Inquilab Logo

محبوب راہی کے تبصروں پر مزاحیہ تبصرے

Updated: May 01, 2023, 3:37 PM IST | Shakeel ejaz | Mumbai

اس مضمون میں راہی صاحب کے جملے ختم ہونے کے بعد قوس میں لکھے ہوئے جملے شکیل اعجاز کے ہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

راہی صاحب کے مضامین پڑھتا ہوں تو لگتا ہے وہ لفظوں کی پُڑیا باندھ کر قارئین کو دیتے جا رہے ہیں۔ خود بھی جلدی میں ہیں، قاری سے بھی کہتے جا رہے ہیں جلدی جلدی صفحے پلٹتے جائو بھائی۔ ان کے مضمون کی گاڑی پہلے ہی منٹ میں ۱۰۰؍کی اسپیڈ پکڑ لیتی ہے۔ سست ذہن قاری کی چپّل یا پاجامہ کہیں اٹک کر گر جائے تو اٹھانے کا بھی موقع نہیں ملتا۔اس کو معلوم ہونے تک گاڑی اتنی آگے نکل جاتی ہے کہ واپس آنا ممکن نہیں ہوتا۔ واپس آ کر جائے گا بھی کہاں؟ تقریباً آدھے صفحے کا ایک جملہ ختم ہوتا ہے تو یاد نہیں آتا کہ `شروع کس بات پر ہوا تھا  ۔
ان کے مضامین سے کچھ تیز رفتار جملے یہاں پیش کئے جارہے ہیں نیز درمیانی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے واقعاتی تسلسل کو برقرار رکھنے اور ترسیل کی رکاوٹیں دور کرکے  (ایسے طویل جملے خود ترسیل میں رکاوٹ محسوس ہوتے ہیں: ش ا) 
 ادب اطفال میں موصوف کی قامت مقابلتاً کچھ نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس کی بیّن وجہ اس میدان میں شہسوارانِ قلم کا فقدان ہونا ہے ۔(یعنی بڑوں کے نہ ہونے سے بڑے بنے ہوئے ہیں: ش  ا) 
 یہاں جی چاہتا ہے کاش ظفر گورکھپوری اپنی تمام تر تخلیقی توانائیاں محض تخلیقِ ادبِ اطفال کے لئے مختص کردیں اور کامل خلوص اور خود سپردگی کے ساتھ طفلی ادب لکھتے رہنے کو اپنے مستقل ایجنڈے میں شامل کر لیں ۔ (ہمارے دوست مسرور کہنے لگے یہ تو ایک چال معلوم ہوتی ہے ظفر گورکھپوری کو غزل گوئی سے باز رکھنے کے لئے:ش ا)
 راہی صاحب کی تحریروں میں تیز رفتاری ہے۔ وہ سست قاری کا بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بھگا لے جاتے ہیں ۔ ان کے ہاں لفظوں کی ماراماری اور افراتفری کے سبب تفریح کا وہ ماحول نظر آتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے یہ جملے یاد آ جاتے ہیں:
 ’’  ۱۹۴۵ءمیں ہم نے دیکھا کہ دلّی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رُکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا قلی نے اسی کو پکڑ کے سالم مسافر کو ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں اَدھر اٹھا لیا۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔ جس کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا وہ بعد میں اس کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑائوں کی طرح سجا دیتے ۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ آخری رائونڈ میں ایک تگڑا سا تانگے والا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کابایاں ہاتھ پکڑ کر کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کے لے جائیں ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگوں کے چِرے ہوئے چُمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔‘‘
راہی صاحب کی تیز رفتار تحریر سے چند جملے اور:
 ملک زادہ کی کثیرالجہات اور پہلو دار شخصیت کی محض ایک جہت، ایک حیثیت اور ایک ہی پہلو دنیا بھرمیں اس قدر روشن ہوا کہ باقی سارے جاندار شاندار اور تابناک پہلو پس پردہ چلے گئے۔ ان کا محض ایک ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت سے معروف و مقبول ہونا بھی ایک اعتبار سے اردو شعر و ادب کے لئے خسارہ کا سودا ثابت ہوا۔(شعر و ادب کا بھی عجب معاملہ ہے، کسی کے نہ لکھنے سے خسارے میں آتا ہے تو کسی کے لکھنے سے: ش ا)
موصوف زینہ بہ زینہ ترقی کی منازل عبور کرتے ہوئے ہائی اسکول میں لیکچرر کے منصب پر پہنچے (کچھ لوگ دریا بھی عبور کرتے ہیں:  ش ا)
 ادبِ اطفال میں بالخصوص ایسے باصلاحیت لکھنے والوں کی تعداد افسوسناک حد تک کم ہے جو معاشرتی تناظر میں بچوں کی کردار سازی میں کامل طور پر اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جمالیاتی ذوق کی آبیاری کریں۔(جمالیاتی ذوق کا بچپن میں پیدا ہو جانا ٹھیک نہیں۔ پڑھائی میں دل نہیں لگتا: ش ا)
 اس داستانِ دل پذیر کے مطالعہ کے دوران قاری کو بار بار حیرت و استعجاب کے دھچکے لگتے ہیں۔(ہمارے دوست مسرور کا کہنا ہے کہ یہ سفر میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔مسرور نے اس کا مطالعہ سفر کے دوران کیا تو انہیں بھی بہت دھچکے لگے: ش ا)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK