جنوبی امریکی ملک کولمبیا کی ای آئی اے یونیورسٹی میں طلبہ سے راہل گاندھی کا خطاب۔ ملک کو درپیش کئی چیلنجوں کا ذکر کیا۔ملک کے مستقبل سے پُرامید ۔
EPAPER
Updated: October 02, 2025, 9:00 PM IST | Bogota
جنوبی امریکی ملک کولمبیا کی ای آئی اے یونیورسٹی میں طلبہ سے راہل گاندھی کا خطاب۔ ملک کو درپیش کئی چیلنجوں کا ذکر کیا۔ملک کے مستقبل سے پُرامید ۔
جنوبی امریکی ملک کولمبیا کی مشہور ای آئی اے یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئےکانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور ملک کے اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی نے کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجوں کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کے تئیں پرامید ہونے کی بھی بات کہی۔ انہوں نے طلبہ سے خطاب میں متعدد اہم باتوں کا ذکر کیا اور تقریباً ۱۵؍ منٹ کے اپنے ابتدائی خطاب کے بعد سوال جواب کا سیشن شروع کیا جس میں انہوں نے طلبہ کے متعدد سوالات کے واضح اور دوٹوک جوابات دئیے۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی کی قیادت والی حکومت پرسخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہندوستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج جمہوریت پر ہونے والا حملہ ہے۔ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت اس کی کثیرثقافتی اور کثیرمذہبی روایت ہے اور یہی اس کی اصل پہچان ہے لیکن اس شناخت کو ختم کرنے یا متاثر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں مگر ہم نے اس سلسلے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی حکومت اقتدار کا غلط استعمال کررہی ہے: سماجوادی سربراہ
راہل نے کہا کہ ہندوستان انجینئرنگ اور ہیلتھ کیئر جیسے شعبوں میں زبردست صلاحیت رکھتا ہے، اس لئے میں ملک کے مستقبل کو لے کر پُرامید ہوں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے ڈھانچے میں سنگین خامیاں بھی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا خطرہ جمہوری نظام پر ہونے والا حملہ ہے۔ راہل گاندھی نے استدلال پیش کیا کہ جمہوریت ہی وہ واحد نظام ہے جو مختلف روایات، مذہبی عقائد اور خیالات کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن آج یہ جمہوری ڈھانچہ ہی خطرے میں ہے جو ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک بڑی آزمائش ہے۔
راہل گاندھی نے کہاکہ ہندوستان دراصل مختلف مذاہب، زبانوں اور روایات کے درمیان ایک مکالمے کا نام ہے۔ یہ مکالمہ صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں تک جاری رہے گا۔ ہمارے یہاں ۱۶؍ سے ۱۷؍ بڑی زبانیں اور بے شمار مذاہب اور رسوم ہیں۔ ان سب کو زندہ رکھنے کے لیے جگہ درکار ہے اور وہ جگہ صرف جمہوریت ہی فراہم کرسکتی ہے۔مزید برآں انہوں نےآر ایس ایس اور بی جے پی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی اصل سوچ بزدلی پر مبنی ہے۔ انہوں نے وزیر خارجہ کے حالیہ بیان کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’چین ہم سے زیادہ طاقتور ہے، ہم اس سے لڑائی کیسے کرسکتے ہیں ؟‘‘ اس پر راہل گاندھی نے طنز کیاکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی نظریاتی بنیاد ہی بزدلی ہے۔راہل گاندھی نے ہندوستانی سیاسی نظام کا تقابل چین سے کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ مختلف خطوں اور مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان کشمکش بڑھ رہی ہے اور یہ بڑھانے کا کام جو طاقتیں کررہی ہیں وہ آج برسراقتدار ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان جیسے ملک کے لئے تنوع کو دبانا ناممکن ہے اور یہی اس کی اصل طاقت بھی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’بریلی میں مسلمانوں کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے‘‘
راہل نے کہا کہ ہم وہ نہیں کر سکتے جو چین کرتا ہے۔لوگوں کی آواز دبا دینا اور ایک آمرانہ نظام چلا نا۔ ہندوستان کے تنوع کو دبانے کی کوشش دراصل اس کی جڑوں پر وار کرنے کے مترادف ہے۔ راہل گاندھی نے خطاب کے دوران مرکز کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی۔ انہوں نے خصوصی طور پر نوٹ بندی کی پالیسی کا ذکر کیا اور — اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ایسے بے تکےاقدامات نے بنیادی عوامی معیشت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ انداز ’’اوپر سے نیچے‘‘ فیصلہ سازی کی مثال ہے، جہاں عام لوگوں کی زندگی اور ان کی سہولت کو مدنظر رکھنے کے بجائے سیاسی ایجنڈے کے نفاذکو فوقیت دی گئی۔ان کے مطابق، نوٹ بندی، ٹیکس پالیسیز اور مالیاتی کنٹرول ایسے اوزار ہیں جو اگر غیر شفاف انداز سے استعمال ہوں تو جمہوری ڈھانچے کو کمزور بنانے کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے استدلال پیش کیا کہ ایسے فیصلے — جن میں عوامی مشاورت نہ ہو — ملک کے مختلف طبقات کے درمیان تقسیم کو بڑھا سکتے ہیں۔راہل گاندھی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے جو شفاف ہوں، جن پرکھلی بحث کی جاسکے اور ان کا اثر عوامی سطح پر جانچا جاسکے۔ انہوں نے یہ مؤقف اپنایا کہ صرف طاقت کے استعمال سے استحکام نہیں آتا بلکہ اعتماد اور شراکت داری سے آتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ’’مرکزی سطح پر بدعنوانی اپنے عروج پر ہے‘‘ اور تین یا چار بڑے بزنس گروپ پوری ہندوستانی معیشت کو اپنے قبضے میں لے رہے ہیں، جن کے وزیر اعظم کے ساتھ براہِ راست تعلقات ہیں۔ راہل نے کہا کہ پولرائزیشن پیدا کرنے والے افراد یا قوتیں ایک بڑا حصہ ہیں جنہوں نے معاشرتی تقسیم کو ہوا دی ہے۔— وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ سیاست میں ’’ہم اور وہ‘‘ کی سوچ، معاشرتی تناؤ اور مختلف فرقوں کے مابین تفرقہ سماجی کشیدگی پیدا کرتاہے۔راہل گاندھی نے عالمی تناظر میں معاشی بحران اور پولرائزیشن (سماجی تقسیم) کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ جو امریکہ میں ٹرمپ کے ساتھ تقسیم پیدا کر رہے ہیں وہ وہی ہیں جنہوں نے صنعت کاری کی وجہ سے اپنی ملازمتیں کھوئیں جبکہ اس کے مقابلے میں چین نے دنیا کو دکھایا کہ ایک غیر جمہوری نظام میں پیداوار کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہم جمہوری ملک ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم چین کی طرح صنعت کاری کر سکتے ہیں مگر جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے۔