Inquilab Logo Happiest Places to Work

اتباع ِ رسولؐ: مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سر کرنے کیلئے واحد راستہ ہے

Updated: July 04, 2025, 4:56 PM IST | Hafiz Muhammad Idris | Mumbai

غصے پر قابو پانا سنت ِ رسولؐ ہے۔ مخالفین کو معاف کردینے والا روزِ محشر اللہ کے ہاں معافی کا مستحق قرار پائے گا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کرنے والا تو ایسا عظیم انسان ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور مخلوق کی محبت ووفا اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

Our Master and Master (PBUH) was the embodiment of forgiveness and mercy. We should remember this blessed example of yours in every moment of our lives. Photo: INN
ہمارے آقا ومولاﷺ عفوودرگزر کا مجسمہ تھے، آپؐ کا یہ اسوۂ مبارک ہمیں زندگی کے ہر لمحے میں یاد رکھنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

ہم نبی رحمتؐ کی امت ہیں۔ وہ رحمت ہی نہیں رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپؐ کی حیات طیبہ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر اچھے بھلے لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں بلکہ گھروں اور خاندانوں میں معمولی تکرار کے نتیجے میں لوگوں کے انتقامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کتنی مار پیٹ اور خون ریزی ہوتی ہے، ہر آدمی جانتا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ ذہنی و فکری تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے اکساہٹ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ایک صحابی آں حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسولؐ اللہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کیا کر۔ ‘‘ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ کچھ مزید فرمایئے۔ آپؐ نے پھر فرمایا: ’’غصہ نہ کیا کر۔ ‘‘ جب انہوں نے تیسری مرتبہ درخواست کی تو بھی آپؐ نے وہی نصیحت فرمائی۔ ( بخاری، عن ابی ہریرہؓ)
 انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی، غصہ ومحبت، شیرینی وتلخی اور عفو وانتقام کا عجیب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہر ابن آدم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن، انسانی شخصیت کا حُسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا، حُسن وجمال اور کمال انسانیت ہے۔ یہ صفات بہت عظیم اور یہ کام بہت اچھا ہے مگر اس میں بڑی محنت لگتی ہے اور یہ رُتبۂ بلند اسی کو ملتا ہے، جسے خدا بخشے۔ خدا کی توفیق انہی کو ملتی ہے جو اس کے طلبگار ہوں۔ غصے کو پی جانا، عفوو درگزر اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک متقین کی علامت اور اہلِ جنت کی صفت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
 ’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کیلئے تیار کی گئی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں ) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘ (آلِ عمران: ۱۳۳-۱۳۴)
ہمارے آقا و مولاؐ عفو و درگزر کا مجسمہ تھے۔ آپؐ احسان وانعام سے دشمنوں کو بھی نوازدینے والے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی حیات ِ مبارکہ میں جو مشکل ترین لمحات آئے، ان میں سفر طائف خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مؤرخ ابن سعد کے مطابق، آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے علاقے میں دس دن گزارے اور جب آپؐ پر ظلم وستم شروع ہوا تو زید بن حارثہؓ آپ کی ڈھال بن گئے اور وہ بھی زخمی ہوئے لیکن انہیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ وادیِ نخلہ میں بھی آپ کئی دن ٹھہرے رہے۔ زید بن حارثہؓ آپؐ کے زخموں کو چشمے کے پانی سے صاف کرتے اور ان پر پٹی باندھتے۔ ایک دن زید بن حارثہؓ نے روتے ہوئے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! اب آپؐ قریش کے پاس کیسے جائیں گے، جب کہ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے آپؐ کو مکہ سے نکال دیا ہے۔ ‘‘ ایسی نازک گھڑی میں جس پختہ ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ آپؐ نے اپنی کامیابی کو یقینی قرار دیا، وہ ایک نبی ہی کی شان ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے زیدؓ! غم نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ اس تنگی کو جو تو دیکھ رہا ہے فراخی میں بدل دے گا اور ان مشکلات کو ختم کردے گا اور یقیناً اللہ اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کی کامیابی کا ضامن ہے۔ ‘‘ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص۲۱۲)۔ طائف سے واپسی پر آپؐ وادیِ نخلہ میں مقیم تھے۔ رات کا وقت تھا، آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:
’’اے اللہ! میں تیرے حضور اپنی مصیبت اور الم وغم، بے بسی اوربے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری و بے وقعتی کا شکوہ پیش کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! کمزوروں اور ضعیفوں کا تو رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ اے اللہ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کسی بیگانے کے حوالے جو میرے ساتھ درشت رویہ اختیار کرے یا کسی دشمن کے سپرد کررہا ہے جو مجھ پر حاوی ہوجائے۔ اے اللہ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی کی کوئی پروا ہے نہ کسی مصیبت کا غم۔ اگر تیری جناب سے مجھے عافیت نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لئے کشادگی ہی کشادگی ہے۔ اے اللہ! تیری ذاتِ بابرکات کے اس نور کا واسطہ دے کر خود کو تیری پناہ میں دیتا ہوں جو تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتا ہے اور دنیا وآخرت کے ہر معاملے کو درست فرمادیتا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیری ناراضی کی زد میں آجاؤں۔ میں تو تیری رضا پہ راضی ہوں اور آرزو ہے کہ تو بھی مجھ سے راضی ہوجائے۔ مولائے کریم! تیرے بغیر نہ کوئی زور ہے نہ طاقت۔ ‘‘ (تفسیرابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ)
ابن ہشام نے اپنی تصنیف السیرۃ النبویہ کے صفحہ ۴۲۰ پر یہی دعا لکھی ہے۔ یہ دعا اتنی عظیم الشان ہے کہ اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کو ہرروز مانگنی چاہئے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا ہے اور اگر حضوریِ قلب اور مکمل عاجزی کے ساتھ یہ دعا رب ذوالجلال کے حضور پیش کی جائے تو اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ 
آپؐ کی زندگی کا نازک ترین لمحہ سفر ہجرت کے لیے نکلنا تھا۔ ہجرت کے موقع پر آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ افراد تھے جو آپؐ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے گیارہ بدر کے میدان میں قتل ہوگئے۔ باقی جو تین بچے انہیں فتح مکہ کے موقع پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نوازا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی سفر کے دوران جب آپؐ کو پکڑنے کے لئے لوگ آپؐ کا تعاقب کررہے تھے تو سراقہ بن مالک آپؐ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، مگر آپؐ اللہ کی حفاظت میں تھے۔ سواونٹوں کے لالچ میں آنے والا یوں بے بس ہوا کہ مجبوراً اسے کہنا پڑا اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معاف فرما دیجئے۔ آپؐ نے کہا میں نے تمہیں معاف کردیا۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے لکھ بھی دیجئے تو آنحضوؐرنے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اسے لکھ کر دے دیں۔ یہ ایک معجزہ ہے جس میں آنحضورؐ کی علم دوستی کے ساتھ عفوودرگزر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس دور میں قیصر وکسریٰ کے لئے بھی ہنگامی سفر کے دوران کسی کو تحریر لکھ کر دینا ناممکن تھا۔ آپؐ کے صحابہ پہلی وحی آنے کے بعد قلم ودوات اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام)
آپؐ نے سراقہ کو یہ بھی کہا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک دن کسریٰ کے سونے کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ کو یقین نہ آیا، مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ قولِ رسولؐ سچ ثابت ہوا اور حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن فتح کیا تو کسریٰ کے سونے کے کنگن بھی مالِ غنیمت میں مدینہ بھیجے۔ حضرت عمرؓ نے یہ کنگن سراقہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ فتح مکہ کے وقت سراقہ مسلمان ہوگئے تھے۔ 
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں پہلا معرکہ غزوۂ بدر تھا۔ اس میں ۳۱۳؍صحابہؓ کو کفارِ مکہ کے ایک ہزار کے لشکر پر عظیم الشان فتح ملی۔ 
۷۰ ؍ دشمن تہہ تیغ ہوگئے اور ۷۰ ؍ جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ آپؐ نے اپنے شہید ہونے والے چودہ صحابہ کو جب بدر کے میدان میں دفن کیا تو صحابہ کو حکم دیا کہ کفار کی بکھری ہوئی لاشوں کو بھی ایک گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیں۔ اسی موقع پر آپؐ نے ان دشمنوں کے بارے میں کہا کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے موت کے بعد دفن کیا جائے تاکہ درندے اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں۔ 
مکی زندگی میں آپؐ پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ ان کی تفصیل پڑھ کر بندۂ مومن کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ جس شہر کے لوگوں نے آپؐ سے دشمنی میں ہر انسانی اخلاق پامال کیا، اسے اللہ نے آپؐ کے سامنے سرنگوں کردیا۔ مکہ میں آپؐ رمضان ۸ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپؐ کے ایک علَم بردار سعد بن عبادہؓ جوش ایمانی سے پکار اٹھے: ’’ آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے، آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ ‘‘ یہ بات، آپؐ کے جاں نثار صحابہ عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ نے بھی سنی اور سردار قریش، ابوسفیان، جو حضرت عباسؓ کی پناہ میں تھا اور یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔ جب آپؐ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہل مکہ کی عزت کا دن ہے۔ ‘‘ فاتح اعظم ؐ فتح کی گھڑی میں فرمارہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ (البدایۃ والنہایۃ)
خانۂ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظرڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپؐ نے ایک مؤثر خطبہ دیا، جس میں اللہ کی توحید وعظمت، اس کی مدد ونصرت، اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپؐ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبرونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتاہے۔ آپؐ مجمع سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ’’اے اہلِ قریش، تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ؟‘‘ وہ بہ یک زبان پکار اٹھے، ہمیں آپؐ سے حُسنِ سلوک کی امید ہے۔ آپؐ، ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھتیجے ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انہی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا، جنہوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابلِ شکست قرار دیا تھا اوراس مہربان بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے وقعت گردانا تھا۔ عظمتوں اور رفعتوں کے امینؐ نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت پر بیٹھے اپنے برادران سے کہی تھی: آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ (البدایۃ والنہایۃ) اسوۂ رسولؐ اس امت کی راہ نمائی کیلئے کمال حسن وخوبی کے ساتھ سیرت میں جلوہ افروز ہے۔ انسان کی عظمت یہ نہیں کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ عظمت یہ ہے کہ قوت کے باوجود انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھے اور مدمقابل کو معاف فرمادے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: قوت اور بہادری کسی کو پچھاڑ دینے کا نام نہیں بلکہ بہادر اور قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ ‘‘ (متفق علیہ)
 ہم پستی سے بلندی کی طرف اٹھنا چاہیں تو یہ ارادہ بڑا مبارک ہے۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اسوۂ رسولؐ کی پیروی کامیابی کی یقینی کلید ہے۔ انسان کمزور ہے اور مغلوب الغضب ہوجاتا ہے۔ آتش انتقام بھڑک اٹھے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان سارے مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سر کرنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتباع رسولؐ۔ اسی سے بندہ، اللہ کا محبوب اور بخشش خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر حقیقت میں تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۳)
قارئین محترم! آئیں سچے دل سے ارادہ باندھ لیں اور اللہ سے عہد کریں کہ اتباع رسول ﷺ میں ہم بھی غصہ وانتقام کی آگ بھڑکانے کی بجاے عفوودرگزر کا مرہم زخموں پر رکھیں گے۔ غصے پر قابو پانا ِ رسولؐ اللہ کی عظیم الشان سنت ہے۔ مخالفین کو معاف کردینے والا روزِ محشر اللہ کے ہاں معافی کا مستحق قرار پائے گا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کرنے والا تو ایسا عظیم انسان ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور مخلوق کی محبت ووفا اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK