایک معجزہ تھا۔ 
 صدیق اکبرؓ کا بیان ہے: سراقہ ؓ واپس ہوا تو دیکھا لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں، کہنے لگا: ’’ادھر کی کھوج کی خبر لے چکا ہوں، یہاں تمہارا جو کام تھا وہ کیا جاچکاہے۔ ‘‘ دن کے شروع میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں جو چڑھا آرہا تھا وہی شام ہوتے ہی پاسبان بن گیا۔ اللہ نے حفاظت ونگرانی کیلئے وہاں سے بندوبست کیا جہاں گمان بھی نہیں جاتا تھا۔ اس طرح ہجرت کے ہر ہر واقعے میں امید کا سبق دہرایا جاتاہے۔ مایوسیوں کے گرداب میں ڈوبتی اس امت کے دلوں میں امید کے جوت جگانے کی ضرورت ہے، کس طرح گھٹاٹوپ اندھیرے سے نور کی کرن پھوٹتی ہے، شر کے قلب سے خیر کا پہلو نکلتا ہے اور غموں کے بطن سے خوشی پیدا ہوتی ہے۔ امت کی تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ رب ذوالجلال اس کی حفاظت ونگرانی کرتا ہے۔ کفار قریش نے مکہ کی زمین تنگ کردی تو اللہ تعالی نے مدینہ کی سرزمین کو دعوت حق کیلئے سازگار بنایا، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد امت فتنوں کے طوفانوں میں گھر گئی مگر اللہ تعالی نے اسے اس منجدھار سے بحفاظت نکال لیا، تاتاری قہر بن کر ٹوٹے اور ۲۰؍لاکھ مسلمانوں کے خون سے بغداد کی گلیوں کو رنگ دیا اور کہنے والوں نے یہ تک کہا کہ کرہ ٔارض سے اسلام کا خاتمہ ہوگیا مگر عین جالوت کے معرکے میں اللہ تعالی نے سیف الدین قطزکی قیادت میں مسلمانوں کو متحد کرکے اپنے دشمنوں کو توڑکر رکھ دیا، صلیبیوں نے یلغار کرکے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مسلمانوں کے خون سے گھٹنوں تک دریا بہا دیا مگر اللہ تعالی نے صلاح الدین ایوبیؒ کی صورت میں بیت المقدس اور امت کیلئے نجات دہندہ پیدا کیا۔ تاریخ کا وہ کون سا دور ہے جس میں امت کو امتحانوں سے گزارانہ گیا ہو۔ اس امت کو شروع دن سے سمجھایا گیا ہے کہ: ’’تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے، بے شک تنگی کے بعد فراخی بھی ہے‘‘(الانشراح:۵۔ ۶) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK