اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے جمعہ کو خبردار کیا کہ غزہ کی تقریبا ایک تہائی آبادی نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے اور مارچ سے اب تک ۱۰۰ سے زائد افراد بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 26, 2025, 10:23 PM IST | London/Paris/Berlin/Tel Aviv
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے جمعہ کو خبردار کیا کہ غزہ کی تقریبا ایک تہائی آبادی نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے اور مارچ سے اب تک ۱۰۰ سے زائد افراد بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے غزہ میں بدتر ہوتے انسانی بحران کو ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور محصور علاقے میں بڑھتے قحط کی وارننگ کے درمیان امداد تک غیر محدود رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تینوں یورپی ممالک کے مشترکہ بیان کے چند گھنٹوں بعد، اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار غیر ملکی ممالک کو غزہ میں فضائی امداد گرانے کی اجازت دے گا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور جرمن چانسلر فریڈرک میرز نے ایک مشترکہ اپیل جاری کی ہے جس میں فوری جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوریڈورز کو فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے جمعہ کو سہ فریقی کال کے بعد کہا کہ ”شہری آبادی کو ضروری امداد سے محروم رکھنا ناقابل قبول ہے۔“ تینوں لیڈران نے کہا کہ اگر صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو وہ ”مزید کارروائی کرنے کیلئے تیار“ ہیں۔ اگرچہ ممکنہ اقدامات کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ لندن، پیرس اور برلن میں مربوط سفارتی اور اقتصادی دباؤ پر بات چیت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی ۸۵؍ فیصد آبادی ناقص تغذیہ کے ۵؍ ویں اور سب سے خطرناک مرحلہ میں: ماہرین
اسرائیل نے فضائی راستے سے امداد پہنچانے کی اجازت دی
دباؤ کے کچھ اثرات دکھانے کے اشارے کے طور پر، اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے رپورٹ کیا کہ فوج نے غیر ملکی حکومتوں کو جمعہ سے غزہ میں فضائی امداد گرانے کی اجازت دے دی ہے۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ”اس اقدام کا مقصد اتحادیوں کی تنقید کو کم کرنا اور مزید سفارتی نقصانات سے بچنا ہے۔“
امدادی گروپس نے اس اعلان کا محتاط خیرمقدم کیا لیکن زور دیا کہ صرف فضائی راستے سے امداد کی ترسیل، بحران کو حل نہیں کر سکتی۔ اقوام متحدہ کے ایک امدادی کوآرڈینیٹر نے کہا کہ ”غزہ کو فضائی پارسلز کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے کھلی زمینی گزرگاہوں اور ٹرکوں کے مسلسل قافلوں کی ضرورت ہے۔“
میکرون کا فلسطین کو تسلیم کرنا اہمیت کا حامل
میکرون کے ستمبر میں باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حالیہ فیصلے کے بعد اسرائیل دباؤ میں آگیا ہے اور غزہ کی سنگین صورتحال کے تئیں فوری اقدامات کرنے کی کوششوں کو فروغ ملا ہے۔ فرانس یہ قدم اٹھانے والی پہلی بڑی مغربی طاقت بن جائے گا جس کے باعث اس کی پیروی کرنے کیلئے برطانیہ اور جرمنی جیسی یورپی طاقتوں اور یورپی یونین کے رکن ممالک پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ اگرچہ دونوں حکومتوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے لیکن ایسا کرنے کیلئے ان پر سیاسی دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ حال ہی میں ۲۲۰ سے زیادہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے ایک خط پر دستخط کئے ہیں جس میں اسٹارمر سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جرمنی، جو روایتی طور پر یورپ میں اسرائیل کا سب سے مضبوط اتحادی رہا ہے، نے بھی سخت لہجے میں انتباہ دیا ہے کہ امداد پر جاری پابندیاں ”ناقابل قبول“ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کیلئے امید کی بوتل: اناج سے بھری پلاسٹک کی بوتلیں بحیرۂ روم کے حوالے
غزہ کی انسانی صورتحال سنگین
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے جمعہ کو خبردار کیا کہ غزہ کی تقریبا ایک تہائی آبادی نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے اور مارچ سے اب تک ۱۰۰ سے زائد افراد بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔ یونیسیف نے بتایا کہ اس کی ٹیم جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں غذائی قلت کے شکار ۵۰۰۰ بچوں کا علاج کیا۔ اطلاعات کے مطابق، جولائی میں ۱۳ بچوں کی بھوک سے موت ہو چکی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے علاقے میں کافی سامان داخل ہونے دیا ہے۔ اس کے مطابق، اقوام متحدہ امداد کو مناسب طور پر تقسیم نہیں کررہی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں دلیل دیتی ہیں کہ اسرائیل کی جاری پابندیاں اور سیکوریٹی چیکس نے مسلسل ترسیل کو ناممکن بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: خون کی شدید کمی سے زخمیوں کی چند منٹوں میں موت ہوجاتی ہے: رپورٹ
یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا اسرائیل کا فضائی امداد کی اجازت دینے کا فیصلہ پابندیوں میں وسیع تر نرمی کا اشارہ ہے، لیکن امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ کی ۲۰ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل آبادی کیلئے، جو قحط کا سامنا کر رہے ہیں، امداد تک فوری رسائی پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔