Inquilab Logo Happiest Places to Work

مہر مقرر کرنے میں اعتدال ضروری ہے

Updated: February 21, 2020, 11:53 AM IST | Khalid Saifullah Rahmani

مہر بالکل بے حیثیت بھی نہ ہو اوراتنا زیادہ بھی نہ ہوکہ شوہر کے لئے اس کی ادا ئیگی ممکن نہ رہے۔ اس میں فقہاء نے خاندانی روایات کو بھی ملحوظ رکھا ہے

علامتی تصویر۔ تصویر : آئی این این
علامتی تصویر۔ تصویر : آئی این این

قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مہر کا ذکر آیا ہے ، مہر نکاح کے واجبات میں سے ہے ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو۔ ‘‘ ( النساء : ۴)  ( تفسیر ماجدی : ۱؍۶۹۳) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ’نحلہ‘ کا ترجمہ ’ فریضہ ‘ سے کیا ہے اور ایک معروف عالم لغت نے کہا ہے کہ عربی زبان میں نحلہ، واجب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ؛ (دیکھئے ، تفسیر ابن کثیر : ۱؍۴۲۷ ، تفسیر آیت مذکورہ) اس لئے مہر کا مقرر کرنا اور اس کا ادا کرنا واجب ہے۔  اگر کوئی شخص مہر نہ  دینے کی شرط پر نکاح کرلے ، تب بھی عورت کا خاندانی مہر ( مہر مثل) واجب ہوگا اور امام مالک کے یہاں تو ایسی صورت میں نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا ۔ مہر کی کم سے کم مقدار حنفیہ کے نزیک دس درہم ہے ، ( بدائع الصنائع : ۲؍۵۶۱ )اگر کسی شخص نے اس سے بھی کم مہر مقرر کیا ، تو اس کا اعتبار نہیں ، ایسی صورت میں بھی کم سے کم دس درہم کے بقدر مہر واجب ہوگا ، (درمختار : ۴؍ ۱۶۹) کیوںکہ رسولؐ اﷲ  کا ارشاد ہے کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہئے : ’’ لا مہر دون عشرۃ دراہم‘‘ ( سنن بیہقی : ۷؍۳۹۲ ، حدیث نمبر : ۱۴۳۸۲ ) دس درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی ہوتی ہے ۔ امام مالکؒ کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار چوتھائی دینار سونا یا تین درہم خالصچاندی ہے ، (الشرح الصغیر : ۲؍۴۲۹ ، مواہب الجلیل : ۵؍۱۸۶ ) چوتھائی دینار کا وزن موجودہ اوزان میں (تقریباً ۴ ماشہ سونا ) اور تین درہم کا ۱۱ ؍گرام کے قریب ہوتا ہے ، امام مالکؒ نے بھی بعض احادیث کو ملحوظ رکھا ہے ۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک کم ترین مقدار مہر کی کوئی حد نہیں ، کم سے کم جو چیز قیمت یا اُجرت بن سکتی ہو ، وہ مہر بھی ہوسکتی ہے۔ ( شرح مہذب : ۱۸؍۷ ، المغنی : ۱۰؍۱۰۱ ) لیکن اس پر اتفاق ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں ؛ کیوںکہ قرآن مجید میں مہر کے لئے ’ قنطار ‘ کا لفظ وارد ہوا ہے ، (النساء : ۲۰) جس کے معنی بہت زیادہ مال کے ہیں : ’’وہو المال الکثیر‘‘ ( دیکھئے ، تفسیربغوی : ۱؍۴۹۸ ) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے بارہ ہزار درہم یا ایک ہزار دینار کو ’ قنطار ‘ قرار دیا ہے۔ (سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱ ، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۰ ) جو نہایت خطیر رقم ہوتی ہے ۔
چنانچہ عہد نبوی ؐ اور عہد صحابہ ؓ میں بعض دفعہ مہر کی اچھی خاصی مقدار بھی متعین کی گئی ہے ، خود رسولؐ اﷲکی ازواج مطہرات میں سے حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار ہزار درہم مقرر ہوا تھا ، جو آپؐ کی طرف سے شاہ حبش نجاشی نے مقرر کیا تھا اور انھوں نے ہی ادا بھی کردیا تھا۔ (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۲۱۰۸ ، نیز دیکھئے ، سنن بیہقی : ۷؍۳۸۲ ، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۶
جب اﷲ تعالیٰ نے صحابہؓ  کو فراخی عطا فرمائی اور معاشی حالات بہتر ہوئے تو انھوں نے زیادہ مہر بھی مقرر کئے ۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی صاحب زادیوں کا مہر ایک ہزار دینار رکھتے تھے ، (دیکھئے : سنن بیہقی : ۷؍۳۸۱ ، حدیث نمبر : ۱۴۳۴۶ ) لیکن عام حالات میں مہر کی مقدار نہ اتنی کم ہونی چاہئے کہ اس کی کچھ اہمیت ہی باقی نہ رہے اور نہ اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ ادائیگی دشوار ہوجائے اور ادائیگی کی نیت نہ ہو ، رسولؐ اﷲ کی ازواج مطہرات کا مہر عام طورپر پانچ سو درہم تھا۔ (مسلم عن ابی سلمہ ص ، حدیث نمبر : ۱۴۲۶ ) راجح یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا مہر بھی پانچ سو درہم ہی تھا ، (موسوعۃ حیاۃ الصحابیات : ص : ۶۲۴ ، محمد سعید مبیض ) ؛ اسی لئے متعدد اہل علم نے لکھا ہے کہ مستحب ہے کہ پانچ سو درہم سے زیادہ مہر نہیں رکھا جائے ، (دیکھئے : الکافی : ۴؍۳۲۸ ، شرح مہذب : ۱۸؍۹ ) پانچ سو درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں تقریبا پندرہ سو اکتیس گرام چاندی ( ۹۰۰ ء ۱۵۳۰) ہوتی ہے ۔غرض کہ مہر کے مقرر کرنے میں اعتدال ہونا چاہئے ، مہر بالکل بے حیثیت بھی نہ ہو اوراتنا زیادہ بھی نہ ہوکہ شوہر کے لئے ادا کرنا ممکن نہ رہے نیز اس میں فقہاء نے خاندانی روایات کو بھی ملحوظ رکھا ہے ، یعنی لڑکی کے دادیہالی خاندان میں جو مہر رکھا جاتا ہو ، اس کو ملحوظ رکھا جائے۔  اسی کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ مہر مثل ‘‘ کہتے ہیں۔ مہر مثل سے مراد صرف تعداد نہیں ہے بلکہ اس کی قدر اور قوت خرید بھی ہے ، جیسے بیس سال پہلے لڑکی کی پھوپھی کا مہر دس ہزار روپیہ رکھا گیا ہو اور آج اس کامہر دس ہزار روپیہ رکھ دیا جائے ، تو یہ انصاف کی بات نہیں ہوگی ، کیوںکہ بیس سال پہلے دس ہزار میں کم سے کم پانچ تولہ سونا خرید کیا جاسکتا تھا اور آج اس سے ایک تولہ سونا بھی نہیں خرید کیا جاسکتا  تو اعتبار صرف دس ہزار کے عدد کا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی قوت خرید کا بھی ہے ، افسوس کہ آج کل مہر کے معاملہ میں بھی افراط و تفریط ہے ، بہت سے علاقوں اور برادریوں میں آج بھی پانچ سو روپیہ مہر مقرر کیا جاتا ہے اور بعض حضرات محض اظہار تفاخر کے طورپر کئی کئی لاکھ روپے مہر مقرر کرتے ہیں اور ادا نہیں کرتے ۔
آج کل چونکہ کرنسی کی قیمت میں استحکام نہیں ہے اورمسلسل اتار کا رجحان ہے۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے پانچ ہزار روپے کی اہمیت تھی  لیکن آج اتنی رقم سے ایک غریب گھرانے کی زندگی بھی نہیں گذر پاتی اور ہندوستان میں نقد مہر ادا کرنے کا رواج نہیں ہے ، ان حالات میں مناسب طریقہ یہ ہے کہ مہر سونے یا چاندی میں مقرر کیا جائے۔ رسولؐ اﷲ کے زمانہ میں درہم چاندی کا اور دینار سونے کا ہوا کرتا تھا ، کیوںکہ سونے اور چاندی کی قیمت میں ابھی بھی ایک حد تک استحکام ہے ؛ اس لئے یہ عورت کے حق میں انصاف کی بات ہوگی ۔ مثلاً اگر آج پانچ تولہ سونا مہر مقرر کیا جائے ، تو اس کی قیمت دو لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ ہے ، اگر اگلے بیس سال کے بعد بھی مہر ادا کیا جائے تو عورت کو پانچ تولہ سونا حاصل ہوگا ، اس کے برخلاف اگر  دو لاکھ  مقرر ہو ، تو ممکن ہے بیس سال بعد اس سے دو ہی تولہ سونا خرید ا جاسکے ، ظاہر ہے یہ عورت کے لئے نہایت نامنصفانہ بات ہوگی کہ ایک تو اس کا مہر وقت پر ادا نہیں کیا گیا ، دوسرے جو مہر دیا گیا۔ اس کی بھی اب قیمت نہایت کم ہوگئی ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ’’اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘‘ نے اپنے دوسرے فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۸۹ء میں حسب ذیل تجویز منظور کی ہے : ’’ مہر کی سونے اور چاندی کے ذریعہ تعیین عمل میں آئے ؛ تاکہ پوری طرح عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے اور سکوں کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے ان کو نقصان نہ پہنچے۔ ‘‘ (نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے ، ص : ۸۸)
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مہر بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہے ، اسلئے صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ مہر نکاح کے وقت ہی ادا کردیا جائے ، صحابہؓ  اور بعد کے ادوار میں بھی عام معمول یہی تھا کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کردیا جاتا تھا ، اور اگر پورا مہر ادا نہیں کرپاتے تب بھی مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ نکاح کے وقت دے دیا جاتا۔
اکثر حالات میں تو مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی ، محض رسمی طورپر مہر مقرر کرلیا جاتا ہے ، رسولؐ اﷲ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نکاح کیا اور مہر مقرر کیا ، لیکن اس کے دل میں ہوکہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا ، تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں وہ زانی شمار کیا جائے گا۔ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں یہ ہے کہ وہ اسے اس کا مہر نہیں دے گا ، تو اس نے دھوکہ بازی کی ، اگر اس کا انتقال ہو اور اس وقت تک اس نے اس کاحق ادا نہیں کیا ، تو قیامت کے دن اس کی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ایک زانی شخص کی حیثیت سے اس کی ملاقات ہوگی ۔ 
( مجمع الزوائد : ۴؍۵۲۳ ، حدیث نمبر : ۷۵۰۷ ، بحوالہ طبرانی )
بعض لوگ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونے کے وقت عورت کو تنگ کرتے ہیں ، تاکہ وہ خود ہی اپنا مہر معاف کرنے پر آمادہ ہوجائے ، یہ نہایت ہی ناشائستہ حرکت ہے اور بے غیرتی اور خدا ناترسی کی بات ہے ، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اﷲ نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گنہگار وہ شخص ہے ، جو کسی عورت سے نکاح کرے ، اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے ، پھر اسے طلاق دے دے اور اس کا مہر بھی نہیں دے۔ ( مستدرک حاکم ، عن عبداﷲ بن عمر  : ۲؍۱۹۹ ، حدیث نمبر: ۲۷۴۳ ) اس لئے پوری دیانت داری کے ساتھ نکاح کے وقت مہر ادا کرنے کی نیت رکھنی چاہے ؛ کیوںکہ جب آدمی کسی قرض کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ، تو اﷲ تعالیٰ کی مدد بھی شریک حال ہوتی ہے اور اگر طلاق کی نوبت آجائے ، تو مہر سے بچنے کیلئے بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہئے ؛ بلکہ مہر کے علاوہ بھی بیوی کو بطور حسن سلوک کچھ دے کر رخصت کرنا چاہئے ، جس کو ’متاع‘ کہتے ہیں اور جس کی خود قرآن مجید میں تلقین کی گئی ہے ۔  البقرہ : ۲۴۱)
چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت خلع کا مطالبہ کررہی ہو اور اس مطالبہ میں مرد کی زیادتی کا دخل ہو ، یعنی اس کی طرف سے ظلم و حق تلفی پائے جانے کی بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کررہی ہو ، تو مرد کے لئے مہر کی واپسی یا اس کے معاف کرنے کا مطالبہ کراہت سے خالی نہیں اور اگر عورت کی غلطی کی وجہ سے خلع کی نوبت آرہی ہے تو مہر کے بقدر واپس لینا یا مہر معاف کرالینا جائز ہے ، تاہم بہتر یہی ہے کہ مہر ادا کردے اور اس صورت میں بھی مقدار مہر سے زیادہ کا مطالبہ مکروہ ہے ۔ (ہندیہ : ۱؍۴۸۸ ، الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمہ ، الفصل الاول فی شرائط الخلع وحکمہ)
اگر کسی وجہ سے زندگی میں مہر ادا نہیں کرسکے ، تو بعض علاقوں میں موت کے بعد بیوی سے مہر معاف کرا دیا جاتا ہے ، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاش سامنے رکھی ہوئی ہے اور عورتیں اخلاقی دباؤ ڈالتی ہیں کہ مہر معاف کردو ، اس وقت رنج و الم کی فضا ہوتی ہے اور اگر اندر سے معاف کرنے پر آمادگی نہ ہو ، تب بھی حیا کے تقاضہ کے تحت وہ زبان سے انکار نہیں کرپاتی ، یہ نہایت ہی ناشائستہ اور غیر شرعی طریقہ ہے ، شرعی اُصول یہ ہے کہ جب کسی کا انتقال ہو ، تو پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے ، پھر ورثہ میں ترکہ کی تقسیم ہو ، جیسے دوسرے قرض واجب الاداء ہیں اور ان کے بارے میں پوچھ ہوگی ، اسی طرح مہر بھی ایک قرض ہے اور اس کی بھی اﷲ کے پاس جواب دہی ہے ، اس لئے مہر معاف کرانے کی کوئی وجہ نہیں ، ترکہ میں سے پہلے دوسرے قرض داروں کی طرح بیوی کا بھی مہر ادا ہونا چاہئے ، اس کے بعد جو بچ جائے وہ تمام ورثہ میں تقسیم ہو ۔حاصل یہ ہے کہ  :
 ۱)  مہر بیوی کا نہایت اہم شرعی حق ہے ۔۲)   مہر نہ بہت کم ہونا چاہئے اور نہ اتنا زیادہ کہ اس کا ادا کرنا شوہر کے لئے ممکن نہ ہو ۔۳) کوشش کرنی چاہئے کہ نکاح کے وقت ہی پورا مہر یا اس کا مناسب حصہ ادا کردیا جائے ۔۴)  اگر اُدھار مہر مقرر ہو تو سونے چاندی میں مقرر کیا جائے ۔۵)  اگر شوہر انتقال تک مہر ادا نہیں کرپایا ہو ، تو اس کے ترکہ میں سے دوسرے قرضوں کی طرح عورت کا مہر بھی پہلے ادا کردیا جائے،  اس کے بعد ترکہ کی تقسیم ہو ۔ ۶)  اگر خدا نخواستہ علاحدگی کی نوبت آئے ، تو مہرا دا کرنے میں بہانہ بازی سے کام نہ لے اور عورت کو خلع پر مجبور نہ کرے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK