Inquilab Logo Happiest Places to Work

امام حسینؓ خلافت ِراشدہ کی سوچ کے وارث اور ان کی اقدار کے محافظ تھے

Updated: July 04, 2025, 4:44 PM IST | Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai

یزید سراسر کرپشن ہے اور اُس کے کرپشن کے تین زاویے اور پہلو تھے، وہ سیاسی، مالی، اوراَخلاقی کرپشن کا بانی بنا، پھر اس نے خلافت ِراشدہ اور نظام رسالت کی تمام قدروں کو پامال کر کے کرپٹ اور سفاک آمریت کے نظام کو رائج کیا۔

Imam Ali (RA) defeated Yazidism by sacrificing his life. Do we remember this lesson? Photo: INN
امام عالی مقامؓ نے اپنی جان کی قربانی دے کر یزیدیت کو مات دی تھی، کیا ہم اس درس کو یاد رکھتے ہیں؟۔ تصویر: آئی این این

واقعہ کربلا اور شہادت امام حسینؓ ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ؟ امام عالی مقام کی شہادت کا فلسفہ کیا ہے ؟ امام عالی مقام کی شہادت نے عالم اسلام اور عالم انسانیت کو کیا دیا؟ کیا فکر و سوچ عطا کی؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو واقعہ کربلا اور خانوادئہ رسولؐ کی مقدس ہستیوں کی شہادت اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے گرد گھومتے ہیں۔ واقعہ کربلا کے اندر دو قسم کے فلسفے اور سوچ آپس میں ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ دو فلسفے اور دو سوچیں کیا تھیں، انہیں سمجھنے کی اَشد ضرورت ہے تاکہ واقعہ کربلا صرف واقعہ کربلا نہ رہے بلکہ ایک اَبدی حقیقت کے طور پر سمجھ میں آجائے۔ حسین حسینیت کا روپ دھار چکے ہیں، اسی طرح یزید یزیدیت کا روپ دھار چکا ہے، واقعہ کربلا انہی دو سوچوں کا ٹکرائو تھا ایک سوچ جو یزیدیت کے روپ میں تھی وہ آج بھی موجود ہے۔ وہ سوچ یہ تھی کہ طاقت ہی حق ہے، یعنی جس کے پاس طاقت ہے، اُسی کی پیروی کی جائے، اُسی کا ساتھ دیا جائے، اُس سے ہر صورت سمجھوتہ کیا جائے، اس سے بنائی جائے، بگاڑی نہ جائے، اُس کی تابعداری کی جائے، اُس کی معاونت کی جائے اور یوں اس کی تائید کر کے اور اس کی تائید لے کر زندہ رہا جائے۔ 
اس سوچ کے ساتھ امام حسینؓ کی سوچ کا ٹکرائو تھا۔ اُن کی سوچ تھی کہ طاقت ہی حق نہیں ہے بلکہ حق ہی طاقت ہے، یعنی طاقت کی پرستش نہ کی جائے، طاقت کا ساتھ نہ دیا جائے، حق کا ساتھ دیا جائے، حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر ایسا وقت آئے کہ طاقت آپ کو کچل بھی دے تو آپ پھر بھی زندہ و جاوید ہیں۔ 
ان دوفلسفوں کے ٹکرائو نے یہ بات امت مسلمہ کو اور عالم انسانیت کو سمجھائی کہ واقعہ کربلا کے نتیجے میں سیدنا امام حسینؓ شہید ہوگئے، اور یزید نے اپنا تخت بچا لیا، حالانکہ ابھی کوئی مسلّح جنگ نہیں تھی، کوئی بغاوت کی صورت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی، یہ تو پرامن قافلہ تھا جو کوفہ کی طرف رواں تھا، اور صرف خاندان کے لوگ تھے۔ مگر واقعہ کربلا کے نتیجے میں امام حسینؓ اور خانوادئہ رسولؐ سب شہید ہوگئے، یزید کا تخت بچ گیا، کربلا کا فلسفہ یہ ہے کہ حسینؓ شہید ہو کر بھی زندہ ہوگئے اور یزید تخت بچا کر بھی مردہ ہوگیا، حسینؓ نیزے کی نوک پر چڑھ کے بھی جیت گئے اور یزید تخت پر براجمان ہو کر بھی ہار گیا۔ گویا امام حسینؓ نے جیت اور ہار کا مفہوم بدل دیا۔ 
یزید ظلم وبربریت کا نام تھا، اور حسینؓ انسانیت کا استعارہ تھے، یزید خیانت تھا، حسینؓ امانت تھے، یزید ظلم تھا، سیدنا حسینؓ عدل تھے، یزید جبر تھا، سیدنا حسینؓ صبر تھے، یہ ظلم وعدل اور صبر کا مقابلہ تھا، یزید سراسر جفا تھا، حسینؓ سراسر وفا تھے، یزید مطلق العنانی کا نام تھا، حسینؓ مساوات ایمانی کا نام ہے۔ یہ دوکردار تھے، یزید باطل کردار کا نام ہے، حسینؓ حق کے کردار کا نام ہے۔ اسلئے جبروظلم، خیانت، کرپشن، دہشت گردی اور خونریزی کی طاقت یزیدیت بنی اور صبر، جرأت، عدل کا کردار، امن کی خوشبو یعنی حسینیت انسانیت کا زیور بنی۔ یزید سراسر بے حیائی اور لوٹ مار کا نام تھا، حسینؓ سراسر تقویٰ اور ایثار کا نام تھا۔ 
یہ ذہن میں رکھ لیں کہ یزید سراسر کرپشن ہے اور اُس کے کرپشن ک کے تین پہلو تھے، وہ سیاسی، مالی، اوراَخلاقی کرپشن کا بانی بنا۔ اسلامی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے اُس نے سیاسی کرپشن کی بنیاد رکھی۔ اُس نے نظامِ خلافت اور خلافتِ راشدہ جو کہ سیرتِ مصطفی کا عملی نظام تھا اس کی اَقدار کو پامال کیا۔ اگر آپ سیرت مصطفیٰ ﷺ اور سنت ِ مصطفیٰؐ اور تعلیمات ِمصطفیٰؐ یہاں تک کہ قرآن وسنت کو عملی نظام کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو خلافت ِ راشدہ کو دیکھ لیں، یزید نے اُس خلافتِ راشدہ کی قدروں کو پامال کیا اور اُسے بدترین ملوکیت، انتہائی سفاک، کرپٹ آمریت اور ریاستی دہشت گردی سے بدل دیا۔ جہاں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو دریائے دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والے بکری کے بچے کی بھی فکر تھی وہاں خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نفوس کچل دیئے گئے۔ 
امام حسینؓ خلافت ِ راشدہ کی سوچ کے وارث تھے، اُن اقدار کے محافظ تھے، اُن اقدار کو Re-enforce کرنا چاہتے تھے، اُن کو تمکّن دینا چاہتے تھے اور اُس سوچ پر مبنی امت کا مستقبل سنوارنا چاہتے تھے۔ یزید نے خلافت ِراشدہ اور نظام رسالت کی تمام قدروں کو پامال کر کے بدترین کرپٹ اور سفاک آمریت کے نظام کو رائج کیا، جس کے نتیجے میں اُس نے اوپر سے لے کر نیچے تک خاندانی بادشاہت قائم کی۔ یزید کا وطیرہ تھاکہ اس نے جتنے بزرگ، باکردار، پختہ، اچھی سیرت والے، عمر رسیدہ و تجربہ کار، دیانت دار، ایماندار افراد جن جن مناصب پر فائز تھے اُن سب کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا اور اپنے خاندان کے لونڈوں کو اُن کے مناصب پر بٹھا دیااور اپناحلقہء احباب ہر جگہ پر قائم کیا۔ یعنی آقاؐ نے جو سیاست اپنی امت کواپنی سنت اور ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کی صورت میں عطا کی تھی اُس نے اُس سیاست کا کلچر بدل دیا حالانکہ آقاؐ نے فرمایا:’’میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا ہے۔ ‘‘ یزید نے آپؐ کی سنت پر قائم خلافت کو بدل کر کرپٹ بادشاہت و آمریت کی بنیاد رکھی۔ یہ اس کی سیاست تھی۔ اُس نے اپنی کرپٹ سیاست کے دوران لوگوں سے اختلافِ رائے کا حق چھین لیاحالانکہ اپنے حق کی خاطر احتجاج کرنا معاشروں میں ایک جمہوری طریقہ ہے، اُس نے احتجاج کا حق بھی چھین لیا۔ 
یہاں تک کہ واقعہ کربلا اور شہادت امام حسینؓ کے بعد اہلِ مدینہ نے امام حسینؓ کی شہادت پر احتجاج کیا اور یزید نے افواج بھیج کر مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کر دیا اور نہ صرف مدینہ منورہ پر قبضہ کیا بلکہ مسجد نبوی پر بھی قبضہ کر لیااور اپنے گھوڑے، اونٹ اور خچر باندھ دیئے۔ تین دن تک مسجد نبویؐ میں اذان، جماعت اور نماز معطّل ہوگئی۔ اس واقعہ پر مؤرخین، محدثین اور اسلام کی پوری تاریخ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ کسی غیر معتبر اور چھوٹے درجے کے مؤرخ اور امام کا بھی اس واقعہ پر اختلاف نہیں ہے۔ اس واقعہ میں بہت سے صحابہ، تابعین اور صحابیات شہید ہوئے اور تمام شہداء کا پورا ایک خطہ جنت البقیع میں ہے۔ 
یزید کی دوسری کرپشن اس کی مالی کرپشن تھی جس کی اس نے بنیاد رکھی۔ خلافت ِ راشدہ کے دوران تو ایک عام آدمی بھی کھڑا ہو کر پوچھ سکتا تھا کہ آپ نے یہ نئے کپڑے کہاں سے لئے ہیں ؟ اس وقت تو یہودی مقدمہ دائر کر سکتا تھا کہ یہ زرہ میری ہے، تو وقت کے امیر المؤمنین جج کی عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ جہاں عدل و انصاف کا نظام آقاؐنے اپنی امت کو عطا فرمایا تھا اور اس پر عمل درآمدکو یقینی بنایا، وہاں یزید کے دور میں قومی اور سرکاری خزانہ ذاتی عیاشیوں کی نذر ہوگیا تھا۔ شہنشاہانہ انداز سلطنت تھا، عیاشی کی زندگی تھی۔ اُس نے قومی خزانے کواپنی عیاشی، امارت، شہنشاہیت اور بادشاہت کی خاطربے دریغ لٹایا۔ 
اس کا تیسرا کرپشن اخلاقی کرپشن تھا کہ اس نے دینی واسلامی اقدار کو مٹا دیا اور بے حیائی کو عام کیا۔ اپنے محل میں بے حیائی اور حدودِ الہیہ کو توڑنے کا رواج یزید نے دیا۔ یزید وہ پہلا شخص تھا جس نے بدکاری اور بے حیائی کو رواج دیا۔ اِن تین اَقسام پر مشتمل کرپشن اور پورے نظام کے مجموعے کا نام یزیدیت ہے۔ یہ پورا نظام یزیدیت کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ جس کی طرزِ زندگی، طرزِ حکمرانی اور طرز سلطنت میں اِن چیزوں کی جھلک نظر آئے وہ اپنے دور کا یزید ہے اور جو اِن پلیدیوں سے ٹکرائے وہ اپنے دور کا غلامِ حسینؓ ہے۔ وہ اپنے دور کا حسینیت کا پیروکار، حسین کا وفا دار اور حسینؓ کے لشکر کا ایک سپاہی ہے جو اپنے دور کے یزید اور اپنے دور کی یزیدیت کو للکارے اور ٹکرائے۔ یزید نے انسانی حقوق کا قتل عام کیا، انسانی آزادیوں، اَخلاق وشرافت کی اقدار، دین اور اَحکام شرع، نظام احتساب اور عدل وانصاف کا قتل عام کیا، سارے نظام کو اپنی حرص اور ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یزید نے ساری سلطنت کا نظام اپنی ذاتی خواہش کے نام کردیا۔ یہ باقیاتِ یزیدیہ ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK