Inquilab Logo

فٹ بال کی بادشاہت

Updated: December 21, 2022, 10:08 AM IST | Mumbai

قطر میں منعقدہ عالمی فٹ بال کپ کا بڑا شہرہ رہا۔ پہلے میچ سے لے کر اتوار کو کھیلے گئے فائنل تک پوری دُنیا کی توجہ اسی ملک اور خطے پر مرکوز تھی مگر فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے معاملے میں وہی فقرہ یاد آتا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

قطر میں منعقدہ عالمی فٹ بال کپ کا بڑا شہرہ رہا۔ پہلے میچ سے لے کر اتوار کو کھیلے گئے فائنل تک پوری دُنیا کی توجہ اسی ملک اور خطے پر مرکوز تھی مگر فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے معاملے میں وہی فقرہ یاد آتا ہے جو اَب سے پہلے کے بچے کہا کرتے تھے کہ ’’کھیل ختم پیسہ ہضم۔‘‘ چونکہ فائنل ہوچکا ہے اس لئے اب بہت کم لوگ فٹ بال پر گفتگو کرینگے۔ اس میں شائقین کا اتنا قصور نہیں جتنا کہ اُن طبقات کا ہے جو کسی بھی دوسرے کھیل پر کرکٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طبقات اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے رفتہ رفتہ پوری دُنیا پر کرکٹ کا جنون طاری کردیا ہے۔ خاص طور پر برصغیر۔ یہ خطہ کرکٹ کے جنون میں اس حد تک مبتلا ہے کہ کسی بھی دوسرے کھیل کو اہمیت نہیں دی جاتی بھلے ہی اُسے تحقیر کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا ہو۔ دُنیا کے دیگر ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا حالانکہ وہاں بھی کرکٹ ہی کو فروغ دینے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ آج بھی چین میں ٹیبل ٹینس، بھوٹان میں تیر اندازی، کمبوڈیا اور لاؤس میں کک باکسنگ، فلپائن میں باسکٹ بال، منگولیا میں کشتی، پناما، نکاراگوا اور وینی زوئیلا میں بیس بال کو ترجیح دی جاتی ہے۔ رہی فٹ بال کی بات تو دیگر کھیلوں کے بجائے اس کا صرف کرکٹ سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کی پُرزور حمایت کے باوجود آج بھی فٹ بال کے شائقین زیادہ ہیں اور کرکٹ کے شائقین کم۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے فٹ بال کے مداحوں کی مجموعی تعداد ۳ء۵؍ ارب سے زیادہ ہے جبکہ کرکٹ کے مداحوں کی مجموعی تعداد ۲ء۵؍ ارب ہے۔ اس کے بعد بیس بال (۲ء۲؍ ارب) اور ہاکی (۲؍ ارب) کا نمبر آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کرکٹ میں پیسہ لگانے، اس میں پیسہ دیکھنے، پیسہ جیتنے یا ہارنے اور پیسہ سے پیسہ کمانے کے متوالے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک فٹ بال کی بادشاہت کو ختم نہیں کرسکے ہیں۔ یہ بادشاہت اس حقیقت کے پیش نظر بھی آنکی جاسکتی ہے کہ فٹ بال (مثال کے طورپرفیفا) ورلڈ کپ کھیلنے والے ملکوں کی تعداد ۳۲؍ ہے جبکہ کرکٹ( مثال کے طورپرآئی سی سی) ورلڈ کپ کھیلنے والے ملکوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۱۵؍ ہے۔یہاں بھی فٹ بال کی برتری قائم ہے۔ 
 ہم کرکٹ کے مخالف نہیں مگر کرکٹ کے پیچھے جو طاقتیں ہیں، ان کی جو حرکتیں ہیں، کرکٹ کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کے جو ہتھکنڈے ہیں اور جتنا جوا بڑے ٹورنامنٹوں کے دوران کھیلا جاتا ہے ہمیں اُن سب سے اُلجھن ہے۔ہمیں اس بات سے بھی اُلجھن ہے کہ کرکٹ کے ساتھ بہت سے اسکینڈل جڑے رہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی تنازع اس کے جلو میں رہتا ہے۔ فٹ بال بڑی حد تک تنازعات سے پاک ہے۔ بلاشبہ تنازعات نے اس میں بھی سر اُبھارا ہے (مثلاً میرا ڈونا کا ’’ہینڈ آف گاڈ‘‘ کے نام سے مشہور تنازع یا بدعنوانی کے الزامات) مگر ان کی تعداد، نوعیت اور سنگینی کرکٹ کے تنازعات کی تعداد، نوعیت اور سنگینی سے بہت کم ہے۔ اس لحاظ سے ہم خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا کھیل بہتر؟ فٹ بال یا کرکٹ؟ 
 اس کا جواب ہے کہ جو کھیل زیادہ صاف ستھرا ہو، جس میں پیسے کا عمل دخل کم ہو، جس میں سٹہ بازی یا تو بالکل نہ ہو یا زیادہ نہ ہو، جس میں کھلاڑیوں اور شائقین کا  کم وقت خرچ ہوتا ہو اور جس میں کھلاڑیوں کو زیادہ زیر بار نہ ہونا پڑتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ان تمام معاملات میں فٹ بال کافی حد تک کھرا اُترتا ہے۔اس کے باوجود ہمارے ملک میں کرکٹ کورِلیجن (مذہب، دھرم) کا درجہ دینا افسوسناک ہے۔ اسی غیر معیاری تخصیص کا نتیجہ ہے کہ دُنیا میں کہیں بھی کرکٹ کی بات ہوتی ہے تو ہندوستان کا نام پہلے آتا ہے جبکہ یہ کھیل ہندوستانی تو ہے نہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK