Inquilab Logo

اقتدار کی ہوس سے سیاسی نظام میں پیدا ہونےوالی خرابیاں

Updated: January 10, 2021, 6:38 AM IST | Jamal Rizvi

امریکہ کے حالیہ واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب اقتدارکسی ایسے شخص کے ہاتھ میں آجائے جو اپنی خواہش کو بہر صورت پورا کرنے پر آمادہ ہو تو ان سیاسی اصولوںکی کوئی اہمیت نہیںرہ جاتی ہے جو سیاسی نظام کی شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہوتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں بائیڈن کی فتح کو کسی طور سے بھی قبول نہ کرنے والے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کے ساتھ جس طرز کا مظاہرہ کیا وہ سیاسی تاریخ کا افسوس ناک باب بن گیا ہے

Trump Supporter Protest
امریکہ کے رخصت پذیر صدرٹرمپ کےحامیوں نے گزشتہ دنوں امریکہ میں جس جارحیت کا ثبوت دیا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے

عہد حاضر کا سیاسی نظام جس طرح اقتدار مرکوز ہو گیا ہے وہ عوامی زندگی کو کئی سطح پر متاثر کر رہا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاست دانوں نے حصول اقتدار کی اپنی خواہش کی تکمیل کی خاطر عوام کے درمیان جس رجحان کو بڑھاوا دیا ہے وہ سیاسی نظام سے عوامی مسائل اور مفاد کے پہلو کو روز بہ روز کمزور کرتا جارہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرز کی سیاست کے دم پر اقتدار حاصل کرنے والے سیاست داں عوام کو ایسے معاملات میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے درمیان نفرت اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تقریباً ہر ملک کا سیاسی نظام اقتدار پرست سیاست دانوں کے اس رویے سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے۔ اس طرز سیاست نے سیاسی نظام کو اس حد تک خراب کر دیا ہے کہ اب ارباب اقتدار صرف اپنی سیاسی انا کی تسکین کیلئے ہی فکر مند نظر آتے ہیں۔ اقتدار کو اپنی مرضی کا تابع بنائے رکھنے کی خواہش نے ان سیاست دانوں کو ان عوامی مسائل سے بالکل بیگانہ کر دیا ہے جن کو حل کرنے کا دعویٰ ان کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کرتا ہے۔ 
 اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جو سیاسی نظام رائج ہے اس میں اصولی طور پر عوام کے مفاد اور مسائل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن اگر عمل کی سطح پر دیکھا جائے تو صورتحال عموماً اس سے مختلف نظر آتی ہے۔عہدحاضر کے سیاسی نظام میں عوام کی شمولیت صرف انتخابی عمل میں ان کی محض اس حد تک شراکت پر مبنی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران کسی پارٹی کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیں اور اس کے بعد پھر اپنی روزمرہ کی زندگی کے انہی مسائل میں الجھ کر رہ جائیں جواُن کے معیار زندگی کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔اقتدار کے حصول کے بعد سیاست دانوں کے نزدیک ان مسائل کو حل کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ عوام کو ایسے اضافی مسائل کے جال میں الجھائے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کر لیتے ہیں جن سے ان کی زندگی مزید کئی طرح کے مسائل میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کیلئے سیاست داں عام طور سے وہ حربہ اختیار کرتے ہیں جو قوم اور وطن کے اس نام نہاد تصور پر مبنی ہے جس میں ارباب اقتدار کی کسی پالیسی یا فیصلے سے اختلاف کو وطن کے وقار او ر عظمت کو معرض سوال میں لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والے ان سیاست دانوں نے نہ صرف عوام کے درمیان نفرت اور تشدد کے رجحان کو بڑھاوادیا ہے بلکہ اس سے ملک کے ان وسائل کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے جن کی بہتری اور ترقی کا دعویٰ ان سیاست دانوں کو اقتدار تک پہنچاتا ہے۔
 سیاسی نظام میں پیدا ہونے والی اس خرابی نے ان ملکوں میں بھی مشکل حالات پیدا کر دئیے ہیں جو اپنے طرز سیاست میں عوام کے مفاد اور ان کے حقوق کے تحفظ کو دنیا کے دوسرے ملکوں کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس ضمن میں اگر امریکہ میں ہوئے حالیہ واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جب اقتدار کا اعلیٰ منصب کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں آجائے جو اپنی خواہش اور ضد کو بہر صورت پورا کرنے پر آمادہ ہو تو ان سیاسی اصولوں اور ضابطوں کی بھی  کوئی اہمیت نہیںرہ جاتی ہے جو سیاسی نظام کی شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہوتے ہیں۔امریکہ کے صدارتی انتخاب میں بائیڈن کی فتح کو کسی طور سے بھی قبول نہ کرنے والے ٹرمپ نے اپنے شر پسند حامیوں کے ساتھ جس طرز کا مظاہرہ کیا وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا افسوس ناک باب بن گیا ہے۔اقتدار کی منتقلی کو مختلف حربوں سے متواتر ٹالتے رہنے کا ٹرمپ کا رویہ ان کے حب اقتدار کے اس رویے کو ظاہر کرتا ہے جو انتخابی سیاست میں یقین کرنے سے زیادہ اپنی سیاسی ضد کی تکمیل کو ترجیح دیتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ چاہے ٹرمپ ہوںیا دیگر ملکوں کے وہ سیاسی لیڈرجو اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کو اپنا سیاسی حق سمجھتے ہیں ،ان لیڈروں نے اپنے گرد حامیوں کو ایسا گروہ تیار کر لیا ہے جو ان کے رویے کو حق بہ جانب ٹھہرانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس عمل میں ان ضابطوں اور قوانین کی بھی پروا نہیں کی جاتی جو ملک میں ایک شفاف نظام حیات کے ضامن ہوتے ہیں۔
 ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ جن مسائل سے دوچار رہا، ان میں سب سے بڑا او ر اہم مسئلہ وہاں نسلی امتیاز کے اس رجحان کا دوبارہ زور پکڑناہے جو معاشرتی سطح پر انسانوں کے درمیان نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کرتا ہے۔  اقتدار کی ہوس میں مبتلا ٹرمپ جیسے سیاست دانوں کیلئے عوام کے درمیان نفرت اور تشدد کو عام کرنے والی حکمت عملی ایک ایسے آزمودہ نسخے کی حیثیت رکھتی ہے جو ان کے اقتدار کو استحکام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کے تئیں ان کی جوابدہی کو کمزور بناتی ہے لہٰذا اس حکمت عملی کے سہارے ایسے سیاست ایک طویل مدت تک اقتدار پر قابض رہنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اگر اپنے سیاسی کریئر کے کسی موڑ پر انھیں اس حکمت عملی کا اثر کمزور پڑتا نظر آتا ہے تو وہ عوام کو رنگ، نسل، قوم اور مذہب کے ان تعصبات میں الجھائے رکھنے کا حربہ استعمال کرتے ہیں جو اقتدار کا عیش لوٹنے کی ان کی خواہش کی راہ کو آسان بناتا ہے۔اس طرز سیاست کے سبب ملک اور معاشرہ جن مسائل  سے دوچار ہوتا ہے وہ اگر چہ وسیع پیمانے پر عوام کے طرز حیات کو متاثر کرتے ہیں لیکن سیاست دانوں کی عیاری کے دام میں گرفتارعوام ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایسے سیاست دانوں کی اس حکمت عملی کے پریشان کن نتائج جب سامنے آنا شروع ہوتے ہیں تو اس وقت وطن کی محبت اور عظمت کے تحفظ کے اس نام نہاد تصور کی تشہیر کی جاتی ہے جس سے اختلاف کو وطن کی محبت اور عظمت پر حرف زنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
 ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ناعاقبت اندیش سیاست کے ذریعہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے کئی ملکوں کے سیاسی نظام کو متاثر کیا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں پر اپنی بالا دستی کو برقرار رکھنے کی امریکی سیاست کو ٹرمپ نے جس انداز میں برتا ہے وہ ان کے اس رویے کو ظاہر کرتا ہے جسے اگر تکبر پر مبنی سیاسی سنک کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی اس سیاسی سنک کے چلتے دنیا کے ان ملکوں کے درمیان سیاسی اور سفارتی سطح پر ایک ایسی خلیج پیدا کردی ہے جو ملک اب سے پہلے تک دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ اب اسی سیاسی سنک کا مظاہرہ انھوں نے اندرون ملک کچھ اس انداز میں کیا کہ جس نے امریکہ کے سیاست میں جارحیت اور تشدد کے رجحان کو برھاوا دیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں اپنے اس رویے کا اظہار اکثر ان موقعوں پر کیا جہاں وہ اپنی کسی ضد کو بہر طور ان ملکوں پر مسلط کرنے کے خواہش مند رہے جو ممالک معاشی اعتبار سے امریکہ سے کمزور ہیں۔ ان کی اس سیاسی سنک نے یورپ اور ایشیا کے سیاسی ماحول کوبری طرح متاثر کیا اور سیاست میں جارحیت اور تشدد کے رجحان کو فروغ پانے کی فضا تعمیر ہوئی۔ ایسی آلودہ سیاسی فضا کی تعمیر سے اقتدار پرست سیاست دانوں کو اپنے ان سیاسی اہداف کو حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے جن کا عوام کے مسائل او ر مفاد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
 اس وقت عالمی سیاست میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاست دانوں کی تعداد میں جس طرح اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ مجموعی طور پر پوری انسانی برادری کیلئے نقصان کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ ایسے عیار سیاست دانوں کے اس رویے کو اس وقت تک کمزور نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ عوام خود اپنے مسائل اور مفاد کے متعلق حساس نہ ہوں۔ سیاسی نظام کو صاف اور شفاف بنائے رکھنے میں عوام ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں لیکن جب ایسے سیاست دانوں کو عوام کے ایک طبقے کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے وہ تو اس حمایت کی بنیاد پر ایسے اقدامات کرنے سے بھی احتراز نہیں کرتے جو ملک کے آئینی اصولوں کے خلاف ہوں۔عوام اپنے قیمتی ووٹوں کے ذریعہ جن سیاست دانوں کو اقتدار تک پہنچاتے ہیں انھیں اپنے مسائل کے متعلق حساس بنائے رکھنے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک انہی عوام کی ہوتی ہے جو انتخابی عمل میں ایک ووٹر کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ ٹرمپ یا ان جیسے دیگر ایسے لیڈروں کی سیاسی سنک اور ہٹ دھرمی کو ختم کرنے کیلئے عوام کا اپنے مسائل اور مفاد کے متعلق حساس اور بیدار ہونا ضروری ہے۔ جب تک عوام کے اندر یہ بیداری اور حساسیت نہیں پیدا ہوگی تب تک اقتدار پرست لیڈروں کو ایسے اقدام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی جو پورے سیاسی نظام کیلئے سنگین اور پیچیدہ قسم کے مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK