ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے رحم دل ہونا اور مشکل یا پریشانی کے اوقات میں حتی الامکان مدد کرنا اور ہمدردی سے پیش آنابھی انسانی اقدار واخلاقی تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو ہے جس کے تعلق سے اسلام نے ایسے مثالی و روشن احکامات و قوانین مرتب کئے ہیں کہ جن کی پیروی میں پوری انسانی دنیا کی راحت و خوش حالی مضمر ہے۔
اسلام نے ایک انسان کے دوسرے انسان پر سماجی حقوق اور اخلاقی احکام و آداب متعین کئے ہیں۔ تصویر : آئی این این
قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسانی اقدار یا اخلاقی تعلیمات کا جو دستور پیش کیا ہے اس میں محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کا باہمی تعامل و ارتباط اور تعلقات سے گہرا تعلق ہے۔
بنیادی طور پر انسانی سماج میں چار قسم کے تعلقات پائے جاتے ہیں : (۱)سماجی تعلقات (۲) مذہبی تعلقات (۳) سیاسی تعلقات اور (۴) معاشی تعلقات۔ان چاروں اقسام کے تعلقات کے بارے میں اسلام نے جو تعلیمات و ہدایات پیش کی ہیں ان میں مذکورہ اخلاقی اقدار کی مستحکم و مضبوط بنیادیں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں ۔
ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے رحم دل ہونا، محبت و پیار کا جذبہ رکھنا اور مشکل اور پریشانی کے اوقات میں حتی الامکان مدد کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا بھی انسانی اقدار واخلاقی تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو ہے جس کے تعلق سے اسلام نے ایسے مثالی و روشن احکامات و قوانین مرتب کئے ہیں کہ جن کی پیروی میں پوری انسانی دنیا کی راحت و خوش حالی مضمر ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ہر انسان پر ضروری ہے اور اس کا انسانی فریضہ ہے کہ وہ تمام نوع انسانی سے نرمی و رحم دلی سے پیش آئے اور اس سے محبت و پیار کا مظاہرہ کرے اور مصیبت و تکلیف کی صورت میں ہمدردی و معاونت کرے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
ـ’’اور نیکی و پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘(مائدہ:۲)
’’اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو ۔‘‘(انفال:۱)
’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف اور بھلائی کا اور رشتے داروں کے دینے کا۔‘‘ (النحل:۹۰)
اور نبی ٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن (اللہ تعالیٰ) رحم فرماتا ہے تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم لوگوں پر رحم فرمائے گا۔(سنن ترمذی)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘ (مسند احمد)
’’ اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب التوحید)
’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور تمام مخلوق میں اللہ کا سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہےاس لئے محبت و ہمدردی کے علاوہ وہ اس بات کی بھی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم و زیادتی کرے یا اس کے رنج و خوف کا باعث بنے اور اس کو تکلیف و نقصان پہنچائے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کی وجہ سے انسان اور حیوان ہی نہیں بلکہ جمادات و نباتات وغیرہ بھی خائف رہتے ہیں ۔ پورا نظامِ امن درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسانی معاشرہ و ماحول نت نئی آفات میں گرفتار ہو کر قلبی و ذہنی بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کے سد باب اور روک تھام کے لئے بڑے سخت اور روشن قدم اٹھائے ہیں ، کہیں کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا ہے جس سے انسان فریب کھا کر ظلم و ستم کے بھیانک اور تاریک گڑھے میں اوندھے منہ گر سکے چنانچہ ظلم و ظالم کی مذمت کرتے ہوئے اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے :
’’اور ظلم کرنے والوں کا کوئی حمایتی و مددگار نہیں ۔‘‘(الشوریٰ:۸)
’’نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ (البقرہ:۲۷۹)
قرآن کریم کی روشنی میں ظلم کتنا شدید گناہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس نے ایک انسان کی زندگی کو اتنی عظیم قدر و قیمت بخشی ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر جرم عظیم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا ۔‘‘ (مائدہ:۳۲)۱
اس طرح قرآن نے ظلم کو بہت ہی عظیم گناہ قرار دیا ہے اور اس سے باز رہنے کی بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے۔ اور صرف ظلم سے اجتناب و احتراز کی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ اگر کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کے جواب میں ظالم و مجرم کے ساتھ انتقامی طور پر بھی انصاف سے تجاوز کرنے کو ناپسند کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی اسی حد تک انتقام ضروری ہے کہ جتنا ظلم آپ کے ساتھ کیا گیا ہےچنانچہ ارشاد ہے:
’’پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی۔‘‘
(البقرہ:۱۹۴)
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین کسی حال اور کسی صورت میں ظلم کو پسند نہیں فرماتا۔ مقام غور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خالق و مالک اور حاکم ہونے کے باوجود کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا تو پھر انسان اور اس کی مخلوق و محکوم کے لئے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اسی کے عطا کردہ اختیارات اور طاقتوں کو دوسروں پر ظلم ڈھانے کے لئے استعمال کرے؟
آیات قرآنی کے علاوہ احادیث رسول ﷺ میں بھی ظلم و ستم کے تعلق سے بڑی نصیحت آمیز اور بصیرت افروز تعلیمات و ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں جن میں بڑی شدت و تاکید کے ساتھ ظلم و زیادتی سے لوگوں کو منع فرمایا گیا ہے :
’’حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اس کو حرام ٹھہرایا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
’’ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص ظالم کو طاقت پہنچانے کیلئے اس کے ساتھ چلتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم شریف، مشکوٰۃ المصابیح)
’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں صحیح ہے لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی کیسے مدد کروں ؟ فرمایا اس کو ظلم سے باز رکھو یا فرمایا اس کو روکو کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس طرح اسلام نے ظلم کا سدباب کرنے کے لئے بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے اس لئے کہ اگر ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے تو معاشرہ میں ظلم و زیادتی عام ہو جاتی ہے، غلط عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں اور جرائم میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے اور پورے انسانی سماج کا امن و امان اور محبت وہمد ردی کا ماحول تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
کفر و شرک اسلامی شریعت اور اس کے دستور میں سب سے بڑا گناہ و جرم ہے۔ لیکن اس گناہ و جرم کے مرتکبین کو بھی اسلام نے انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا ہے۔ ان کے لئے بھی بنا کسی فرق و امتیاز کے حقوق کی خاص رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے یہاں تک کہ غریبوں ، مسکینوں اور مفلسوں کی مالی اعانت، پریشاں حالوں و مجبوروں کی مدد کے سلسلے میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں رکھی ہے بلکہ سب کے ساتھ یکساں حسن سلوک سے پیش آنے کی نصیحت کی گئی ہے اور انسانیت کے ناطے تمام ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا حکم دیا گیا ہے۔
رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’جس نے کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو چکا ہو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے محسوس ہوگی۔‘‘(صحیح بخاری)
’’خبردار! جس شخص نے کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کیا یا اس کی عیب جوئی کی یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام لیا اور اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے لی تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف رہوں گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والفئی)
مختصر یہ کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے انسانی حقوق متعین کرنے میں کوئی جانب داری یا حق تلفی سے ہرگز کام نہیں لیا ہے بلکہ ان کے مال، خون اور عزت کو مسلمانوں ہی کی طرح محترم قرار دیا ہے اور مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مذہبی، سماجی و معاشی اور نجی معاملات میں مساوات کا حق دیا ہے۔
انسانی معاشرہ میں ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ کس طرح کا برتائو کرنا چاہئے، ملنے جلنے اور اٹھنے بیٹھنے کا کیا انداز ہونا چاہئے اور کس طرح بات چیت کرنی چاہئے، اس تعلق سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ان تمام صورتوں میں اخوت، بھائی چارہ اور دوستانہ و ہمدردانہ تعلقات استوار کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اور اسی جذبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے باہمی ملاقات، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت کا انداز اپنانے کا سبق دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
’’مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ (الحجرات:۱۰) ’’اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘ (التوبہ: ۷۱)۔ کلامِ الٰہی کی ان آیات سے بخوبی ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خواہ وہ کسی رنگ و نسل کا ہو اور کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، دوسرے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اپنے بھائی اور دوست جیسے حسن سلوک سے پیش آئے کیونکہ وہ جملہ مسلمانوں کا دینی و ایمانی بھائی اور دوست ہے۔
قرآن مقدس کے علاوہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں اخوت و ہمدردی کے ساتھ، مل جل کر رہنا چاہئے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے رنج و تکلیف کا احساس ہونا چاہئے اور مشکل وقت میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ نبی ٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’مسلمان مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کیلئے سہارا بنتا ہے۔ پھر آپؐ نے مثال دیتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں ۔ یعنی مسلمانوں کو اس طرح مل جل کر رہنا چاہئے کہ وہ مصیبت و پریشانی کے حالات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں ۔‘‘ (صحیح بخاری)
’’تمام مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں ، اگر آنکھ دکھتی ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے، اگر سر میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم بے چینی اور پریشانی کا احساس کرتاہے۔‘‘(صحیح بخاری)
اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی معاشرہ میں اخوت و ہمدردی کا ماحول قائم کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس کو ایمان کی تکمیل اور مسلمان کی بھلائی کا سبب قرار دیا ہے۔نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لائو اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان)۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
غالباً یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک انسان کے دوسرے انسان پر جو سماجی حقوق اور اخلاقی احکام و آداب متعین کئے ہیں ، مثلاً ملاقات، سلام، مصافحہ، معانقہ، مزاج پرسی، قبولِ دعوت اور جنازہ میں شرکت وغیرہ، ان میں بھی اس کو پیش پیش رکھا ہے اور ان کا یہی مقصد بیان کیا ہے کہ ان سے باہمی محبت وہمدردی، بھائی چارگی، انسان دوستی اوررواداری کو فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح اسلام دنیا کے غیر مسلموں کے ساتھ بھی محبت اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے لئے محبت و اخوت کے فروغ کا بہترین ذریعہ دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا بھی ہے۔خود رسول اللہ ?ﷺنےنہ صرف یہ کہ غیر مسلم یہودی کی دعوت قبول فرمائی ہے بلکہ غیر مسلموں کو دعوت دیا کرتے تھےاور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب اظہارِنبوت یا اعلانِ رسالت فرمایا تو بنی ہاشم کو طعام کے لئے مدعو کیااور تقریباً تیس لوگوں کو جمع فرمایا ۔اور کھانا کھلانے کے بعد ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش فرمایا۔
اسی طرح آپ ﷺ نے مہمان نوازی کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ مہمانوں کا اعزازواکرام کرنے کی بہت فضیلت بیان کی ہے۔اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔آپ ﷺ کے پاس مختلف علاقوں اور قبیلوں کے سردار اور وفد آیا کرتے تھے اور آپ ان کی مہمان نوازی فرمایاکرتے تھے۔جنگ بدر میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ،ان کے بارے میں آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو ہدایت و نصیحت فرمائی کہ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کریں ۔اسی لئے بہت سے صحابۂ کرام خود معمولی کھانا کھاکر ان کو بہتر کھانا کھلایا کرتے تھے۔حالانکہ وہ حملہ آور جانی و مالی اور ایمانی دشمن تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی)
ابتدائے اسلام میں بعض مومنوں کو شبہ ہوتا تھا کہ کافر و مشرک اعزا و اقرباکے ساتھ کیسے محبت و ہمدردی اور صلہ رحمی کا برتائو کیا جائے۔ چنانچہ قرآنِ پاک اور حدیث پاک نے اسی دور میں اس مسئلہ کو بالکل واضح فرمادیا اور ارشاد فرمایا کہ :
’’اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمہیں ان لوگوں کو دوستی سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ مین جنگ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ، جو ان سے دوستی کرے وہی ظالم ہیں ۔‘‘
(سور?ۃ الممتحنہ:۸ :۹)
اورحدیث شریف میں ہے :
’’حضرت اسماء بنت ابو بکر فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکے زمانے میں میری والدہ (جو مشرکہ تھیں ) عمدہ سلوک کی طلب میں میں میرے پاس (مدینہ) تشریف لائیں ۔ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ، کیامیں اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ آپؐ نے فرمایا:ہاں ان کیساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الادب)
قرآن و حدیث کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ جو قوم مسلمانوں سے جنگ و جدال نہ کرے اور ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالے تو ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کو اسلام منع نہیں کرتا۔ بعض لوگ لاعلمی یا تعصب کی بنا پر کہتے ہیں کہ اسلام میں اقلیتوں یعنی غیر مسلموں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں ، ان کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے مظلوم و مجبور ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ انصاف کا برتائو نہیں کیا جاتا ۔ یہ سراسر بہتان و الزام ہے کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس میں غیر مسلموں کے حقوق مالی و جانی اعتبار سے مسلمانوں کے حقوق کے مساوی ہیں ۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم اسلامی دستور کے مطابق اپنے جملہ تمدنی حقوق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اپنے پرسنل لاء پر عمل کر سکتے ہیں ، اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں ، ان کے مال و جائیداد پر کوئی جبراًقبضہ نہیں کرسکتا، ان کی جان و عزت نفس پر کوئی دست درازی نہیں کرسکتا۔
خیال رہے کہ اسلام نےانسانی زندگی کے ہر شعبے میں غیر مسلموں کے ساتھ عمدہ برتائو کرنے کا درس دیا ہے اور انسانی حقوق کے نفاذ میں ان کے ساتھ مکمل عدل و انصاف سے کام لیا ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں جس فراخ دلی اور عظیم رواداری کا نمونہ پیش کیا ہے وہ پوری دنیا کے لئے قابل عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح حیرہ کے موقع پر جو معاہدہ ہو ا تھا اس میں تحریر تھا کہ : ’’کوئی بوڑھا جو کام سے معذور ہو جائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہوکر مجبور ہوجائے یا جو مالدار ہو پھر ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے ایسے لو گوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل و عیال کے اخراجات مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کئے جائیں ۔‘‘(انسانی حقوق اور اسلامی نقطۂ نظر )
کسی مسلمان کے معذور یا مجبور ہوجانے پر شریعت اسلامی بیت المال سے اس کی کفالت و تربیت کا حکم دیتا ہے اور یہی حکم ذمی غیر مسلم کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن المسیب سے مروی ہے ’’رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے ایک گھرانے کو صدقہ دیا اور حضوراکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی وہ انہیں دیا جاتا رہا۔ (الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ )اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے : ’’تمام اہل مذاہب پر صدقۂ و خیرات کرو۔‘‘
( نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ)
اس طرح اسلام نے محتاجوں و معذوروں کی خدمت کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں حسن سلوک کا درس دیا ہے اور مسلم یا غیر مسلم ، قومی یا غیر قومی ، نسلی یا غیر نسلی اور ملکی یا غیر ملکی کا فرق کئے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کئے جانے کا حکم دیا ہے۔
ذریعۂ معاش و روزگار بھی انسانی زندگی کا اہم جزو لا ینفک ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے کاروبار کرنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور ان کے خوردو نوش کے خیال رکھنے کی بھی خاص تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور ﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس ۳۰؍صاع جو کے عوض رھن تھی۔(صحیح بخاری ،کتاب الجہادوالسیر)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھاتمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے،حضرت عمر نے اس کا ہاتھ پکڑااور گھر لائے اور اس کو اپنے گھر سے کچھ دیا پھر اس کو بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کااور اس جیسے لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کرو کیونکہ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح ر سوا کریں ۔
(کتاب الخراج )
عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان بچوں کے ساتھ تو ہم کسی قدر محبت وشفقت کا برتائو کرتے ہیں لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمار جو طرز عمل ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کی جانب تو کوئی نظرمحبت و التفات ہوتی ہی نہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ?ٔحسنہ اور حسنِ سلوک سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی محبت ونرمی کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا وہ ایک بار بیمار ہوگیا۔ آپ نے از خود تشریف لاکر اس کی عیادت فرمائی ، اس بچے کے سرہانے بیٹھے ، پھرا س بچے سے فرمایا اسلام قبول کرو اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی ، والد نے بھی کہا ابوالقاسم کی اطاعت کر لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے نکلے ’’تما م تعریفیں اللہ کے لئے جس نے اس کو آگ سے بچالیا۔ ‘‘(صحیح بخاری)
اس حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ بچے پر شفقت و محبت کی جائے چاہے وہ بچہ کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ نیز اس حدیث سے جہاں غیر مسلم بچوں کے ساتھ محبت وشفقت کا برتائو کرنے کا سبق ملتا ہے وہاں غیر مسلم کی عیادت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے :
’’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
اسی طرح اگر کسی غیرمسلم کا انتقال ہو جائے تو انسانیت کے ناطے اس کی تعزیت کے لئے جانے سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔ چنانچہ رد المختار علی الدر المختار میں ہے کہ ’’ کسی یہودی یا مجوسی کے بچے کا انتقال ہوجائے تو اس کے مسلمان پڑوسی کو اس کی تعزیت کرنی چاہئے اور کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہت اچھاجانشین عطا فرمائے اور آپ کے حالات کو بہتر بنائے۔‘‘
انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ میں پڑوس کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ہر انسان اور ہر شئی کا کوئی نہ کوئی یا کچھ نہ کچھ پڑوس ضرور ہوتا ہے مثلاً ایک انسان دوسرے انسان کا پڑوسی ، ایک گھر دوسرے گھر کا پڑوسی ، ایک خاندان دوسرے خاندان کا پڑوسی ، ایک محلہ دوسرے محلہ کا پڑوسی، ایک شہر دوسرے شہر کا پڑوسی، اور ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہوتا ہے۔ اسلام نے پڑوسیوں کو جو انسانی حقوق عطا فرمائے ہیں اور ان کے ساتھ جس حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے وہ سب کے لئے عام ہے اس میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے :
’’اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور شتہ داروں سے اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی سے۔‘‘(النساء:۶۳)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے :
’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانا چاہئے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
’’اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے بے خوف نہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری)
’’جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
’’حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ بے شک میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم سالن پکائو تو اس میں شوربہ زیادہ کرو اور پھر اپنے پڑوسیوں کے گھر والوں کو دیکھو اور اچھی چیز ان کو بھی بھیجو۔‘‘(صحیح مسلم)
مذکورہ بالا فرمان خداوندی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑوسی کے تعلق سے جو حسن اخلاق اور عمدہ برتائو کی ہدایت و نصیحت کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مسلم اور غیر مسلم دونوں کیلئے یکساں ہے۔