Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ : مہینے بھر میں غذائی قلت سے ۶۶؍ بچوں کی موت

Updated: July 13, 2025, 10:30 AM IST | Gaza

۵؍سال سے کم عمر کے ساڑھے۶ لاکھ سے زائد بچے شدید غذائی قلت سے دوچار، یونیسیف کے مطابق روزانہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ۲۷؍ بچوں کی موت ہورہی ہے۔

Children in Gaza are facing hunger as well as Israeli bullets and bombings. Photo: INN.
غزہ میں بچےبھوک کا بھی سامنا کررہے ہیں اوراسرائیلی گولیوں اور بمباری کا بھی۔ تصویر: آئی این این۔

قابض اسرائیل کی درندگی اور نسل کشی پر مبنی جنگ نے جہاں غزہ کی سرزمین کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، وہیں معصوم بچوں کا خون بھی روز بہایا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم ’یونیسیف‘ کے فلسطین میں ترجمان کاظم ابو خلف نے انکشاف کیا ہے کہ۲۰۲۳ء کے اکتوبر میں جنگ کے آغاز سے اب تک، غزہ میں روزانہ اوسطاً۲۷؍بچے صہیونی گولیوں، بمباری اور گولہ باری کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ 
یہ دل دہلا دینے والا انکشاف ابو خلف نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا جہاں انہوں نے کہا کہ بچوں کے خلاف اتنے وسیع پیمانے پر قتل عام کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اسے نہ صرف انسانی حقوق بلکہ ہر اخلاقی، بین الاقوامی اور انسانی اصول کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔ 
’یونیسیف‘ کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں غزہ کے پانچ ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی ہڈیاں اب کھال سے باہر جھانکنے لگی ہیں، جو دوا پا رہے ہیں نہ خوراک۔ 
سرکاری اعداد و شمارجو غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر، یونیسف اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (اوچا) کے تعاون سے جاری کئےکیے گئے، بتاتے ہیں کہ اب تک۱۸؍ ہزار سے زائد بچے اسرائیلی بمباری اور گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہر شہادت، ہر چیخ، ہر لحد ایک سوالیہ نشان ہے، ان عالمی اداروں کی خاموشی پر، جو مظلوم کو انصاف دینے کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں۔ 
گزشتہ ماہ کے دوران صرف غذائی قلت اور بھوک کی وجہ سے۶۶؍ بچے شہید ہوگئے۔ ان معصوم کلیوں کو یہ ظلم صرف اس لیے سہنا پڑا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جہاں دودھ، دوا، خوراک اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کا داخلہ بھی ممنوع کر دیا گیا ہے۔ بچوں کے دودھ پر پابندی، اسپتالوں میں ادویات کی کمی، اور روزانہ کی بھاری بمباری نے غزہ کو ایک کھلا قبرستان بنا دیا ہے۔ 
یہ سب کچھ ایک ایسی دنیا کے سامنے ہو رہا ہے جو انسانی حقوق کی چمپئن بننے کی دعویدار ہے۔ مگر جب فلسطینی بچوں کا ذکر آتا ہے تو عالمی ضمیر جیسے سوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ قابض اسرائیل کی ریاستی درندگی نے فلسطین کی آئندہ نسلوں کو ہی نیست و نابود کرنے کی سازش شروع کر دی ہے۔ 
سنیچر کوجاری کردہ ایک بیان میں غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج تمام زمینی گزر گاہوں کو مکمل طور پر بند کیے ہوئے ہےاور کھانے، ادویات اور ایندھن کی ترسیل کو سختی سے روک رکھاہے۔ یہ ایک منظم اور بے رحم اجتماعی محاصرہ ہے جو بلاشبہ عصر حاضر کے بدترین جنگی جرائم کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں قحط کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھ رہی ہے۔ صرف گزشتہ ۳؍ دنوں کے دوران درجنوں افراد بھوک اور بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث دم توڑ چکے ہیں۔ ایسی اموات جو قابض اسرائیل کے دانستہ اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ 
سرکاری بیان کے مطابق گزشتہ ایک مہینے میں اب تک ۶۶؍ معصوم بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر شہید ہو چکے ہیں۔ ۵؍سال سے کم عمر کے مزید ساڑھے۶ لاکھ سے زائد بچے اگلے چند ہفتوں میں شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں بچوں کی کل تعداد تقریباً۱۱؍ لاکھ ہے۔ 
فی الوقت غزہ میں ایک کروڑ ۲۵؍ لاکھ افراد مکمل قحط کے نرغے میں ہیں جبکہ آبادی کا ۹۶؍فیصد حصہ خوراک کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔ ان میں ایک ملین سے زائد بچے بھی شامل ہیں جن کی سانسیں، زندگیاں اور خواب اس بے رحم محاصرے کی نذر ہو رہے ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے ایک مرتبہ پھر صاف الفاظ میں کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی یہ مجرمانہ پالیسی دراصل فلسطینی قوم کو اجتماعی طور پر ختم کرنے کی سازش ہے۔ خصوصاً بچوں کو بھوکا رکھ کر، دودھ، آٹے، طبی خوراک اور ادویات کو مکمل طور پر روک کر، نسل کشی کا نیا باب لکھا جا رہا ہے۔ 
بیان میں نہ صرف اسرائیل کو ان جرائم کا مکمل ذمہ دار قرار دیا گیا، بلکہ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسی ان ریاستوں کو بھی اس المیے کا شریک ِ جرم ٹھہرایا گیا ہے جو اسرائیل کی کھلی حمایت کر رہی ہیں یا خاموشی کے ساتھ اس ظلم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ سرکاری بیان میں اقوامِ متحدہ، اسلامی ممالک، عرب ریاستوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا کے تمام باکردار اور باضمیر انسانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مجرمانہ محاصرے کو فی الفور ختم کروانے کے لیے مؤثر اقدام کریں اور خوراک، دوا اور امداد کا داخلہ فوری ممکن بنائیں۔ 
واضح رہےکہ یونیسیف کی اس رپورٹ کےمطابق گزشتہے مارچ میں اسرائیل کے ذریعے جنگ بندی کے معاہدہ توڑنے کے بعدشروع کئےگئےحملو ں میں اب تک ۱۸؍ ہزار فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں جبکہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے شہید اور زخمی بچوں کی تعداد ۵۰؍ ہز ار تک بتائی گئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK