Inquilab Logo

اُدئے پور سے رائے پور تک

Updated: February 24, 2023, 10:33 AM IST | Mumbai

اُدئے کا معنی ہے طلوع۔ راجستھان کے شہر اُدئے پور کے اُدئے پور نام کا سبب جو بھی ہو، فی الحال ہم یہ سمجھتے ہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

اُدئے کا معنی ہے طلوع۔ راجستھان کے شہر اُدئے پور کے اُدئے پور نام کا سبب جو بھی ہو، فی الحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کی شرمناک شکست کے بعد کانگریس کا یہاں سے از سرِ نو ’اُدئے‘ ہوا۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کا منصوبہ یہیں زیر بحث آیا اور حتمی فیصلے سے گزرا تھا۔ اس یاترا نے پارٹی کے ڈوبتے سورج کو نئے سرے سے اُبھارنے میں مدد دی۔ یاترا کی شاندار کامیابی سے پارٹی کے لیڈروں کو حوصلہ ملا اور کارکنان میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ اگر یاترا نہ ہوئی ہوتی تو کانگریس کیلئے ۲۰۲۳ء (۹؍ ریاستوںکے انتخابات) اور ۲۰۲۴ء  (لوک سبھا الیکشن) جوئے شیر لانے جیسا ہوجاتا۔ 
 جہاں تک رائے پور کا تعلق ہے، چھتیس گڑھ کے اس معروف شہر میں کانگریس کا مکمل اجلاس (پلینری سیشن) آج سے ہونے جارہا ہے۔ اس سہ روزہ اجلاس میں کئی باتیں زیر بحث آئینگی۔ اے آئی سی سی کے انتخابات ہوں یا نہ ہوں، یہ موضوع تو اپنی جگہ رہے گا ہی، اب سے  ۲۰۲۴ء تک کی پلاننگ بھی زیر بحث آئیگی۔ یہ اجلاس کتنا کامیاب اور کارگر ثابت ہوگا اس سوال سے قطع نظر اس کالم میں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اُدئے پور (چنتن شیویر مئی ۲۰۲۲) سے رائے پور (مکمل اجلاس ۲۴؍ تا ۲۷؍ فروری ۲۰۲۳ء) تک کے ۹۔۱۰؍ ماہ میں کانگریس نے طویل مسافت طے کی ہے۔ گجرات الیکشن میں ضرور اسے خاک چاٹنی پڑی مگر ہماچل پردیش اس نے جیت لیا۔ اس سے بھی زیادہ اہم اور قابل ذکر بھارت جوڑو یاترا تھی جسے غیر متوقع اور غیر معمولی کامیابی ملی۔ بھارت جوڑو یاترا نے کانگریس کو اس کی کھوئی ہوئی طاقت واپس دلانے میں مدد دی۔ اس کی وجہ سے کیڈر میں اُمیدیں جاگیں۔ اتنا ہی نہیں، راہل گاندھی ایک سنجیدہ اور کل وقتی سیاستداں کے طور پر اپنی نئی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یاترا کے ذریعہ مہنگائی، بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں، ادیباسیوں اور سماج کے دیگر کمزور طبقات کے مسائل، ملک میں جمہوری اداروں کی ناقدری، قومی میڈیا کے ذریعہ صرف اور صرف سرکاری ترجمانی اور صنعت و تجارت میں محض چند صنعتی گھرانوں کی اجارہ داری جیسے موضوعات کو عوامی مباحث کا حصہ بنانے میں مدد ملی۔ اسی دوران کانگریس کے صدر کا بھی انتخاب عمل میں آیا۔ الیکشن کے ذریعہ صدر کا انتخاب چونکہ طویل عرصے کے بعدہوا اس لئے اس پر سب کی نگاہیں تھیں۔ صدرِ کانگریس کی حیثیت سے ملکارجن کھرگے کے انتخاب کی اپنی معنویت تھی چنانچہ اس انتخاب کے ذریعہ کانگریس ایک تیر سے کئی نشانے لگانے میں کامیاب ہوئی۔ یاترا کی وجہ سے کانگریسی لیڈروں کی آپسی رسہ کشی بھی کم ہوئی۔ راجستھان کا سچن بمقابلہ گہلوت تنازع بھی کچھ دن کیلئے سرد پڑ گیا تھا۔ اس دوران کانگریس کا سوشل میڈیا پر اثرورسوخ بڑھا اور اس کا اپنا آئی ٹی سیل جو ماضی میں دُبکا بیٹھا رہتا تھا، نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے کمربستہ ہوا۔ اُدئے پور سے رائے پور تک کے سفر میں کانگریس اپوزیشن کا خلاء پُر کرنے اور اس کی آواز بننے میں بھی کافی حد تک کامیاب ہے۔ 
 گزشتہ ۹۔۱۰؍ مہینوں میں کانگریس زیادہ جارح ہوئی جس نے کئی ایسے موضوع اُٹھائے جو کسی اور اپوزیشن پارٹی نے نہیں اُٹھائے ہیں۔ اس بے باکی اور بے خوفی اس کی ساکھ پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دوبارہ منصہ شہود پر آنے کیلئے رائے پور کا سہ روزہ مکمل اجلاس کتنا ثمر بار ثابت ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK