۱۸۹ء میں گاندھی جی پردیس میں روپے پیسے کی دولت کمانے آئے تھے، جس سے اپنے خاندان کی مالی حالت سدھاریں، چوبیس برس بعد جب اپنے دیس کو لوٹے تو ایسی دولت لے کر آئے، جس سے انہوں نے اگلے چونتیس سال میں پوری ہندوستانی قوم کی سماجی اور سیاسی حالت کو سدھارا ہی نہیں بلکہ اس کی کایا پلٹ کردی، یہ سچائی اور محبت ستیہ اور اہنسا کی دولت تھی۔ یہ دونوں چیزیں پہلے بھی ان کے پاس تھیں۔
واشنگٹن میں انڈین ایمبسی کے باہر گاندھی جی کا مجسمہ نصب ہے۔ تصویر: آئی این این
۱۸۹ء میں گاندھی جی پردیس میں روپے پیسے کی دولت کمانے آئے تھے، جس سے اپنے خاندان کی مالی حالت سدھاریں، چوبیس برس بعد جب اپنے دیس کو لوٹے تو ایسی دولت لے کر آئے، جس سے انہوں نے اگلے چونتیس سال میں پوری ہندوستانی قوم کی سماجی اور سیاسی حالت کو سدھارا ہی نہیں بلکہ اس کی کایا پلٹ کردی، یہ سچائی اور محبت ستیہ اور اہنسا کی دولت تھی۔ یہ دونوں چیزیں پہلے بھی ان کے پاس تھیں۔ مگر اب ان کی کچھ اور ہی شان ہو گئی تھی۔ سچائی جو پہلے ایک عادت تھی، اب ایک مذہب، ایک فلسفۂ زندگی بن چکی تھی۔ اہنسا جو پہلے محض ایک روایت تھی، اب جیتے جاگتے عمل کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔
ہندوستان پہنچ کر پہلے گاندھی جی نے سارے دیس کو گھوم پھر کر دیکھا۔ اس سے انھیں یہ اندازہ ہوا کہ غلامی اور غریبی سے عام لوگوں خاص کر کسانوں کی حالت کس قدر ابتر ہوگئی ہے۔ دیس کے پہلے دورے سے نپٹ کر گاندھی جی نے احمد آباد کے پاس سابرمتی میں ستیاگرہ آشرم قائم کیا تاکہ جنوبی افریقہ کی طرح یہاں بھی ان کے ساتھی تپسیا کی آنچ میں تپ کر ستیہ کے سپاہی بن جائیں اور مظلوموں کی حمایت میں ظلم کی تلوار اہنسا کی ڈھال سے روکیں۔
۱۹۱۶ء میں گاندھی جی کانگریس کے جلسے میں شریک ہونے لکھنؤ گئے تو وہاں انہیں بہار کے ایک سچے سیدھے کا شتکار راجکمار شُکل سے معلوم ہوا کہ چمپارن ضلع کے کسان بڑی مصیبت میں ہیں۔ انھیں ’’تنکھیا‘‘ کے قانون کے تحت اپنی زمین کے بیس حصوں میں سے تین حصے میں زبردستی نیل کی کاشت کرنی پڑتی تھی جسے نیل کی کوٹھی کے یورپین مالک سستے داموں میں خرید کر خود نفع کماتے تھے۔ گاندھی جی کی آنکھوں میں دردِ محبت کی جھلک دیکھ کر راج کمار شُکل ان کے پیچھے پڑ گئے اور ان کو کھینچ کر چمپارن لے گئے۔ وہاں کے غریب کسانوں سے مل کر گاندھی جی پر جو اثر ہوا، اسے ان کی زبان سے سنئے،’’بے چارے کسانوں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ چمپارن کے باہر بھی دنیا آباد ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گویا میں ان کا برسوں کا دوست تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کسانوں کے سابقے میں مجھے خدا کا نور، اہنسا اور ستیہ کا جلوہ نظر آگیا۔‘‘ اس سے اندازہ کیجئے کہ جب انہوں نے کسانوں کے ساتھ لے کر اہنسا کی لڑائی لڑی اور جیتی اور ’’تنکھیا‘‘ کا قانون منسوخ ہو گیا، اس وقت ان غریبوں کے کھلے ہوئے چہرے اور ہنستی ہوئی آنکھوں میں گاندھی جی کی سچائی اور محبت کے کیا کیا جلوے نظر آئے ہوں گے۔
چمپارن کی مہم کے ختم ہوتے ہی گاندھی جی کو سچائی اور محبت کے ہتھیاروں کی آزمائ دو معرکوں میں کرنی پڑی انھیں معلوم ہوا کہ گجرات کے کھیدان ضلع میں فصل ماری گئی ہے۔ کسانوں کی حالت ابتر ہے مگر حکومت کی طرف سے لگان کا تقاضا بڑی سختی سے کیا جا رہا ہے۔ ادھر احمد آباد میں کپڑے کے مل مالکان جی بھر کے نفع کمار ہے ہیں۔ مگر مزدوروں کو اتنی مزدوری نہیں ملتی کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ گاندھی جی جن کے دل میں سارے جہان کا درد تھا یہ سنتے ہی بے چین ہوگئے اور فوراً گجرات پہنچے۔ احمد آباد میں انہوں نے مل مزدوروں کا واجبی مزدوری حاصل کرنے کے لئے ہڑتال پر آمادہ کیا اور کھیدان میں کسانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ حکومت سے لگان کی وصولی اگلے سال تک ملتوی کرنے کی درخواست کریں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو وہ کسان بھی جو پورا لگان دے سکتے ہیں، اس کے ادا کرنے سے انکار کردیں چاہے ان کی زمینیں ضبط ہو جائیں اور انھیں جیل جانا پڑے۔ہڑتالیں تو دنیا میں بہت ہوا کرتی ہیں اور ہندوستان میں بھی اس سے پہلے ہو چکی تھی، لیکن گاندھی جی کی تحریک پر جو ہڑتال ہوئی اس کی شان کچھ اور ہی تھی۔ انہو ں نے مزدوروں سے چار شرطیں کیں۔ ایک تو یہ کہ بھول کر بھی تشدد سے کام نہ لیں۔ دوسرے جو مزدور ان کا ساتھ چھوڑ کر کام پر واپس جانا چاہیں انھیں نہ ستائیں، تیسرے خیرات کا پیسہ ہرگز نہ لیں۔ چوتھے ہڑتال کتنے ہی دن چلے، استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور کسی جائز طریقے سے روزی کما کر کھائیں، ان شرطوں میں گاندھی جی کا یہ اصول جھلکتا تھا کہ اچھے مقصد کے لیے جو وسائل اختیار کئے جائیں، وہ بھی اچھے اور پاک ہونے چاہئیں۔ بیچ میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے، مگر آخر میں ہڑ تال کامیاب ہوئی اور اس طرح ہوئی جیسے گاندھی جی چاہتے تھے، یعنی صلح و آشتی کی فضا میں۔
اب رہی کھیدان کی تحریک تو شاید وہ ہمارے دیس میں سول نافرمانی کی پہلی مثال تھی۔ اس میں گاندھی جی نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ کسان کی طرف سے کسی قسم کا تشدد بے عنوانی نہ ہو، ورنہ تحریک کی اخلاقی شان باقی نہ رہے گی۔ گاندھی جی کے الفاظ یہ ہیں’’اگر انہوں نے ذرا بھی بدتمیزی کی تو ستیہ گرہ کی ساری خوبی جاتی رہے گی۔ جس طرح سنکھیا کے ایک قطرہ سے سارا دودھ زہریلا ہو جاتا ہے۔‘‘ یہاں بھی ستیہ گرہیوں کو اسی خوشی سے ضبط اور امن کے ساتھ دکھ اٹھاتے دیکھ کر بدیسی حکومت کا دل پسیجا اور غریب کسانوں سے لگان کی وصولی ملتوی کر دی گئی۔
چھوٹے پیمانے پر ستیہ گرہ کے کئی تجربے کرنے کے بعد گاندھی جی کو یہ بھروسا ہو گیا تھا کہ ضرورت کے وقت یہ مہم بڑے پیمانے پر چلائی جا سکتی ہے۔ یہ ضرورت کا وقت بہت جلد آ گیا۔ مارچ ۱۹۱۹ء میں بدیسی حکومت نے رولٹ ایکٹ کے نام سے ایک قانون پاس کیا، جس کی رو سے سیاسی جد و جہد اور اظہار رائے کی تھوڑی بہت آزادی جو ہندوستان یوں کو اب تک حاصل تھی ان سے چھین لی گئی۔ گاندھی جی نے اس قانون کے خلاف ستیہ گرہ کی تحریک شروع کی جو سارے دیس میں اس سرے سے اس سرے تک پھیل گئی۔ بدیسی حکومت گھبرائی کہ کہیں یہ زلزلہ اس کی جڑوں کو ہلا کر نہ رکھ دے اور اس نے طے کر لیا کہ ستیہ گرہ کی تحریک کو اپنی پوری قوت سے کچل دے۔ دہلی کے چاندنی چوک میں، امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں نہتے اور پرامن جلوس پر گولیاں چلائی گئیں۔ بمبئی میں پولیس نے اینٹوں کا جواب نیزوں سے دیا اور انہیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا۔ احمد آباد اور اس سے بھی زیادہ لاہور میں عوام قابو سے باہر ہوگئے اور حکومت نے مارشل لاء کے ذریعے دل کھول کر اس کا انتقام لیا۔
ستیہ گرہ کے لئے اب تک ہڑتال اور سول نافرمانی سے کام لیا گیا تھا۔ اب گاندھی جی نے ایک انوکھا طریقہ سوچا جو اس وقت دنیا میں کہیں آزمایا نہیں گیا تھا۔ یعنی نان کو آپریشن یا عدم تعاون۔ ان کا خیال تھا کہ مٹھی بھر بدیسی ہمارے دیش میں اپنی حکومت محض اس وجہ سے چلا سکتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ مختلف طریقے سے تعاون کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی ملازمت چھوڑ دیں، اپنے بچوں کو ان کے اسکولوں اور کالجوں میں نہ پڑھائیں، ان کی عدالتوں میں نہ جائیں تو ان کے لئے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ان کی زندگی کا وہ سنہری دن تھا، جب کلکتے میں آل اندیا نیشنل کانگریس کا ایک اجلاس ستمبر ۱۹۲۹ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں ہوا اور اس میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا کہ اگر حکومت، ملک کی ان تینوں مانگوں کو منظور نہ کرے تو باامن عدم تعاون کی تحریک شروع کی جائے۔ اسی سال دسمبر میں نیشنل کانگریس کے سالانہ جلسے میں جو ناگپور میں ہوا، گاندھی جی نے نیا دستور منظور کیا جس میں کانگریس کا نصب العین یہ رکھا گیا،’’سوراج حاصل کرنا، اگر ممکن ہو تو سلطنت برطانیہ کے اندر۔ ورنہ اس کے باہر۔‘‘ اور اس کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی، ’’سوراج حاصل کرنے کے باامن اور جائز ذریعے استعمال کئے جائیں۔‘‘ اسی کانگریس میں ہندو مسلم اتحاد، کھادی کی حمایت اور چھوت چھات کی اصلاح کے ریزولیوشن بھی پاس ہوئے۔ یہ گاندھی جی کی حیرت انگیز کامیابی تھی۔ جنوبی افریقہ سے واپسی کے سات برس کے اندر انہوں نے قومی آزادی کی تحریک کوان اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دیا تھا، جس پر ان کے نزدیک مذہب انسانیت جسے وہ ’’نیتی دھرم‘‘ کہتے تھے، مبنی تھا۔ ان کے نیتی دھرم کے اصول یہ تھے، ۱۔ اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ دنیا میں سچائی اور محبت کے قانون کا راج ہے۔ ۲۔ اس قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا۔ ۳۔ سب مذہبوں کو بنیادی طور پر ایک سمجھنا اور سب کا یکساں احترام کرنا۔انہی اصولوں کی روشنی میں گاندھی جی قومی تحریک کو چلانا چاہتے تھے اور انہی کے سانچے میں قومی مزاج کو ڈھالنا چاہتے تھے۔
اب گاندھی جی کی زندگی کا آدھا مشن انجام پا چکا تھا۔ ہندوستانی قوم نے ان کا پیام سن لیا تھا اور مان لیا تھا۔ اگلی چوتھائی صدی میں انھیں مشن کو پورا کرنا تھا اور جو باتیں اصولاً مانی جا چکی تھیں، ان پر عمل کرا کے، ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو جب ان کی آنکھیں بند ہوئیں۔ ان کا کام ایک حد تک پورا ہو چکا تھا۔
(طویل مضمون سے اقتباسات)