Inquilab Logo

حضرت ابراہیم ؑ کی پیروی تقاضہ ٔ ایمان ہے

Updated: July 21, 2021, 11:28 AM IST | Abdul Rahman Qasmi

رب العالمین نے فرمایا کہ ہم نے آپ ؐ کو وحی کیا کہ آپ ملت ابراہیمی کی اتباع کیجئے کہ حضرت ابراہیمؑ مشرکوں سے بری الذمہ تھے ، تفاسیر میں آتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی پیروی کی جائے، اورابراہیم ؑ کی اقتداء نہ کرنا بد عقیدگی ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

  یہ بات روزروشن کی طرح عیاں اور اظہر من الشمس ہےکہ انبیائے کرام کی صف میں سیدنا ابراہیمؑ کی شخصیت کا ایک الگ مقام ہے۔ آپ ؑ نےاللہ کےاحکام کی پابندی کی اور توحید کا نعرہ بلند فرمایا، آپ ؑ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان ابراہیم کان امة قانتاً للہ حنیفا ولم یک من المشرکین (النحل : ۱۲۰)۔ اُمۃ کے معنی امام کے ہے، جن کی اقتداء کی جائے۔ قانت کہتے ہیں اطاعت گزار اور فرماں بردار کو، اور حنیف کا معنی ہے شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آجانے والا۔ اسی لیے فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑ مشرکوں سے بالکلیہ طور پر بیزار تھے،جسے خود اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ ’’وابراہیم الذی وفی (اور ابراہیم ؑ وہ ہیں جس نےپورا کیا خدا کے تمام احکام اور خدا نے انہیں چنیدہ بنا لیا ہے۔ فرمان خداوندی ہے: ترجمہ: ہم نے پہلے ہی ابراہیم ؑ کو رشدو ہدایت دے رکھی تھی، وہ خدا کی پسندیدہ شریعت کے پابند تھے اور وہ دنیا و آخرت کی خیرکےجامع تھے (الانبیاء : ۵۱)۔ الغرض ان کا پاک ذکر دنیا میں باقی رہا۔
      اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم ؑ کی عزت و عظمت و شرافت او ران کی خوبیاں بیان کرنے کے بعد فرمایا: ہم نے آپ ﷺ کو یعنی نبیﷺ کو وحی کیا کہ آپ ملت ابراہیمی کی اتباع کیجئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مشرکوں سے بری الذمہ تھے ۔ دوسری جگہ فرمایا ، ترجمہ: بے شک ان لوگوں ( کے قول وعمل اور عقیدے ) میں تمہارے لئے عمدہ نمونہ ہے (یعنی ) ایسے شخص کے لیے جواللہ کے سامنے جانے کا اور آخرت کا یقین رکھتا ہو اور جو شخص ( اس حکم سے ) روگردانی کرے گا تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا (کیونکہ ) اللہ بالکل بے نیاز اور سزاوار حمد ہے۔ اس آیت میں ایمان کے اس تقاضے کی طرف اشارہ ہے کہ ابراہیم ؑ کی پیروی کی جائے، اورابراہیم ؑ کی اقتدا ء نہ کرنا بد عقیدگی ہے۔ (دیکھیے: تفسیر مظہری اردو ، ج ۶؍ ص ۲۷۰، قاضی ثناء اللہ پانی پتی)۔ 
        جہاں تک ابراہیم ؑ کے اسوہ کی بات ہے تو وہ عقائد و اعمال اور اخلاق و کردار کی بہت سی صورتوں کو محیط ہے اورہر ایک اپنی جگہ بے مثال اور عظیم ہے۔مَیں یہاں پر حضرت ابراہیم ؑ کے اس عظیم کارنامےکا تذکرہ کرنا چاہوں گا، جو تاریخ انسانی کا انتہائی نادر او ربے مثال ہے اور وہ ہے اللہ کے حکم سے اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم ِ خدا پر قربان کرنےکا واقعہ۔ یہ واقعہ اپنی ندرت کے باوصف غیر معمولی طور پر مشہور ہے اور ہر شخص اس کی جزئیات سے واقف ہے اسلئے تفصیل میں نہ جاکر یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ امت مسلمہ کے مالدار مردو عورت پر قربانی کو واجب کردیا گیا تا کہ اس امت میں دین کی خاطر قربانی کا وہ جذبہ باقی رہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک خصوصیت ہے۔  صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے آپؐ سے پوچھا: اے اللہ کے نبی ﷺ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی ﷺ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے تمہیں نیکی ملےگی۔  اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضیات پہ چلائے او راس سنت ابراہیمی کو پوری زندگی ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین! n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK