Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلم خواتین کیلئے سیدہ کائنات حضرت فاطمہؓ کے نقوشِ سیرت

Updated: March 27, 2023, 3:03 PM IST | Dr. Ali Akbar Al-Azhari | Mumbai

حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبداء فیض صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوضات ظاہری و باطنی کے علاوہ ذہانت کا وافر حصہ پایا تھا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

گلستانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر پھول یوں تو اپنی جگہ نور ونگہت کا مصدر اور انوار و تجلیات کا جامع ہے، لیکن خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین، امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور عترت و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ خوش قسمت ترین طبقات ہیں جوبہ توفیق ایزدی دن رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در انور سے وابستہ رہے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے فیض نبوت سے براہ راست انوار جذب کرنے کا نادر موقع عنایت فرمایا۔
  فی الحال ہمارا موضوع اس ہستی کا تذکرہ ہے جو نہ صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار صحبت سے اکتساب کرتی رہیں بلکہ رہتی دنیا تک اس حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوضات کی قاسم و مختار ہیں یعنی سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا، امام الانبیاء کی تصویر، مالک ردائے تطہیر، چمن زارِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہار، عفت و عصمت کا دُرِّ شہسوار ’’حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا  ۔‘‘خواتین اسلام کیلئے سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی ذات بابرکات اسی طرح اسوہ کامل ہے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کیلئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حضور بڑی خوبصورتی، عقیدت اور کمال محبت سے نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ مثلاً اس ایک شعر میں ان کی بلند مرتبہ شخصیت کا مکمل نقشہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں
مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوۂ کامل بتول ؓ
 یعنی آپ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مسلمان ماؤںکیلئے مکمل اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔دختران اسلام ہر شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات مقدسہ کے آئینے میں دیکھیں تو ایک مثالی بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کی خصوصیات درجہ کمال پر ملتی ہیں۔ شہزادیٔ کونین اور شمع شبستان حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکیزہ سیرت اور حیات طیبہ ہر دور کی مسلمان خواتین کیلئے ہر لحاظ سے نمونہ کمال اور واجب الاتباع ہے لہٰذاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات مقدسہ سے روشنی کشید کر کے موجودہ دور کی خواتین کو واضح نمونہ عمل دکھانا وقت کی اہم ترین دینی ضرورت ہے۔ اسلئے کہ ہر خاتون اگر وہ معاشرے میں نیکی، بھلائی اور حسن عمل کے نقوش چھوڑنا چاہتی ہے تو اس کیلئے اپنی پوری زندگی کو نبی آخر الزماںؐ کے گھر میں پروان چڑھنے والے اسوہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں ڈھالے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اسلئے ہم آئندہ سطور میں حسب ذیل تین پہلوؤں کے حوالے سے اسوہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالعہ کریں گے۔
 ۱۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور بیٹی
 ۲۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور بیوی
 ۳۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور ماں
نقوش سیرت بطور بیٹی
 شہزادی کونین حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت پانچ سال کی تھیں۔ اس عمر میں بالعموم ہر بچہ خارجی حالات و واقعات کا شعور رکھتا ہے۔ گویا فاران کی چوٹیوں سے چمکنے والا آفتاب نبوت جس کی کرنوں نے پوری انسانیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا، اس کی پہلی جھلک سے مستفیض ہونے والے چند خوش قسمت نفوس میں آپ ؓبھی شامل تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حراء سے کئی کئی دنوں بعد لوٹتے ہوں گے تو یقینا ًننھی سیدہ دوڑ کر دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتی ہوں گی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لپک کر ان کو اپنے منور سینے سے لگاتے ہوں گے۔ یوں ابتدائے وحی اور اس کی جملہ کیفیات نہ صرف آپ نے ملاحظہ فرمائیں بلکہ تجلیات الہٰیہ کو بالواسطہ جذب کرنے کا موقع بھی ملتا رہا، نیز اسلام کی خاتون اول حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت نے بھی آپ کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کئے۔
 حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ آپ فرماتی ہیں ’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر روزمرہ زندگی کے معمولات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ کسی کو نہیں پایا۔ (ترمذی) مراد یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے اخلاق، ذات و صفات، عبادت و طاعت اور قول و فعل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ تھیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، آپ رضی اللہ عنہا بچپن سے لے کر تادمِ زیست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنی قریب رہی ہیں اس کا لازمی تقاضا بھی یہی تھا اور پھر آپ ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آگے چلنا تھا۔ اس لئے قدرت نے آپ کو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل پرتو بنادیا تھا۔ یہی حالت سیدنا امام حسن، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بقیہ ائمہ اہل بیت کی تھی جس کو بھی دیکھیں وہ قول وعمل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل شبیہ لگتا تھا۔
  حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبداء فیض صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوضات ظاہری و باطنی کے علاوہ ذہانت کا وافر حصہ پایا تھا۔ اس لئے ہر ذہین بچے کی طرح آپ بھی مظاہر قدرت کو دیکھ کر اس کے خالق کا سراغ لگاتی تھیں۔ ایک روایت میں آپ کے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ ایک دن معصومہ کائنات نے والدہ ماجدہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا ’’امی جان! جس اللہ جل مجدہ نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے کیا ہم اسے بھی دیکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کی معرفت کے حصول کے طریقے بتائے اور فرمایا کہ اس کے برگزیدہ بندے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا نظارہ کرتے ہی ہیں، آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے ضرور مشرف فرمائے گا۔ اس طرح سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سارا دن دعوت حق کے کٹھن فریضے کی انجام دہی کے بعد گھر واپس آتے تو ازراہ شفقت حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو معرفت دین پر مبنی باتیں بتاتے جنہیں وہ خداداد ذہانت کے سبب مِنّ و عَن یاد کرلیتیں اور والدہ محترمہ کے پوچھنے پر انہیں سنا بھی دیتیں۔ یوں آپ نے آغوشِ نبوت میں علوم و معارف کے دریا اپنے اندر جذب کئے اور فیوض نبوت کی وارث اور مخزن قرار پائیں۔

 حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کی سیرت کا تذکرہ ادھور ا رہے گا اگر والدین کے ساتھ آپؓ کی کیفیت محبت و اطاعت کی جھلک نہ دکھائی جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ سید دو عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور نظر اور لخت جگر ہونے کے ناطے جملہ صفات قدرتی طور پر آپ کی شخصیت مطہرہ کا جزوِ لاینفک تھیں۔ اس لئے والدین کی اطاعت جیسی طبعی، فطری صفت اور اس تعلق محبت کی کیفیت کا اندازہ لگانا ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فیض نظر نے جس طرح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کمسنی میں آداب فرزندی سکھادیئے اور وہ پدر بزرگوار کے ایک اشارے پر اپنا سرتن سے جدا کروانے کے لئے تیار ہوگئے تو محبوب خدا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان نظر نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو کس قدر اعلیٰ اور پاکیزہ آداب سے آراستہ کیا ہوگا اس کی گہرائی تک ہمارے تصورات کی رسائی کیسے ممکن ہے کہ اسے ہم الفاظ کا جامہ پہنا سکیں؟اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو حضرت سیدنا امام حسن و حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی سیرت و کردار اور دین کی خاطر ان کی قربانیوں کا انداز دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اسی فیضان نظر کے کرشمے تھے کہ کربلا کے ریگزاروں سے لے کر اطراف و اکناف عالم میں آج تک حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسبی فرزندوں کی قربانیوں کا لازوال سلسلہ جاری و ساری ہے۔
نقوش سیرت بطور بیوی
 گھر، معاشرتی زندگی میں امن وسکون اور اعتدال و توازن قائم رکھنے کے لئے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اس اہم ترین محاذ کو اسلام نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صالح، مسلمان خاتون کی صالحیت، قابلیت اور وقار کا دارومدار اس کی گھریلو ذمہ داریوں میں عہدہ برآ ہونے  سے مشروط کردیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ دوسرے معنوں میں گھر اسلامی معاشرے کا وہ اہم مورچہ ہے جہاں بیٹھ کر عورت اپنا اصل جہاد کرتی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ جہاد زندگانی میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کا مرحلہ ہو یا اولاد کی پرورش و تربیت کا مسئلہ سب جگہ خاتون خانہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور یہ کردار گھر کی پرامن چاردیواری میں ہی ادا ہو سکتا ہے۔ سیدۃ النساء العالمین سے بڑھ کر ان ذمہ داریوں سے کون زیادہ واقف تھا۔ عین جوانی (۲۷؍یا ۲۸؍سال)کی عمر میں وفات کی وجہ سے اگرچہ آپؓ کی ازدواجی زندگی پر مشتمل حصہ بہت مختصر ہے لیکن آپ کی اس کم و بیش دس سالہ ازدواجی عرصہ زندگی میں اسلامی خواتین کیلئے بھرپور نمونہ عمل موجود ہے۔
  سیدہ ٔکائنات رضی اللہ عنہا اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھیں کہ بیوی کا مزاج شوہر کے مزاج اور فکرو عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسے سعادتمندی کی مسند پر بٹھادے اور چاہے تو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد میدان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی میں جتنے معرکہ ہائے حق و باطل بپا ہوئے، ان میں علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کاری ضربیں تاریخ شجاعت کا تابناک باب ہیں۔ آپؓ فاتح خیبر، غازیٔ بدر و احد و حنین اور خندق کے صف اول کے مجاہد تھے۔ ایسے ہمہ جہت مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار کی خدمت کیلئے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی خیر خواہ، محب و مخلص اور بہادر زوجہ، قدرت کا اپنا انتخاب تھا۔ حضرت سیدہ زہراء رضی اللہ عنہا نے شوہر نامدار کی جہادی زندگی میں بھرپور معاونت فرمائی۔ انہیں گھریلو کاموں سے فراغت اور بے فکری مہیا کی۔ سارا دن تیغ و تُفنگ سے تھکے ماندے حضرت علی رضی اللہ عنہ جب واپس گھر آتے تو سیدہ رضی اللہ عنہا سو جان سے ان کی خدمت بجا لاتیں۔ ان سے جنگ کے واقعات سن کر ایمان تازہ کرتیں اور ان کی شجاعت کی داد بھی دیتیں۔ زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، خون آلود تلوار اور لباس کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتیں، یوں یہ پیکر جرأت و شجاعت تازہ دم ہوکر اگلے معرکے کیلئے کمر بستہ ہوجاتے۔
جی ہاں! یہی جذبہ مسلمان بیوی کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ شوہر کی صلاحیت، وقت اور اس کی جان ومال کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت سمجھتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی میں صرف کر دینے پر اسے ابھارتی ہے۔ 
نقوش سیرت بطور ماں
ماں اولاد کے لئے وہ نعمت عظمیٰ اور انعام خداوندی ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال ہے نہ بدل۔ ماں دنیا میں اولاد کیلئے جنت فردوس کا شجر سایہ دار ہے۔ مختصراً یوں کہ ایثار و خلوص کی انتہائی بلندیوں اور مہر و وفا کی اتھاہ گہرائیوں کا نام ’’ماں‘‘ ہے۔ 
ماں اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے کردار کی مالکہ ہوگی تو پھر سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسی مجاہد اور بہادر اولاد پیدا ہوگی جو وقت کی پکار پر طاغوتی سازشوں اور یزیدیوں کے مقابلے میں اپنے خون کا ہدیہ دے کر دین کے شجر کو سرسبز و شاداب رکھے گی۔ یہی آغوش مادر تھی جس کے پروردہ جگر گوشے امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والا صرف علم سے آشنا ہوتا ہے جبکہ آغوش مادر کا کردار یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والا علم کے ساتھ ساتھ عملی اور تربیتی پہلوؤں سے مزین ہوتا ہے۔حضرت فاطمہ ؓجیسی ماں نے اولاد کی تربیت کا جو سبق دیا ہے کون دے گا؟ جہاں فقر اور زہد و عبادت کی انتہا ہو جاتی ہے وہاں اس مامتا کی تربیت کے پروردہ سادات کی ابتداء ہوتی ہے۔
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری والدہ ماجدہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں اور دعا مانگتے ہوئے اپنا نام بھی نہ لیتیں۔ یہ ہے خود غرضی سے پاک خالص رضائے الہٰی کی خاطر عبادت کی عملی تربیت۔
جب حضرت سیدہ فاطمہ ؓ سے پوچھا گیا کہ عورت کا پردہ کیا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’نہ کوئی نامحرم مرد، اسے دیکھ سکے اور نہ وہ کسی غیر محرم کو دیکھے‘‘۔ لہٰذا عورت وہی کہلائے گی جو حیا کے پردے میں مستور ہوگی۔ 
(مضمون کا بقیہ حصہ کل اسی صفحے پر شائع ہوگا)

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورہ الفتح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ: (۱) اہل کفر کے لئے سخت ہیں (۲) اہل ایمان کے لئے پیکر رحمت و شفقت ہیں اور (۳) ان کی پیشانیوں میں سجدوں کی کثرت کی واضح علامت ہے۔ یعنی ان کے شب و روز حالت رکوع و سجود میں اور رضائے الہٰی کی طلب میں گزرتے ہیں۔
 صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و منصب اس بات کا متقاضی تھاکہ وہ ان صفات عالیہ میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عہنم سے بڑھ چڑھ کر اپنی قربت اور خصوصیت کا ثبوت فراہم کرتے۔ تاریخ گواہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملاً ایسا کرکے دکھایا۔ آپ بچپن سے فیضان نبوت و رسالت ؐ کے براہ راست امین تھے۔ عارف کامل اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تھی۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت مطہرہ پر بھی یہی صفات غالب تھیں۔ دونوں نے مَہْبِطِ وحی میں پرورش پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات دونوں کے پیش نظر تھے اس لئے دونوں ہستیوں کا اوڑھنا بچھونا اسلام کی خدمت اور عبادت و ریاضت تھا۔ اس کا اعتراف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کرلیا جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا، ’’سناؤ علی! شریک حیات کیسی ملی ہے؟‘‘ حضرت علیؓ نے عرض کیا ’’نعم العون علی العبادۃ‘‘ یعنی میری شریک حیات فاطمہ ؓعبادت گزاری کے معاملے میں میری بہترین معاون ہیں۔
  حضرت علیؓ کی کل کائنات یہ گھر اور آپ کا سب سرمایہ علم تھا جس کے متعلق سرکار دوعالمؐ نے خود ارشاد فرمایا : ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ سیدنا علی ؓ اس نعمت عظمیٰ پر ہمیشہ فخرکرتے تھے۔ 
 حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت علم سے مالا مال تھے لیکن سیم و زر سے آپ کا دامن ہمیشہ خالی رہا اس لئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں گزری۔ کونین کے مالک کی لاڈلی دو دو اور تین تین دن کچھ کھائے پئے بغیر گزار دیتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینی فرائض سے فرصت پاکر محنت مزدوری کرتے، جو ملتا وہ لاکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں رکھ دیتے اور آپؓ اسے صبر و شکر کے ساتھ قبول فرمالیتیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فقرو تنگ دستی آپ دونوں کے خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہو۔
 تنگ دستی پر صبر و ضبط کرلینا شاید آسان ہو لیکن اس حالت پر راضی اور خوش ہوکر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا اور چہرے پر کبھی ناگواری کے آثار تک نہ لانا بہت بڑے حوصلے اور پختہ کردار کی علامت ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ ’’الفقر فخری‘‘ کہنے والے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت یافتہ عظیم بیٹی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیدہ کونین رضی اللہ عنہا کو دو تین دنوں کے فاقہ کے بعد کچھ ملا۔ اپنے شہزادوں اور شوہر کو کھلانے کے بعد اس کا کچھ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور ﷺنے فرمایا! ’’میری بیٹی تمہارا باپ یہ لقمہ چار دن کے بعد کھارہا ہے۔‘‘ ہاں! یہ وہی گھرانہ ہے جہاں سے مخلوق کو دونوں جہانوں کے خزانے تقسیم کئے جاتے تھے اور اب تک کئے جارہے ہیں لیکن فقر اختیاری تھا کہ اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی۔
کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا = اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
(یعنی پوری دُنیا پر اُن کا اقتدار تھا مگر جو َ کی روٹی پر گزارا کیا، 
ایسی قناعت لائق تعظیم ہے،اس پر لاکھوں بار سلام پیش کیا جائے)۔
  حضرت سیدہ فاطمہ ؓ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عبادت و ریاضت میں محو ہوکر شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں کمی آئی ہو، یا بچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں عبادت و ریاضت کا معمول متاثر ہوا ہو۔ اللہ کی عبادت اور شوہر کی اطاعت میں یہی حسنِ توازن ہے جو خاتونِ جنت کی کامیاب ترین اور مثالی حیاتِ مقدسہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ ورنہ عام طور پر ان دونوں محاذوں پر خواتین و حضرات انصاف نہیں کر پاتے خصوصاً خواتین کیلئے یہ کافی مشکل ہو جاتا ہے۔
 حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فریضہ سمجھتی تھیں اسی طرح میری اطاعت بھی کرتی تھیں۔ عبادت و ریاضت کے انتہائی سخت معمولات میں انہوں نے میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہمیشہ گھر کی صفائی کرتیں، چکی پر گردو غبار نہ پڑنے دیتیں، صبح کی نماز سے پہلے بچھونا  تہہ کرکے رکھ دیتیں، گھر کے ہمیشہ برتن صاف ستھرے ہوتے، ان کی چادر میں پیوند ضرور تھے مگر وہ کبھی میلی نہ ہوتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں سامان خوردو نوش موجود ہو اور انہوں نے کھانا تیار کرنے میں دیر کی ہو، خود کبھی پہلے نہ کھاتیں، زیور اور ریشمی کپڑوں کی کبھی فرمائش نہ کی، طبیعت میں بے نیازی رہی، جو ملتا اس پر صبر اور شکر کرتیں، میری کبھی نافرمانی نہیں کی، اس لئے میں جب بھی صبرو شکر کے اس  پیکر (فاطمہؓ) کو دیکھتا تو میرے تمام غم غلط ہوجاتے۔‘‘
 سب عظمتیں اور رعنائیاں جو کسی بشر میں ہوسکتی ہیں ان کے در کی خیرات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم بیٹی نے اگر بچوں کی تربیت کی خاطر خود تکلیف اٹھائی اور ان کی بہترین تربیت کی تو آج کی مسلمان عورت اس ذمہ داری سے کیونکر راہ فرار تلاش کرسکتی ہے؟ بچوں کی پرورش و نگہداشت ان کی صفائی، ستھرائی، لباس اور خوراک کا خیال رکھنا اور گھریلو امور کی پاسبانی ہی عورت کیسب سے بڑی قربانی ہے۔ عورت کے اسی کردار کی آج سخت ضرورت ہے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشرے کی غیر محفوظ عورت اگر اپنا وقار، عزت و مرتبہ اور حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چادر زہرہؓ کے سائبان کے نیچے آنا ہوگا۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کی سیرت طیبہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے خوبصورت نمونہ عمل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK