Inquilab Logo

عفو و درگزراسلامی تعلیمات کا مرکزی نکتہ ہے

Updated: January 14, 2022, 1:49 PM IST | Muhammad Shafqatullah Qadri

اسلام میں عفو و درگزر اور باہمی رواداری دین کی بنیادی اساس گردانی جاتی ہے جو اس دین کا جزوِ لاینفک ہے۔عفو و درگزر کا جذبہ جب تک معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقہ میں رچ بس نہ جائے اُس وقت تک کوئی بھی معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں کہلاسکتا

In Islam, man has been given a sp.Picture:INN
اسلام میں انسان کو ایک خاص مقام و مرتبہ دیا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این

کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں باہمی رویہ اور روش میں درگزر اور معافی بنیادی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ رویہ میں عدمِ برداشت لاقانونیت کو جنم دیتا ہے اور ایسا عمل کسی بھی معاشرےکی بنیادیں کھوکھلی کردیتا ہے۔ ظاہراً مغربی جمہوریت اخلاقی روایات و اقدار کی علم بردار کہلاتی ہے لیکن کہیں نہ کہیں کمی موجود ہے جس کے باعث باقاعدہ مضبوط قانون اور ضوابط ہونے کے باوجود باہمی طور پر بین المذاہب ہم آہنگی کا فقدان نظرآتا ہے۔اس کے برعکس اسلام میں عفو و درگزر اور باہمی رواداری اسلام کی بنیادی اساس گردانی جاتی ہے اور دینِ اسلام کا جزوِ لاینفک ہے۔ ایسا رویہ اسلامی معاشرہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی عمل اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر جنگل کا قانون فروغ پاتا ہے۔عفو و درگزر اور رواداری بظاہر الگ الگ الفاظ ہیں تاہم عملی طور دونوں دینِ اسلام کی روح تصور ہوتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے خصائص میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جو قدر ہے وہ انسانی عظمت اور مساوات ہے۔قرآن ارشاد فرماتا ہے:’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی ۔‘‘ (النساء:۱)اسلام میں انسان کو ایک خاص مقام و مرتبہ دیا گیا ہے۔ جبکہ اس سے قبل مذاہب اور تہذیبوں میں کہیں نہ کہیں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جاتی رہی ہے۔ اسلام نے بنی نوع انسان کے اس بلند مقام کو کسی مخصوص نسل، قوم اور مذہب سے منسوب نہیں کیا بلکہ عظمت و مساوات کا باہم مرقع بنایا ہے اور  رنگ و نسل اور لسانیت اور علاقائیت کے سارے بت پاش پاش کرکے تمام انسانوں کو باہمی محبت ومودت اور مساوات کی لڑی میں پرودیا ہے۔ اسلام کی نظر میں تمام بنی نوعِ آدم بحیثیت ِ انسان برابر ہیں۔ یہی تہذیبی اور ثقافتی نظریہ اسلام ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔قارئین کرام ! یہ اسلام اور قرآن کی عظمت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور نبوی فیض کی برکات ہیں کہ اسلام نے عالمگیریت کے لحاظ سے پوری دنیا اور دیگر مذاہب میں بھی اثرات مرتب کیے ہیں اور نتیجتاً پوری دنیا کی فکر تبدیل ہوئی ہے۔یہ اسلام کی خاص فضیلت اور انوکھی شان ہے کہ اس نے نہ صرف اہلیانِ اسلام اور مومنین کو اخوت و مساوات کی تلقین و ہدایت کی ہے بلکہ پوری انسانیت کو یایھا الناس کے اجتماعی خطاب  یا لقب سے پکار کر عالمگیر اخوت و مساوات کا درس دیا ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام اپنی تہذیبی روایات کے بل بوتے پر بین الاقوامی سطح پر اپنے فکری و نظریاتی اثرات مرتب کرچکا ہے۔ اس کی واحد وجہ بین الاقوامی طور پر بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنا اور باہمی رویوں میں برداشت اور رواداری کے ذریعے ماحول سازگار رکھنا ہے۔ اسلام معمولی سطح کی زیادتی اور ظلم کی بھی ممانعت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دانستہ و غیر دانستہ طور بعض اوقات ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ بشری تقاضے کے تحت ایک دوسرے کی حق تلفی یا ایک دوسرے پر زیادتی ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں انتقام کی روش کو اپنانے سے معاشرہ انارکی کی طرف راغب ہوجاتا ہے اور معاشرت تباہ ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو قصاص کی بھی اجازت دیتا ہے جو عین عدل کے قرآنی تقاضوں کے مطابق ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ ساتھ ساتھ عفو و درگزر اور معافی کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ (البقرہ:۱۷۸)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:’’پھر جس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ ‘‘ (الشوریٰ:۴۰)عفو و درگزر کا یہ جذبہ جب تک معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقہ میں رچ بس نہ جائے اُس وقت تک کوئی بھی معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں کہلاسکتا۔
اسلام میں رواداری کا تصور
عفو و درگزر کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبی جو معاشرے کو مہذب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ’’رواداری‘‘ ہے۔ رواداری کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ کسی تعصب اور بغض کے بغیر تحمل اور صبر سے کسی دوسرے کی بات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرنا۔اسلام میں رواداری کا تصور یہ ہے کہ متضاد خیالات کے حامل لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ اس رواداری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر کسی قسم کی ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو مدمقابل کو رنج پہنچائے۔ اسی طرح انھیں ان کے مذہبی عقائد و اعتقاد سے پھیرنے یا مذہبی عمل سے روکنے کے لئے جبر کا طریقہ کبھی اختیار نہ کیا جائے۔صبرو تحمل اور معاشرتی رواداری نہ صرف قومی ضرورت ہے بلکہ اس سے عالمگیر تعلقات کی بحالی میں مدد ملتی ہے اور بین المذاہب رواداری کو فروغ ملتا ہے۔ اس جذبہ سے معاشرتی رہن سہن خواہ وہ قومی و علاقائی سطح کا ہو یا بین الاقوامی نوعیت کا ہو، اس میں باہمی اختلافات اور رنجیدگی پیدا نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ میں خوشحالی کی نئی نئی راہیں کھلتی ہیں اور ریاستی نظم ونسق بطریق احسن چلتا رہتا ہے۔ یوں تو رواداری اسلامی لحاظ سے معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم اس کا عالمگیر پرچار باہمی محبت اور مودت کا ماحول مہیا کرتا ہے اور یہ وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔اسلام کلیتاً تحمل و برداشت اور رواداری کا دین ہے، اس میں کسی قسم کا جبرو زبردستی  کی گنجائش ہے اور نہ ہی پوری دنیا میں اسلام تلوار اور جبرو ظلم کے ساتھ پھیلا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ (البقرة:۲۵۶)اس آیت مبارکہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ہمیں عالمگیر کامیابی و کامرانی اور وقار و تشخص قائم رکھنے کے لئے اعتدال و توازن کا درس دے رہا ہے۔اسلام اعتدال و توازن کا دین ہے، اس میں افراط و تفریط کی قطعی گنجائش نہیں۔ حقیقی اسلامی تہذیب بے شک آقائے دو جہاں نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی امین ہے۔ قرآن عظیم نے امت مسلمہ کے لئے ارشاد فرمایا:’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔‘‘ (البقرة:۱۴۳)قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رواداری اور اعتدال و توازن کو مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں چند ایک مقامات ملاحظہ ہوں:
(۱) صلح و آشتی: قرآن مجید ہمیشہ امن، صلح و آشتی، رواداری، باہمی محبت، درگزر، برداشت اور معافی کی تلقین کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’اور (جو لوگ) غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘(آل عمران:۱۳۴)
(۲) ظلم و زیادتی کے بدلے میں اعتدال اور رواداری:  اسلام میں اگرچہ دشمن کے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینے کی اجازت ہے تاہم یہ بھی تاکید ہے کہ کی گئی زیادتی کے مطابق بدلہ ہونا چاہئے، حد سے تجاوز کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معافی، صلح اور درگزر کی تلقین و ترغیب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(الشوریٰ:۴۰)(۳) کسی کے ناروا سلوک اور رویہ پر اچھا رویہ اختیار کرنا:دینِ اسلام اور تعلیماتِ نبوی ﷺ ہمیں کسی کے ناروا رویہ اور سلوک پر برا سلوک کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتیں بلکہ ان ہر موقع پر رواداری اور برداشت کا درس دیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘(حم السجده:۳۴)(۴) حضور اقدس ﷺ کی نرم طبعی پر نزولِ رحمت: رسول اللہ محبوب خدا ﷺ کی نرم طبعی پر رب کی رحمت جوش میں آگئی۔ فرمان خداوندی ہوا:’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں۔‘‘ (آل عمران:۱۵۹) ان قرآنی احکامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے ہر قدم پر عفو و درگزر اور رواداری کا حکم دیا ہے اور ہمیشہ راہِ اعتدال پر چلنے کی تلقین کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK